Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت کواپنی ترجیحات خود متعین کرنی چاہئیں، فائزہ مغیث

 
کسی قوم کی شناخت پرچم، قومی ترانہ اور زبان ہوتی ہے، ہوا کے دوش پرگفتگو
زینت شکیل۔ جدہ 
محترمہ فائزہ نے بیچلرز ڈگری مکمل کی اور اردو کی ٹیچر ہیں۔انکے والد جاوید شمسی نہایت اصول پسند شخصیت ہیں ۔ انہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ یہی سکھایا ، سمجھایا اور نصیحت کی کہ ہمیشہ رزقِ حلال ہی کمانا چاہئے ۔اس سے انسان نیک اور پرہیز گار بنتا ہے۔انہوں نے اس بات کو تربیت میں شامل کیا کہ سستی و کاہلی سے دور رہنا چاہئے اورسادگی اپنانی چاہئے ۔ وہ اپنے دفتر یعنی ملازمت کی جگہ سے کبھی کوئی عام استعمال کی معمولی سی کوئی چیز کبھی گھر لیکر نہیں آئے۔ وہ کہتے تھے کہ ہ اشیاءخواہ معمولی سہی مگر دفتر کے استعمال کے لئے ہیں، گھر لے جانے کے لئے نہیں۔
فائزہ کی والدہ شہناز شمسی بھی بہت محنتی خاتون ہیں ۔انکا کہنا ہے کہ زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنا چاہئے ۔ہر حال میں مالک حقیقی کا شکر ادا کرنا چاہئے اور خوش رہنا چاہئے ۔ لوگوں سے ملو جلو،اپنا آپ اچھے طریقے سے مہذب اور اسٹائلش انداز میں رکھو اور گھر پر بالکل گھریلوانداز میں رہویعنی دنیا کے ساتھ دین کو بھی لیکر چلو۔حالات جیسے بھی ہوں خود کو ماحول سے ہم آہنگ کرنا سیکھو۔
محترم مغیث کا تعلق پنجاب سے ہے۔ انہوں نے انگریزی میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ ایک معروف کیمیکل کمپنی کے شعبہ سیلزاینڈ مارکٹنگ کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ فائزہ صاحبہ کا کہنا ہے کہ سسرال میں ان کے سب بہت خیال رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ساس اور سسربہت نیک ہیں۔شادی کے بعد کوئی رسم یا رواج مختلف نہیں لگا۔ ہم دونوں آپس میں کزن بھی ہیں۔بیٹی کو مماکے ہاتھ کا کھانا پسند ہے۔علیزے مغیث کو شاپنگ کا شوق ہے۔عثمان مغیث اورالشبہ مغیث کو مختلف شہروں کی سیر کرنا دلچسپ لگتا ہے۔
محترمہ فائزہ کے بھائی طلحہ شمسی ابو ظبی میں رہتے ہیں اور سب گھر والوں کی فکر کرتے ہیں۔ انکی ایک بہن کراچی میں رہتی ہیں جبکہ ایک بہن ابو ظبی میں ہی مقیم ہیں۔ ایک بہن کا نام بسمہ اور دوسری بہن کا نام عائشہ ہے۔ انکا خیال ہے کہ رشتے ناتے بزرگوں کو ہی طے کرنے چاہئیں کیونکہ ان کے پاس زندگی کا قیمتی تجربہ ہوتا ہے۔ 
اس کائنات کی ہر حیات پانی پر مشتمل ہے۔ حیات انسانی میں تین مضامین اہم ہیںتوحید ،رسالت اور آخرت۔ علم والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ان تینوں مضامین کی تیاری میں ہر لمحہ مصروف رہتے ہیں ۔انسانی ذہن ہمہ جہت ہے لہٰذا ذہن میں عمل و ارادے کے چشمے پھوٹتے ہیںاور خارجی فعالیت اختیار کر لیتے ہیں۔زبان کسی بھی انسان کی شخصیت کے اظہار کا وسیلہ ہے ۔اسکا اندازگفتگو اسکی فطرت کے رموز کاانکشاف کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں ہماری بات چیت ہوا کے دوش پر محترم مغیث اور انکی اہلیہ محترمہ فائزہ سے ہوئی۔ فائزہ صاحبہ نے کہا آجکل یہ مسئلہ گمبھیر شکل اختیار کر گیا ہے کہ ہم اپنی زبان کو اہمیت نہیں دے رہے ۔کسی قوم کی شناخت اسکا پرچم، قومی ترانہ اور وہاں کی زبان ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی مادری زبان میں جدید علوم کی تعلیم دیتے ہیں ۔اس طرح اس معاشرے میں علم وہنر اور متمدن زندگی تمام شعبوں میں جاری رہتی ہے اردو زبان تو پوری دنیا میں مقبول ہے ، اس لئے اس کی آبیاری میں اپنااپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہئے۔
آج کل گھروں میں والدین کو وہ اہمیت نہیں ملتی جیسی کہ پہلے زمانے میں ملا کرتی تھی ۔گھر میں موجود ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والدین کو پرانے زمانے کا حامل نہ سمجھیں اور اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اب جدید دور میں یہ لوگ ”ان فٹ“ ہو چکے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ بزرگوں کے پاس پوری زندگی کا قیمتی تجربہ ہوتا ہے اور ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
محترمہ فائزہ کا کہنا ہے کہ ہرعورت کواپنی ترجیحات خود متعین کرنی چاہئیں کیونکہ جس طرح ہر گھر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ،اسی طرح ہر ایک کی ذمہ داری بھی مختلف ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک ہی عورت کی ذمہ داری الگ الگ دور میں مختلف ہوسکتی ہے ۔ہم لوگوں نے ہر شعبہ¿ زندگی میں بحث برائے بحث کا رویہ اپنایا ہوا ہے ۔یہ طریقہ درست نہیں ۔طلبہ وطالبات آجکل اردو کے مضمون کو بہت مشکل سمجھنے لگے ہیں اور اسکی یہی وجہ ہے کہ آجکل گھر پر بھی انگریزی ہی بولی جاتی ہے یاپھر طالبعلم صبح سے شام تک کالج، ٹیوشن اور اکیڈمی میں ”عالمی زبان“ ہی استعمال کرتا رہتا ہے تو یہی اس کی عادت ہو جاتی ہے۔
اردو اتنی مشکل نہیں کہ اسکے سبب سے بڑے درجے میںنچلے درجے کی کتاب پڑہائی جائے۔ پوری دنیامیں اردو بولنے والے موجود ہیں اور اسی وجہ سے دنیا کے تقریباً ہر ملک میںمشاعرہ منعقد کیا جاتا ہے ۔ لوگوں کا جم غفیر بتاتا ہے کہ اردوکو تمام دنیا میں ایک شائستہ زبان کی حیثیت سے جاناجاتا ہے۔
فائزہ صاحبہ کا تجربہ ہے کہ جو بچے گھر سے اچھی تربیت حاصل کرتے ہیں، وہ اسکول میں بھی اچھے اخلاق کی وجہ سے تعلیمی ادارے میں خوش اخلاق ہی ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کی طرف توجہ دلا رہی تھیں کہ عورت معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا بخوبی ادا کرتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے بچوں کی تربیت پر بھر پور توجہ دیتی ہے کیونکہ ایک ماں جس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرسکتی ہے، وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔انکا خیال ہے کہ لوگوں کو منفی رویے سے خود کو بچائے رکھنا چاہئے۔
ذرا غور کیجئے کہ اگر آپ اعلیٰ تعلیم کی حامل ہوں تو کہاجاتا ہے کہ آپ اتنی بڑی ڈگری حاصل کرکے گھر میں وقت ضائع کر رہی ہیں۔ اس کے برخلاف اگر کوئی نوکری کرلے تو کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو گھر پر چھوڑ کر نوکری کر تی ہیں، یہ تو مناسب نہیں۔ ماں کا کام بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہے ، آپ کو بحیثیت ماں بچوں پر بھر پور توجہ دینی چاہئے۔ یوں سچ یہ ہے کہ لوگوں کو ہر صورت میںآپ پر اعتراض ہی رہتا ہے اور وہ آپ کی غلطیاں گنوانے میں لگے رہتے ہیں۔انسان کو چاہئے کہ اپنی سہولت سے اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ کرے۔ پہلے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرے اور جب وہ اسکول جانے کے قابل ہوجائیں تو اپنی سہولت سے، اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارا ملک سیاحت کے لئے بہترین ہے ۔شمالی علاقہ جات کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سالہا سال سیاحوں کی گہماگہمی رہتی ہے۔
ہمارے ملک میں چار موسم آتے ہیں جو بہت بہترین بات ہے۔ ذاتی طور پرانہیں بہار کا موسم پسند ہے کہ ہر طرح کے پھول اسمیں کھلتے ہیں بلکہ بہار کا مطلب ہی پھول کھلنے کا موسم ہے ایسے موسم میں سبزہ پر چہل قدمی کا لطف آجاتا ہے اچھے موسم وماحول کا اثر انسان کے دل ودماغ پر بھی اچھا پڑتا ہے۔ ہر ہر شاخ پر چڑیاں چہچہاتی ہیںاور بلبلیں نغمے بکھیرتی نظر آتی ہیں۔ قدرت کی یہ نیرنگیاں انسان کو غورو فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ بہار کے موسم کی مناسبت سے چند اشعار:
 سبزگہرے رنگ کی چڑھتی ہیں بیلیںجابجا 
نرم شاخیں جھومتی ہیں رقص کرتی ہے صبا
پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دل فریب وخوشنما 
جن کا ہر ریشہ ہے قندوشہد میں ڈوبا ہوا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
اور کبھی اس طرح کہ:
 یہ سحر کاحسن یہ سیارگاں اور یہ فضا 
یہ معطر باغ یہ سبزہ یہ کلیاں دل ربا
 یہ بیاباںیہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا 
سوچ تو کیاکیا کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا 
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
انہوں نے کہاکہ آجکل تو ہر گھر میں ہر ملک کے کھانے بنائے جا رہے ہیں لیکن ہر علاقے کی چیزیں الگ ہوتی ہیں اس لئے انکا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔ جو چیز جہاں کی ہوتی ہے ان کے ہی ہاتھوں میں انکا ذائقہ آتا ہے۔
محترمہ فائزہ نے کہا کہ ان کے شوہر انکے ہر کام میں معاونت کرتے ہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ کوئی عورت، شوہر کے تعاون کے بغیر گھر سے باہر کی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتی ۔انکا کہنا ہے کہ ہم سب ہی کو باہر کھانا کھانا اچھا لگتا ہے کیونکہ اس طرح آﺅ ٹنگ بھی ہو جا تی ہے اور اپنے اپنے کاموں سے کچھ دیر کے لئے بریک بھی مل جاتا ہے۔ ویسے ہمارے بچوں کو میرے ہاتھ کی بریانی بہت پسند ہے ۔
مغیث صاحب اکثر مٹن کڑھائی کی فرمائش کرتے ہیں ۔بچے اپنا ہوم ورک خود کر لیتے ہیں۔ ٹی و ی بالکل آہستہ آواز میں دیکھتے ہیں کہ مام آرام کر رہی ہیں چنانچہ شور نہیں ہونا چاہئے۔ ویسے بھی آجکل ٹی و ی کھولتے ہی سمع خراشی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ہر چینل ہر عام بات کو بھی بریکنک نیوز بنا کر دھاڑتا سنائی دیتا ہے اور ایک ہی جملے کو کئی کئی دفعہ دہرائے چلا جاتا ہے۔
مغیث صاحب آفس کی ذمہ داریوں سے وقت نکالتے ہیں اور اکثر مختلف سیاحتی جگہوں کی سیر کا پروگرام بنالیتے ہیں۔ وہ اپنی شریک حیات کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی محنتی اور دوسروں کا خیال رکھنے والی شخصیت ہیں۔
 
 

شیئر: