Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”کہ سنگ میل ہوں رخت سفر میں ہوں ہی نہیں“

 
فرحت پروین کے اعزاز میں”اوورسیزپاکستانی رائٹرز فورم“ کی شام
اُم آدم ۔دمام 
سعودی عرب میںمنطقہ شرقیہ کے سب سے قدیم اور معتبر ادبی فورم ”اوورسیزپاکستانی رائٹرز فورم“ کے زیر ِ اہتمام معروف افسانہ نگار ، شاعرہ و سوشل ورکر محترمہ فرحت پروین کے لئے ضیافت کا اہتمام کیا گیاجس میں شہر کے منتخب شعرائے کرام کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ۔محترمہ فرحت پروین مختصر قیام کے لئے سعودی عرب آتی ہیں تو ادبی تنظیمیں بھی متحرک ہوجاتی ہیں۔
محترمہ فرحت پروین کی مملکت میں مختصر قیام کے بعد روانگی بھی قریب ہے اسی تناظر میںاوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم کے روحِ رواں اقبال احمد قمر کے کاشانے پرعشائیہ دیا جو ادباءو شعراءکی موجودگی میں ایک پُر وقار ادبی نشست میں ڈھل گیا۔ بیگم اقبال احمد قمر نے انتہائی پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔بعدازاں ادبی نشست کا آغاز ہوا۔تمام شعراءباہم ملاقات کی نیت سے جمع ہوئے تھے تو چند احباب اپنی بیاض ساتھ نہیں لائے مگر بھلا ہو جدید ٹیکنالوجی کا کہ سب کے موبائل فونز میں اپنی اپنی تخلیقات موجود تھیں چنانچہ وہ مطمئن تھے۔ میزبان اقبال احمد قمرنشست کی نظامت کی ذمہ داری نبھائی ۔حاضرین محفل کی تائید سے سینیئر شاعر سہیل ثاقب کو منصبِ صدارت کے لئے منتخب کیا۔محترمہ فرحت پروین مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مسند نشین ہوئیں۔ 
قدسیہ ندیم لالی جواپنا افسانہ ”بوند بوند جذبے“ محترمہ فرحت پروین سے مشورے کے لئے ساتھ لے کر آئی تھیں، انہوں نے میزبان اقبال احمد قمر کی تجویز پر افسانے کو تنقید کے لئے پیش کر دیا۔
ادبی نشست میں افسانے کے تمام پہلوﺅں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ۔افسانے کو بھر پورپذیرائی ملی کیونکہ اس افسانے کا اختتام چونکانے دینے والا اور منفرد نوعیت کا تھا۔ افسانے پر بات کرتے ہوئے اقبال احمد قمر نے محترمہ فرحت پروین سے ان کی کتاب ' صندل کا جنگل ' سے ایک مختصر افسانہ ' وہ شہر ' پیش کرنے کی درخواست کی جسے حاضرین نے خوب سراہا ۔ طبع زاد افسانے کو پیش کرنے کا مقصدیہ باور کرانا تھا کہ افسانے میں ' تکنیک کو کیسے برتا جائے۔
شعری نشست کا آغاز میزبان محفل اورباکمال شاعر اقبال احمد قمر نے اپنی تازہ غزلوں سے کیا اور خوب داد حاصل کی ۔ الجبیل سے آئے ہوئے اقبال اسلم بدر نے اپنا خوبصورت کلام پیش کیا جسے شعراءکی بھر پور توجہ حاصل رہی ۔ دمام سے افضل خان نے خوبصورت جمالیاتی غزلیں پیش کرنے کے ساتھ اپنا پہلا شعری مجموعہ ' اِک نگر اور ' تعارف کے لئے پیش کیا جو سب کے لئے ایک خوشخبری ثابت ہوا۔ کتاب میں موجود تبصرے کافی دلچسپی کا باعث بنے ۔ ان کی کتاب کی رونمائی ' اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم“ کے زیر اہتمام جلد کی جائے گی۔
الخبر سے معروف ادبی ، ثقافتی تنظیم ' ھم آواز ' کی روحِ رواں قدسیہ ندیم ِلالی نے اپنی تازہ نظمیں اور غزل پیش کی جن کو خوب سراہا گیا۔ الحساءسے حکیم اسلم قمر بھی اپنی گوناگوں مصروفیت کے باوجود محفل میں شریک ہوئے ۔انہوں نے ترنم و تحت میں اپنی غزلیں پیش کیں اور حاضرین سے داد پائی۔
محترمہ فرحت پروین نے اپنی عمدہ نظموں اور متفرق اشعار سے محفل کی رونق میں اضافہ کیا۔ صدرِ محفل سہیل ثاقب نے بھی اپنی تازہ غزلوں سے محفل کو عروج بخشا ۔ نشست کے اختتام پر محترمہ فرحت پروین نے میزبان اقبال احمد قمر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے بے لوث و پر خلوص جذبے کی تعریف کی اور اسے ادب کی خدمت قرار دیا۔ میزبان اقبال احمد قمر نے شعرائے کرام کے ساتھ محفل میں بحیثیت سامع شرکت کرنے والے احباب جن میں افتخار چوہدری ، خادم حسین ، محمد حنیف اور ساجدشامل تھے، ان سب کی آمد پر انکا شکریہ ادا کیا۔ شعر وسخن سے وابستگی اور دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لئے شعرائے کرام کے منتخب اشعار نذر ہیں:
٭٭اقبال قمر:
تیری پہچان تری ذات سے جب ہوتی ہے
پھر کسی اور کے دیتا ہے حوالے کیسے
اک محبت نے ہی بے حال کیا ہے مجھ کو
زندگی کرتے ہیں پھر سوچنے والے کیسے
٭٭٭
جو پس رہا ہوں یہاں میں بھی خاص و عام کے ساتھ
بندھے ہوئے ہیں مرے ہاتھ اس نظام کے ساتھ
قمر نہ شکل رہے یاد کوئی بات نہیں
مگر میں یاد کیا جاﺅں اپنے نام کے ساتھ
٭٭اقبال اسلم بدر:
شبنم کے اشک، باد صبا کی وہ چھیڑ چھاڑ 
کلیوں کی بے کلی کا مزا ہم سے پوچھئے 
صحرا نورد ہم رہے، خانہ بدوش ہم
خیمے کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے
٭٭٭
اُفق پر طلوع سحر دیکھتے ہیں
بس اک خواب سا رات بھر دیکھتے ہیں
زمیں پر تو خانہ بدوشی ہے اپنی
فلک سے پرے اپنا گھر دیکھتے ہیں
٭٭افضل خان: 
بدلتی رت ہے اجالے تمام ہوتے ہیں
مسرتوں کے حوالے تمام ہوتے ہیں
٭٭٭
تجھ سے میں عشق کروں اور میں زندہ بھی رہوں
اب مری جاں یہ مشقت نہیں ہوتی مجھ سے
٭٭قدسیہ ندیم لالی:
ہر لحظہ پھیلتی چلی جاتی ہے کائنات
لیکن سمٹتی جاتی ہے انسان کی حیات
اس آدمی سے رابطہ قائم ہے آج بھی
 درپیش آتی رہتی ہیں گو اِس میں مشکلات 
ان کے علاوہ قدسیہ ندیم لالی نے دو خوبصورت نظمیں” دو دن کی بات ہے‘ ‘ اور”مرگِ محبت“ پیش کر کے خوب داد سمیٹی۔ 
٭٭ فرحت پروین: 
آئینہ خانے میں تم رہتے ہو ،ہر سو تم ہو
ایک ہی لمحے کوباہر تو نکل کر دیکھو
رشتہ الفاظ و معانی کا ہے نازک کتنا
اک ذرا لہجے کو اپنے تو بدل کر دیکھو
٭٭٭
طفل معصوم ہوں حیران ہوںگم گشتہ ہوں
یہ مہ و سال مری عمر کا پیمانہ نہیں
ان کے علاوہ فرحت پروین نے اپنی مشہور نظم " سندیسہ " بھی سنائی۔
٭٭سہیل ثاقب: 
میں خشک پتا ہوا میں ،شجر میں ہوں ہی نہیں
صدا میں سنتا ہوں لیکن میں گھر میں ہوں ہی نہیں
یہ سوچ کر کبھی روکا نہیں اسے میں نے 
کہ سنگ میل ہوں رخت سفر میں ہوں ہی نہیں 
٭٭٭
نہ سوال میں نہ جواب میں کہیں کھو گیا
میرے محتسب میں حساب میں کہیں کھو گیا
میری زندگی کی کتاب میں کئی باب تھے
میں انہی میں تو کسی باب میں کہیں کھو گیا
 

شیئر: