Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاہدہ تاشقند کے بعد ہی شاستری چل بسے ، کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی

اماں نے کہا کہ بالٹی میں پانی ڈال دو تاکہ مچھلیاں زندہ رہیں ،صبح اٹھ کر دیکھا تو بالٹی میں پانی موجود تھا مگر مچھلی ایک بھی نہیں تھی،آج بھی سوچتا ہوں کہ اتنی ساری مچھلیاں کہاں گئیں
  خالد مسعود،ریاض
(پانچویں قسط)
65 کی جنگ مغربی پاکستان میں لڑی گئی۔ مشرقی پاکستان کی سرحد پر سکون تھی۔ سرحد پر نہ کو ئی گولی چلی نہ ہی کوئی چھیڑ چھاڑ ہو ئی۔مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے ہزاروں میل کے فاصلے پر تھا لیکن پاکستانی ہونے کے ناتے پوری قوم اس جنگ میں متحد تھی جسکا ذکر میں گزشتہ قسط میں کرچکا ہوں۔ ہندوستان کا لاہور پر قبضے کا خواب پورا نہ ہوسکا ۔ہر محاذ پر ہماری فوجوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔پاکستان نے زمینی ، فضا ئی اور بحری تینوں معرکوں میں اپنی برتری ثابت کی۔ پاکستان کے دفاع نے عالمی طاقتوں کو حیران کردیا۔ان طاقتوں نے جنگ بندی کی کوششیں شروع کردیں۔
روس نے تاشقند میں دونوں ممالک کو مذاکرات کی دعوت دی ۔ ہندوستان سے وزیر اعظم لال بہادر شاستری شریک ہوئے ۔جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے جو معاہدہ تاشقند کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ جنگ 17دن جاری رہی۔ عجیب اتفاق ہے کہ ہماری لائبریری میں لاہور سے فروخت کیلئے کتابوں کا پارسل موصول ہوا ۔جب پارسل کھولا گیا تو ا س میں ایک کتاب " شاستری کا کریا کرم " کے نام سے نکلی۔ اسی دن شاستری کا حقیقت میں کریا کرم ہو رہا تھا۔معاہدہ تاشقند کے بعد ہی روس میں شاستری چل بسے تھے۔۔یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ جنگ بندی کے بعد زندگی پرسکون گزر رہی تھی۔ بنگالی، بہاری سب بھائی چارگی کے ساتھ رہ رہے تھے۔ راجشاہی میں ادبی ماحول بھی خوب پروان چڑھ رہا تھا۔ ماہانہ مشاعرہ باقاعدگی سے منعقد ہوتا ۔ابا جان ہر مشاعرے میں ہمیں لیکر جاتے ۔
راجشاہی یونیورسٹی کے کئی استاد جو شاعر بھی تھے شریک ہوتے ۔شعبہ اردو کے پروفیسر کلیم سہسرامی، سائیکالوجی کے ڈاکٹر وسیم باغی ، پروفیسر مطیع الرحمن ، حبیب بینک کے منظر بھاگلپوری اور معروف تاجروں میں ابو محمد توپ ' اور خدا بخش جھنجھٹ کی مزاحیہ شاعری ابتک یاد دلاتی ہے۔ کبھی کبھی ڈھاکا سے معروف شاعر پروفیسر اقبال عظیم ، ڈاکٹر عندلیب شادا نی اور ہلال جعفری بھی تشریف لاتے ۔ حکومت کے ادارے’’ پاکستان کونسل‘‘ میں مختلف اوقات میں تقریری مقابلے ہوتے جہاں ہمارے اسکول کے طالب علم حصہ لیتے اور انعامات اور اسناد حاصل کرتے۔ ہمارے کاروبار میں بھی ترقی ہوتی رہی۔ابی جان کاروبار میں زیادہ فعال تھے جب سے میں نے ہوش سنبھالا ابا کو ہمیشہ بیمار دیکھا۔ نہیں معلوم انہیں کیا بیماری تھی۔ چند دن ٹھیک رہتے پھر بستر کے ہوجاتے ا سلئے ابی جان نے ابا پر زیادہ کام کا بوجھ نہیں ڈالا تھا۔ ایک واقعہ جو ابتک نہیں بھولا اور نہ اسکی تعبیر ابتک سمجھ میں آئی اماں ایک مرتبہ رات میں ابا کے لئے کھیر بنا رہی تھیں۔ اس زمانے میں لکڑی کا چولہا ہوا کرتا تھا جس میں لکڑی ڈال کر آگ لگائی جاتی تھی۔
اچانک اماں کے چیخنے کی آواز آئی سانپ سانپ میں گھبرا کر باورچی خانے کی طرف دوڑا۔ ابا بھاگتے ہوئے ڈنڈا لیکر آئے ۔سانپ پھن پھیلائے چولہے کے قریب بیٹھا تھا ابا نے بہت مشکل سے سانپ کو مارا۔ کافی لمبا سا نپ تھا ابا نے اسکے سر کو بہت اچھی طرح کچل کر ایک برتن میں بہت مضبوطی سے بند کرکے یہ کہتے ہوئے رکھ دیا کہ ابی آئیں گے تو انہیں دکھائیں گے کہ پتہ چلے کہ کس نسل کا یہ سانپ ہے۔ ابی رات کو دیر سے گھر لوٹا کرتے تھے۔ ابی جب آئے تو ابا نے سارا واقعہ سنایا اور جب دکھانے کیلئے برتن کھولا تو سانپ غائب تھا ۔یہ معمہ آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ البتہ اس رات کے بعد ابا کے ہاتھ میں شدید درد اٹھتا اور رات بھر درد سے کراہتے رہتے۔ بہت علاج ہوا لیکن درد جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ابا کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی اور میں چھپ کر بہت روتا۔
زندگی میں ناقابل فراموش واقعات ہمیں پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں کچھ ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ بھی گزرا۔ بچپن کا زمانہ تھا مجھے مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا گھر کے قریب ہی تالاب تھا۔ اکثر میں اسی تالاب سے مچھلیوں کا شکار کرتا۔ کانٹے میں چارہ لگا کر پانی میں پھینکتا اور بہت انتظار کے بعد چند مچھلیاں پھنستی تھیں ایک دن مغرب سے پہلے عجیب ا نہونی ہو ئی ۔جتنی مرتبہ کانٹا پھینکتا مچھلیاں ضرور پھنستی کو ئی وار بھی خالی نہیں جاتا یہاں تک کہ بالٹی مچھلیوں سے بھر گئی۔ مغرب کی اذان ہونے والی تھی اماں آواز نہ دیتی تو میں مچھلی پکڑنے میں مگن رہتا۔مچھلیوں سے بھری بالٹی لیکر گھر آگیا اماں بھی دیکھ کر حیران کہ اتنی ساری مچھلی !! کہنے لگیں اسے بالٹی میں ہی رہنے دو بالٹی میں اور پانی ڈال دو تاکہ مچھلیاں صبح تک زندہ رہیں ۔ پھرتاز ہ مچھلی پکائیںگیں۔ میں نے بالٹی کو گھر کے آنگن میں اچھی طرح ڈھک کر اس پر ایک پتھر بھی رکھ دیا تاکہ ڈھکن کھلنے نہ پائے دوسری صبح جب اماں نے پتھر ہٹاکر بالٹی کا ڈھکن کھولا تو پانی موجود تھا لیکن مچھلی ایک بھی نہیں تھی آج بھی سوچتا ہوں اتنی ساری مچھلیاں کہاں گئیں ؟؟
(باقی آئندہ)

شیئر: