Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”اُفتاد کیا پڑی تھی جو سیکھے فنونِ حرب “

فیروز ناطق خسرو، فوجی افسر اور شاعر، سے سوال وجواب (قسط اول)
محمد عامل عثمانی ۔مکہ مکرمہ 
کراچی میں معروف شاعر اسکواڈرن لیڈر (ر)فیروز ناطق خسر وسے رابطہ ہوا اور مجھے ےہ جان کر خوشگوارحیرت بھی ہوئی کہ ایک فوجی آ فیسر اورشاعر بھلا ےہ کیسے ممکن ہے چنانچہ اس بھید کو جاننے کے لئے میں نے ان سے سوال کر ڈالا کہ شاعری اور فوج کی نوکری ، کیا ایک ساتھ کی جاسکتی ہے؟ انہوں نے غالب کے شعر سے شروع کیا اور کہا کہ:
سو پشت سے ہے پیشہ¿ آبا سپہ گری
 کچھ شاعری ذریعہ¿ عزت نہیں مجھے
یہاں کچھ ایسا نہیں، سو پشت تو کیا ایک پشت میں بھی میرے اور ایک چچا زاد بھائی کے علاوہ کسی نے سپہ گری کو بطور پیشہ نہیں اپنایا چنانچہ کہا کہ:
اُفتاد کیا پڑی تھی جو سیکھے فنونِ حرب 
خسرو ترا مقام تو شعر و ادب میں تھا 
احوال اس اُفتاد کاکچھ یوں ہے کہ والدِ محترم کی ریٹائرمنٹ اور بڑے بھائیوں کی شادیوں کے بعد مجھے ایسی نوکری کی تلاش تھی جس میں رہتے ہوئے میں اپنا بوجھ خود اٹھا سکتا ۔70 کی دہائی میںگریجویشن کے بعد میں ایک سرکاری اسکول میں سائنس ٹیچر ہوگیا ۔ 171 روپے ماہوار ملتے تھے ۔ 71 روپے میں رکھتا اور 100روپے والدہ کو دے دیا کرتا ۔ ساتھ ہی ٹیوشن جس سے میں اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے کتابیں خریدتا۔ ایک دن میرے اسکول کے ایک رفیقِ کار اخبار میں شائع پاکستان ایئر فورس ایجوکیشن برانچ کا ایک اشتہار میرے پاس لے کر آئے ۔ ایئر فورس نے ایجوکیشن انسٹرکٹر© مانگے تھے۔تنخواہ 350 روپے ماہانہ کھانا پینا رہائش کے ساتھ۔ رینک چیف ٹیکنیشین© ۔ مجھے وہ سب بہت اچھا لگا۔ اتنی معلومات نہیں تھیں۔ سندھ کے شہر خیرپور میں رہتے ہوئے دنیا کا اتنا کچھ پتہ نہ تھا۔ غرض ٹیسٹ انٹر ویو دیا اور منتخب ہوکر ٹریننگ کے لئے اپنی شاعری کے حوالے کے سا تھ ہی کوہاٹ پہنچ گیا۔ سلیکشن سینٹر پر انٹرویو لینے والے آفیسر نے اپنے ریمارکس میں میری شاعری کا خاص طور سے ذکر کیا تھا۔
ٹریننگ کے دوران اور اس کے بعد بھی میری شعوری کوشش تھی کہ میں ایئر فورس میں ایک شاعر کی بجائے اپنے پروفیشن کے حوالے سے جانا پہچانا جاﺅں۔حقیقت تو یہ ہے کہ مشاعروں کے علاوہ حقیقی زندگی میں لوگ ادیبوں، شاعروں کو تمسخرانہ نظروں سے دیکھتے ہیں اور فوج میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرے بارے یہ علم سب کو تھا کہ میں شاعر ہوں لیکن کیا کہتا ہوں اور کیسا شاعر ہوں ،یہ پتہ نہیں تھا۔ خود میں نے بھی اپنی زندگی کو دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ جب تک یونیفارم جسم پر ہوتا، میں فیروز ناطق ہوتا اور گھر میں فیروز خسرو۔ایسا ذہنی سکون کے لئے بہت ضروری تھا۔اسی دوران میں نے ایم اے اردو لٹریچر اور ایم اے اسلامک ہسٹری کرلیا۔ ساتھ ہی اپنی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ایئر ہیڈکوارٹرز سے باقاعدہ اجازت نامہ بھی حاصل کرلیا۔ کوہاٹ میں رہتے ہوئے ٹریننگ کے دوران ہی میں وہاں کی ادبی محفلوں میں شریک ہوتا رہا۔کوہاٹ کے ادیب وشاعر اردو سے محبت کرنے والے تھے، انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دن بھر کی مشقت کے بعد شعر و سخن کی لطیف فضا بہت سرور بخشتی۔ ایوب صابر، عزیز اختر وارثی، عطوف شفیق، انجم بریلوی، شجاعت علی راہی، شاہد زمان وغیرہ روزانہ کہیں نہ کہیں محفل جماتے ۔ اسی دوران مظفر علی سید بھی وہاں پوسٹ ہوکر آگئے۔ خود آفیسر کمانڈنگ ریکروٹ ٹریننگ اسکول، گروپ کیپٹن محمد حسن صفدرشاعر اور شاعر نواز تھے۔انہی کی دلچسپی کی بدولت آل پاکستان مشاعرہ منعقد ہواجس میںقتیل شفائی بھی شریک ہوئے۔ صدارت احمد فراز کے والد آغا برق کوہاٹی نے کی۔
ایک سال کے بعد میری پوسٹنگ کورنگی کریک ، کراچی میں ہوگئی ۔کوہاٹ اور اس کے بعد یہاں بھی میں ٹریننگ اسکولز میں پاکستانی اور غیر ملکی ٹرینیز کو انگریزی پڑھاتا تھا۔چندسال ہی گزرے تھے کہ جنرل ضیاءالحق نے فورسز کے تمام انسٹیٹیوشنز میں عربی اور اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت دے دی۔ ایئر فورس نے اردو پڑھانے کے لئے کمیشنڈ آفیسرمانگے۔ پہلے مرحلے میں پورے پاکستان سے میرا اور پیشہ ور کالج کے ایک پروفیسر کا انتخاب عمل میں آیا۔ ٹریننگ شروع ہوئی تو ہمارے ساتھ دوسری برا نچوں کے لوگ بھی تھے ۔ یہاں بھی میرے شاعر ہونے کی گونج کچھ زیادہ ہی تھی۔ مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ شاعری بھی ایک کمٹمنٹ ہے۔ شاعر میں بھی شاعری کے علاوہ دیگر صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ 
کورس کے اختتام پر جب رزلٹ سنایا گیا تو میری آنکھوں میں شکرانے کے آنسو تھے۔میں نے پورے کورس میںٹاپ کیا تھا۔ ساتھ ہی اپنی برانچ ”ایجوکیشن“ میں بھی میں ا ول تھا۔مجھے تعلیم اور آل راﺅنڈ کارکردگی میں ”بہترین“ کے خطاب سے نوازاگیا۔ساتھ ہی میری پہلی پوسٹنگ ”پی اے ایف کالج آف ایروناٹیکل انجینیئرنگ، کورنگی کریک میں بطور فلائنگ آفیسر ہوگئی۔ یہاں میں نے کچھ عرصے کیڈٹس کو اردو پڑھائی اور پھر مجھے رجسٹرار تعینات کردیا گیا۔
فورسز میں خواہ کسی بھی برانچ سے تعلق ہو،پی ٹی، پریڈ، گیمز، اسلحہ کا استعمال وغیرہ لازمی جزو ہے۔ ہم نے بھی یہ سب کیا ۔1999 میںوالد صاحب کی علالت کی وجہ سے اسکواڈرن لیڈر کے رینک سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس کے بعد بھی مختلف سول تعلیمی اداروں میں پرنسپل، ایڈمنسٹریٹر کے فرائض انجام دیتا رہا۔2014 میں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی اور ملازمت کی بجائے اپنا تمام کلام یکجا کرنے میں مصروف ہوگیا۔والد صاحب کے کلام کے انتخاب کی اشاعت کے بعد اب تک میرے اپنی شاعری کے 6 مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔
میری ادبی زندگی کا آغاز ساتویں جماعت سے کہانیوں اور شاعری کی شکل میں ہوا۔میں نے 1962 میں میٹرک کیا۔ باقاعدہ مشاورتِ سخن کسی سے نہیں کی ۔ کتب بینی کا شوق شروع سے رہا۔ گھر کا ماحول اور خاندانی پس منظرادبی تھا۔والد ابوالحسنین ناطق بدایونی بھی شاعر تھے ۔والدہ مسلمہ خاتون نہاں بھی شاعرہ تھیں ۔میرے پسندیدہ شاعر میرتقی میر تھے اور اپناپسندیدہ شعر ہے:
”آنکھ پتھر ہوئی خود اپنی ہی عریانی سے
 آئینہ ٹوٹ گیا شدتِ حیرانی سے“ 
فیروز ناطق کے شعری مجموعوں میں” طلسم مٹی کا، آنکھ کی پُتلی میں زندہ عکس، ستارے توڑ لاتے ہیں،آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے،فرصتِ یک نفس اور ہزار آئینہ“ شامل ہیں ۔
(باقی آئندہ)
 

شیئر: