Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللہ پر چھوڑ دو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔۔

جی بھائی جان!کیسا چل رہا ہے کام،سب ٹھیک ہے ،میرے لئے موبائل تو بھیج دیں، اگر کمپنی میں کوئی ویز ا نکلے تو پہلے مجھے بلائیے گا
** * مصطفی حبیب صدیقی* * *
اب تک اکثریت کی پردیس کہانیوںمیں کوئی تکلیف ،پریشانی اور دکھ ہی کی بات تھی مگر بہت کم ہی ایسے ہیں جنہوںنے پردیس کواچھے معنوںمیں بھی لیا ہو۔گزشتہ دنوں نائلہ رشید اور ان کے شوہر رشید صاحب نے کچھ اپنی داستان سنائی تو مزا آگیا۔نائلہ صاحبہ زیادہ بولیں تو اس لئے کہانی ان کی ہی زبانی سنیں۔ کراچی میں ہماری زندگی کافی مشکل ہوچکی تھی،میاں جی کی کمائی اس قدر محدود تھی کہ بمشکل مہینے کی15تاریخ تک گزارا ہوپاتا باقی مہینہ ادھار پر ہی رہتا۔شادی کو 7سال ہوچکے تھے ،اللہ نے 3بیٹیاں اور ایک بیٹا دیا ۔ہم دونوں میاں بیوی کے ذہنوں پر یہی سوال رہتا کہ ان 3بچیوں کا فرض کیسے ادا کرینگے۔
رشید صاحب ایک نجی کمپنی میں کیشئر تھے۔کچھ اسٹور کا بھی کام سنبھال لیتے تو کمپنی سے کچھ اوورٹائم مل جاتا۔ میں سوچ نہیں سکتی تھی کہ کبھی ہمارے بھی دن پھر جائیں گے ۔اورنگی ٹائون میں ایک کمرے کے مکان میں بمشکل گزارا ہورہا تھا۔وقت تیزی سے گزرتا گیا۔رشید صاحب بھی پریشان تھے۔دن رات یہی دعائیں ہوتیں کہ یا اللہ3 رحمتیں دی ہیں ان کی ذمہ داری اٹھانے کی استطاعت بھی دے۔مگر کہانی اب شروع ہوتی ہے۔ ’’نائلہ ،،،کافی دن ہوگئے پرویز سے ملاقات نہیں ہوئی،پتہ نہیں کہاں رہتا ہے،چلو آج مل کر آتے ہیں‘‘ رشید صاحب نے گھر میں گھستے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو پتہ ہے آپ کا چھوٹا بھائی صرف ان سے ملتا ہے جن سے مطلب نکلے۔وہ ہمارے گھر کیوں آئے گا ،یہاں تو ایک کپ چائے بھی بمشکل ملتی ہے‘‘ نائلہ کے جواب پر رشید صاحب کا منہ اتر چکا تھا۔ پرویز کی دکان اچھی چلتی تھی،بچے اچھے اسکولوں میں تھے۔اسے اپنے بڑے بھائی کے حالا ت دیکھ کر ترس تو کیا آتا بس ہر وقت طنز کرتا کہ بھائی میاں زندگی بھر شرافت اور دیانت کا درس دیتے دیتے اس حال کو پہنچ گئے ہیں۔ وہ دن نائلہ اور رشید کیلئے ایسی خوشی لایا تھا جس کا تصو ر بھی محال تھا۔دونوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ واقعی ایسا ہوگیا ہے۔
رشید کی کمپنی نے دبئی میں اپنی ایک برانچ کھولنے کا فیصلہ کیا او رپہلے مرحلے میں سپروائزر کیساتھ ہیلپر اور کچھ حساب کتاب دیکھنے کیلئے رشید کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔رشید کا پاسپورٹ بھی کمپنی نے بنوایا اور ویزا بھی کمپنی کا تھا۔ رشید نائلہ کی آنکھوں میں نمی چھوڑ کر دبئی روانہ ہوچکا تھا۔یہاں نائلہ بچوں کو سنبھال رہی تھی۔پرویز کو بھائی کے دبئی جانے کا معلوم ہوا تو اس کے دل میں جلن پیدا ہوگئی۔نائلہ اس کی ذہنیت سے واقف تھی۔ ’’ہیلو!ہاں میں رشید بول رہا ہوں،کیسی ہوئی نائلہ‘‘ رشید کے فون پر نائلہ کا چہرہ کھل چکا تھا۔بچے بھی باپ سے بات کرنے کیلئے بے قرار تھے کہ پرویز گھر میں داخل ہوگیا۔کیا ہوا بھابھی بڑے قہقہے لگ رہے ہیں ‘‘۔ ہاں ہاں۔۔دیکھو تمہارے بھائی کا فون ہے ۔۔
موبائل میں آواز مشکل سے آرہی ہے۔نائلہ نے موبائل پرویز کی طر ف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ ’’ جی بھائی جان!کیسا چل رہا ہے کام،سب ٹھیک ہے ،میرے لئے ایک موبائل تو بھیج دیں،اور ہاں اگر کمپنی میں کوئی ویز ا نکلے تو پہلے مجھے بلائیے گا‘‘ پرویز نے اپنی فرمائشیں شروع کردی تھیں۔ رشید کو دبئی میں 2سال ہوچکے تھے ،اس کی محنت دیکھ کر دبئی میں کمپنی کا عرب مالک بہت خوش تھا۔2سال بعد ٹکٹ دیا اور وہ کراچی چھٹیوں پر آیا۔بچے بیوی بہت خوش تھے۔ نائلہ نے رشید سے مطالبہ کرہی دیا کہ ہمیں بھی دبئی لے چلو۔مگر رشید کے پاس دبئی میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ بیوی بچوں کو بھی رکھ سکتا۔وہ اسے تسلی دے کر واپس دبئی آگیا۔مگر اللہ نے نائلہ کی پریشانیاں ختم کرنے کا فیصلہ کرلیاتھا۔
رشید کو اداس دیکھ کر عرب شیخ نے پوچھ لیا ’’کیا ہوا تم اتنے اداس کیوں ہو؟ رشید نے آہ بھر تے ہوئے بتادیا کہ وہ بیوی بچوں کو بہت یاد کررہا ہے جبکہ بیوی بچے بھی اس کے بغیر پریشان ہیں ،مگر اس کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ بیوی بچوں کو بلاسکے۔ عرب شیخ دل کا بڑ ا آدمی تھی ،رشید کی قسمت کھل چکی تھی۔اس نے رشید کے بیوی بچوں کو بلوالیا۔اپنے ملازموں کے کوارٹر میں کمرہ دیا ۔رشید کی بیوی کو اپنے گھر میں باورچی خانے میں ملازمت دے دی۔اور پھر رشید کے دن پھرنے لگے۔ آج رشید کو دبئی میں مقیم ہوئے 15سال بیت چکے ہیں۔نائلہ نے نہایت ہنر مندی سے پورا گھر سنبھالا یہاں تک کہ رشید کے بچوں نے پاکستان ایمبیسی اسکول میں تعلیم حاصل کرکے ٹاپ کیا۔عرب شیخ نے رشید کے بیٹے کو اپنی کمپنی میں اعلیٰ ملازمت دے دی۔2بیٹیاں دبئی میں ہی اپنے گھروں کی ہوگئیں۔تیسری بیٹی کی تعلیم جاری ہے۔ رشید اور نائلہ اللہ کے نہایت شکر گزار ہیں کہ اورنگی ٹائون کے چھوٹے سے کمرے میں رہنے والے دونوں میاں بیوی کو اللہ نے کس قدر شاندار مستقبل دیدیا۔جو بچے کراچی کے سرکاری اسکولوں میں بمشکل تعلیم حاصل کررہے تھے وہ دبئی کے اسکول میں پڑھنے لگے۔ نائلہ کہتی ہے کہ ہمارے ساتھ انسانوں نے بڑی زیادتی کی مگر ہم نے کبھی بدعا نہیں دی۔رشید ہمیشہ کہتے کہ اللہ پر چھوڑ دو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے اور پھر ہم نے دیکھا واقعی اللہ پر چھوڑا تو سب کچھ ہی پلٹ گیا۔

شیئر: