Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دخترانِ پاکستان ،جو سمجھتی ہیں حجاب ضروری ہے، مجبوری نہیں

 
 انہیں علم ہے کہ پولیس ہو یا کوئی دیگر شعبہ، زینت تو ہے ہی مستور ہونے کیلئے 
 
شہزاد اعظم۔ جدہ
 
اگر نیت صاف، عزم راسخ اور جذبہ سچا ہو تو کسی قسم کی مجبوریاں منزل کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتیں۔ زیر نظر تصویرچلا چلا کر اس عالمگیر صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں کی خواتین تمام شعبہ¿ حیات میں خدمات انجام دینے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر انہیں مواقع فراہم کر دیئے جائیں تو وہ دنیا کی کسی بھی ہم صنف سے بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔ دوسری جانب ایسی شخصیات بھی ہیں جو ”بہانہ¿ بسیار“ کے مترادف وضع وضع کی تاویلیں گھڑ نے کی عادی ہوتی ہیں اور نازک صنف ہونے کا فائدہ اٹھا کر خود کو مظلوم ثابت کرنا ہی ان کا مطمحِ نظر ہوتا ہے۔ ان کے حوالے سے ایک مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ”لیلے کے پاس چھری رکھ دی جائے اور پھر دھواں دھارانداز میں نصیحتیں کی جانے لگیں کہ لیلے کو چاہئے کہ وہ چھری سے بالکل نہ ڈرے، اس کا خوفزدہ ہونا، اس کا کپکپانا اور ذبح ہونے کے خوف سے اس کی گھگی بندھنا، سب کا سب عبث، ناقابلِ قبول، بے بنیاد، کم ظرفی، کم ہمتی اور صنفی تضحیک کے مترادف ہے۔ “یہی نہیں بلکہ چھری بھی گاہے بگاہے بیانات جاری کرنے لگے کہ” لیلوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذہنیت درست کریں، انہیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ہر چھری ذبح نہیں کرتی۔ وہ ہر چھری کو دیکھ کر یہ کیوں سوچتے ہیںکہ یہ انہیں ذبح کرنے کے لئے ہی بنی ہے۔اس کے جواب میں لیلوں کے طرفدار یوں بیان فرماتے ہیں کہ بلا شبہ ہر چھری لیلے کو ذبح کرنے کے لئے نہیں بنی مگر ہر لیلے کو ذبح چھری سے ہی کیاجاتا ہے۔ 
مردحضرات بھی اپنی زندگیوں میںقدرتی طور پر بھرے ہوئے رنگ کی بجائے اپنی مرضی کے رنگ سے زندگی کو رنگین کرنا چاہتے ہیں چنانچہ طرح طرح کا جال بنتے ہیں ، کبھی شانہ بشانہ، کبھی روشن خیالی اور کبھی مساوات کے نعرے بلند کر کے وہ اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اگر وہ صنف مخالف کو”ریمپ پر بلیانہ چال “چلا کر، اینٹرٹینمنٹ کے بہانے چراغِ خانہ کو شمعِ محفل بنا کراور نازک صنف کو اپنے ”کرخت “اقدامات کے ذریعے شانہ بشانہ چلا کرسیدھی انگلی سے گھی نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو انگلی ٹیڑھی کر لیتے ہیں اور پھر انہیںکبھی زدوکوب کرتے ہیں، کبھی قید کر لیتے ہیں ا ور کبھی ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ مردوں کو اگراپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوششوں میںپہلے ہی قدم پر ناکام کر دیاجائے تو وہ اپنا سا منہ لے کر لوٹ جائیں گے اس کے لئے ضروری ہے زینت کی نمائش سے گریز۔وہ جانتی ہیں کہ زینت تو ہے ہی مستور ہونے کے لئے ۔یہی وہ لائق ستائش دخترانِ پاکستان ہیں جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں تاریخ رقم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں۔ آفریں صد آفریں۔ 
 
 
 
 
 

شیئر: