Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کچھ بھی کر گزرنے ،پل میں مکرنے کی ماہر ”سیاسی زبان“

ثمینہ عاصم۔جدہ
بعض لوگ بہت کم گو ہوتے ہیں، یوں کہہ لیجئے کہ ایسے لوگ بولنے میں ”کنجوسی“ کرتے ہیں۔ان سے کہیں کہ آپ بولتے کیوں نہیں تووہ مختصر جواب دیتے ہیں کہ بھیا! ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ خاموش لوگ جب اپنی مرضی سے بولتے ہیں تو بقول شخصے اس انداز میں بولتے ہیں گویا مردہ کفن پھاڑ کر گفتگو کر رہا ہے ۔
یہ حقیقت ہے اور بزرگوں سے سنا بھی ہے کہ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی۔ اس میںبے انتہاءلچک ہوتی ہے اسی لئے یہ بہت جلد بلکہ ا کثر و بیشتر پھسل بھی جاتی ہے۔ صبح کو جب ا نسان نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کے اعضا و جوارح حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے زبان اپنے افعال انجام دینا شروع کرتی ہے ۔شوہر حضرات کی زبان صبح کو گفتگوکی ”بونی“کرتی ہے تو عموماً ”چائے اور بیگم“کے سابقے اور لاحقے کا حامل کوئی جملہ زبان سے ادا کیاجاتا ہے۔اگر مکمل جملہ ادا کرنے کی ہمت نہ بھی ہو تو”بیگم، چائے“سے ہی کام چل جاتا ہے کیونکہ ان دو لفظوں میں تمام معانی و مفاہیم موجود ہوتے ہیں۔
ہم اکثر زبان چلانے سے پہلے اپنی زبان کو سمجھاتے ہیں کہ دیکھو سیدھی بات کرنی ہے ، الٹی نہیں کرنی اور ہر الٹی سیدھی بات سے بچنا ہے ۔ جھگڑا بھی نہیں کرنا۔ اگر ایسا کیا تو خطا تمہاری ہو گی اور سزا ہمیں ملے گی لیکن پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس زبان سے بدزبانی ہو جاتی ہے۔ اگر آپ عمر میں یا مرتبے میں یا معیار میں چھوٹے ہوں تو بد زبانی پرایک آدھ تھپڑ تو پڑ ہی جاتا ہے۔ زبان کو قابو میں رکھنے کے ہمارے منہ میں 32دانت پہرے دارکے طور پر موجود ہوتے ہیںپھر بھی زبان اپنی کارستانیوں سے باز نہیں آتی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ 32 پہرے دارحیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور ”زبان دار“ شخص اپنی انگلی ان کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے اور ”انگشت بدنداں“ کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتے۔ زبان وہ وحشی درندہ ہے جسے قابو میں رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ اسی لئے خاموشی کو عقل مندی کہا جاتا ہے ۔اسے صاحبان علم کے لئے زیور اور جاہلوں کے لئے پردہ کہا گیا ہے۔ زبانوں کی کئی قسمیں ہیں ان میںکالی زبان، لمبی زبان ، میٹھی زبان، تیکھی زبان، بدزبان، قینچی کی طرح چلنے والی زبان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی ، چینی ، عربی اور اردووغیرہ بھی زبان کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔
کچھ لوگ الفاظ کا چناو بڑے اچھے انداز میں کرتے ہیں۔ شاید انہیں کتابیں پڑھنے کی بہت عادت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ زبان دانی گلی محلوں سے بھی سیکھتے ہیں لیکن میرے خیال میں زبان چلانے سے بہتر ہے خاموشی۔ یہ وہ ہتھیار ہے جس سے بڑے بڑے لوگ گھائل ہوجاتے ہیں اور دوسرے کو ڈھیر کرنے کے لئے آپ کو لب ہلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ دوسرا بول بول کر یا تو خود ہی خاموش ہوجاتا ہے اور یاپھرشرمندہ ہوجاتا ہے کہ میں نے اتنا کچھ کہہ دیا یہ تو بولتا ہی نہیں لیکن جب تک آپ بولتے نہیں، کسی کو یہ پتا ہی نہیں چل سکتا کہ آپ کتنے پانی میں ہیں ۔
ہمارے بزرگوں نے کہا ہے کہ دوسروں کو بولنے کا موقع دیںکیونکہ جب دوسرے بولتے ہیں تو اسی وقت ان کی شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے بلکہ سننے والا اگر تجربہ کار ہو تو اس کے سامنے بولنے والے کا گویا خاندان ہی کھل جاتا ہے۔ جاہل آدمی اگر عالموں کی محفل میں بیٹھا ہو تو اسے بھی عالم ہی سمجھا جاتا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ لوگ زیادہ بولنے والے پر توجہ نہیں دیتے۔ 
انسان کو ہمیشہ بامقصد اور بامعنی بات کرنی چاہئے اور ایسی باتیں عالموں سے سن کر یا کتابیں پڑھنے کے بعد ہی کی جاسکتی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ جب آدمی کو بامقصد باتیں کرنے کی عادت ہو جاتی ہے تو وہ خاموش رہنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے انسان کو زندہ رہنے کے لئے اناج کا ذخیرہ جمع کرنا پڑتا ہے اسی طرح بامقصد بات کرنے کے لئے الفاظ کا ذخیرہ جمع کرنا پڑتا ہے۔ الفاظ کا ذخیرہ ذہین و فطین لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں، اخبارات اور میگزین پڑھنے سے ہی ذہن میں جمع ہوتا ہے۔ 
مثال ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ کچھ لوگ بولنے کے لئے احتیاط سے کام لیتے ہیں تا کہ لوگ انہیں اچھے لفظوں میں یاد رکھیں لیکن کچھ لوگ اندھا دھند بولتے نظر آتے ہیں۔زبان کو کسی بے لگام گھوڑے کی ماننددوڑاتے ہیں ۔ زبان میں ہڈی نہیں ، اسی لئے شاید وہ بڑی تیز چلتی ہے ورنہ اتنا بولنے پر شاید ہڈی کے ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ۔
زبان کی ایک قسم وہ ہے جو ہمارے اکثرسیاست دانوں کے منہ میں ہوتی ہے۔ یہ وہ سیاست دان ہوتے ہیں جو لوگوں سے ووٹ لینے کے لئے ان کے مسائل حل کرنے کی خاطر اپنی زبان دیتے ہیںاوروعدے پورے کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں اور اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد وہ اسی زبان سے مکرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔یوں یہ زبان کچھ بھی کر گزرنے اورپل بھر میں مکرنے کی ماہر ہوتی ہے۔ اسے ہم اپنی آسانی کے لئے ”سیاسی زبان“ بھی کہہ سکتے ہیں۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: