Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیر خزانہ مشکل میں…

نواز شریف کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ وہ اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں
* * صلاح الدین حیدر* *
پورے ملک میں آہ و بکا برپا ہے۔پاکستان مسائلستان بنتا جارہا ہے۔ ایک طرف تو وزیر خزانہ نہ صرف خود مشکل میں نظر آتے ہیں، بلکہ اُن کی وجہ سے ملک کی بھی بدنامی ہورہی ہے۔ دُنیا کے 2بڑے ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے اپنے حالیہ اجلاس میں اسحاق ڈار کو شریک ہونے سے منع کردیا، وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایک ایسے شخص پر جسے عدالت نے چارج شیٹ کیا ہو کہ اُنہوں نے آمدنی کے ذرائع سے زیادہ اثاثے بنائے، اُن پر مقدمہ قائم کرنے کا حکم جاری کیا۔ گو اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کیا، لیکن مقدمہ تو بہرحال چلے گا۔ ابھی یہ مشکل ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک (جو ایشیائی ممالک کو قرضے دینے والا سب سے اہم ادارہ ہے) نے بھی ڈار کو اجلاس میں شرکت سے منع کردیا۔ یہ ملک کی بے عزتی نہیں تو اور کیا ہے، لیکن واہ رے دُنیا، بے شرمی کی انتہا ہے۔
ڈار صاحب روزانہ اپنے دفتر میں جاکر احکامات جاری کرتے ہیں، پٹرول کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کرتے ہیں۔حال ہی میں اُنہوں نے 2روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت بڑھادی، جس پر خاصا شوروغوغا ہوا، ہونا ہی تھا۔ آخر حکومت خود اپنے اخراجات کیوں کم نہیں کرتی۔ شاہانہ طرز زندگی صدر مملکت سے لے کر وزرا، پارلیمان کے ارکان اور نوکر شاہی کے افسران لمبی لمبی تنخواہوں اور دوسری مراعات لینے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں، قوم کی فکر کون کرے، اس سے اُنہیں کوئی مطلب نہیں۔ یہی تو بدقسمتی ہے۔ ایک طرف تو پانامہ لیکس پر تنازع بد سے بدترین صورت اختیار کرتا جارہا ہے تو دوسری جانب ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا، جس کی بازگشت قومی اسمبلی، سینیٹ اور سیاسی جلسوں جلوسوں تک میں سنی گئی۔ جب میں یہ سطور لکھ رہا تھاتو اُسوقت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر فرما رہے تھے کہ آخر وہ کون ہے، جس نے ختم نبوت کے قانون کو حذف کرنے کی جسارت کی۔
مختصراً یہاں بتادینا کافی ہوگا کہ حکومت نے جب نواز شریف کو نااہلی کے باوجود پارٹی کی صدارت پر بحال کرنے کیلئے اصلاحات انتخابات کے قانون میں ترمیم کرنے کی کوشش کی تو اُس میں ایک نئی دفعہ 203 داخل کرکے مخالفین کو ہتھیار اُٹھانے کا زریں موقع فراہم کردیا، لیکن اُس کے ساتھ ہی خود (ن) لیگ کے آئین میں بھی ترمیم کرکے وہ شق نکال دی جس کے تحت کوئی بھی قانونی طور سے نااہل ہونے پر پارٹی کے کسی بھی عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا تھا۔ظاہر ہے، حزب اختلاف کی جماعتوں نے آسمان سر پر اُٹھالیا کہ یہ کالا قانون صرف ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کیلئے لایا گیا ہے۔ الیکشن ریفارمز ایکٹ صدر مملکت کی منظوری کے بعد قانون تو بن گیا، لیکن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی، شیخ رشید وغیرہ نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کردی کہ اسے ختم کردیا جائے۔ پاکستان کے آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے، لیکن عدالت عظمیٰ کو اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی ایسے قانون کو جو چاہے پارلیمنٹ سے ہی کیوں نہ منظور کیا گیا ہو، اگر حقوقِ انسانی کیخلاف ہو تو اُسے رد کردے۔ اُمید تو یہی ہے کہ الیکشن ریفارمز اگر پورا نہ سہی تو شق نمبر 203 کو خلافِ آئین قرار دے کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔
تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ختم نبوت پر بحث 1953 سے جاری ہے جبکہ ایک ایسا طبقہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر نبی ہونے کو متنازع بنانے میں مصروف تھا، اُس کی وجہ سے خونیں ہنگامے پھوٹ پڑے اور لاہور میں جہاں قادیانی یا مرزا غلام محمد کے حمایتیوں نے شانِ نبوت کیخلاف محاذ کھول دیا تھا، وہاں اُس وقت کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل اعظم خان نے معاملات کو سنبھالا دیا۔ میجر جنرل اعظم خان بعد میں ایوب خان کے مارشل لا میں وزیر بنے لیکن اپنے فلاحی منصوبوں کی وجہ سے بے انتہا شہرت پائی، یہاں تک کہ اُنہوں نے کراچی کے مضافاتی علاقے کورنگی میں ایک نئی بستی بسادی اور بے گھر لوگوں کو آسان اقساط پر چھت مہیا کردی، پھر وہ سابقہ مشرقی پاکستان کے گورنر بنے، تو بنگالیوں کے دل موہ لئے اور جب اُن کا تبادلہ ہوا تو بنگالی افسردہ ہی نہیں بلکہ آنسوئوں سے رو رہے تھے۔ اُنہیں جنرل اعظم کا وہاں سے جانا قبول نہیں تھا۔ میجر جنرل اعظم کی کوششوں سے معاملات اُس وقت تو سرد پڑ گئے، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں اس فتنے نے پھر سر اُٹھایا اور بالآخر بھٹو صاحب کو مجبوراً 1974 میں آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا پڑا۔ پس منظر پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک چاروں طرف سے مشکلات میں گِھرا ہو، تو پھر حکومت کے کسی وزیر، کی آخر ہمت کیسی پڑی کہ وہ پارلیمانی انتخابات میں شرکت کرنے والوں کے حلف نامے سے اس ختم نبوت کی آئینی شق کو ختم کرسکے۔ عمومی طور پر شبہ وزیر قانون زاہد حامد پر کیا جارہا ہے، لیکن جب تک بھرپور تحقیقات نہیں ہوجاتی، کچھ کہنا قبل از وقت بلکہ بے وقت کی راگنی ہوگا۔
ابھی اس معاملے پر بحث جاری ہے۔ اوپر سے طرّہ کہ مریم نواز اور اُن کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر احتساب عدالت کے بلاوے پر لندن سے اسلام آباد تشریف لائے، جج کے سامنے پیش ہوئے اور 50,50 لاکھ کے مچلکے پر ضمانت کروالی۔ قانونی ماہرین اس بات پر ششدر ہیں کہ احتساب عدالت کو ضمانت دینے کا اختیار تھا ہی نہیں تو پھر مریم یا اُن کے شوہر کو ضمانت کیوں ملی، عدالت نے اُن کے پاسپورٹ ضبط کرنے یا ملک سے باہر جانے پر کوئی خاص فیصلہ نہیں دیا، محض یہ حکم جاری کیا کہ مریم یا کیپٹن صفدر ملک سے باہر جانے کیلئے عدالت سے پیشگی اجازت حاصل کریں۔ ضمانت دینے کا اختیار صرف ہائی کورٹ کو ہے۔ اس قانونی سقم کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ انہی جج نے نواز شریف کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی اور بجائے 15 روز کے اُنہیں 13 اکتوبر کو عدالت کے سامنے حاضر ہونے کا حکم جاری کردیا۔ ساتھ ہی عدالت نے مریم نواز کا یہ بیان بھی ردّ کردیا کہ نواز شریف کے دونوں بیٹے بیرونی شہری ہیں، اسلئے اُن پر پاکستانی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عدالت نے دونوں حسین اور حسن نواز کو ناقابل ضمانت سمن جاری کردیے اور اُس پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اُن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا بھی کہہ دیا۔ نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کیلئے لندن گئے ہیں، اُنہیں کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہے، دیکھتے ہیں کہ ایسے میں وہ اُنہیں چھوڑ کر آتے ہیں یا میڈیکل سرٹیفکیٹ پر بھروسا کریں گے۔کچھ بھی ہو، شریف خاندان اور اسحاق ڈار پر تلوار مسلسل لٹک رہی ہے اور کچھ لوگوں کے خیال میں شاید اُنہیں جیل کی ہوا کھانی پڑے۔
یہی نہیں، حکومت پر چاروں طرف سے تابڑ توڑ حملے ہورہے ہیں۔عمران خان نے دھمکی دے دی ہے کہ اگر نیب یا قومی احتساب کمیشن کے نئے چیئرمین سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال نے پینترا بدلا تو لوگ سڑکوں پر آجائیں گے، بلکہ واپسی کی کوئی اُمید نہیں۔ ظاہر ہے ملک افراتفری کا شکار ہے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ، اسٹاک مارکیٹ مستقل گرتی جارہی ہے، لیکن اُس کا الزام بھی طلال چوہدری جیسے لوگوں نے نواز شریف کی نااہلی کو قرار دیا۔ یہ کیسی دلیل ہے، کون اُس پر کان دھرے گا۔ طلال چوہدری، دانیال عزیز جو کل تک مشرف کے ساتھ تھے، آج بڑھ چڑھ کر نواز شریف کی حمایت میں قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ انہیں کسی مبصر نے ٹھیک ہی انڈر 19 کرکٹ ٹیم سے تشبیہ دی ہے۔ میاں صاحب کے چھوٹے بھائی، شہباز شریف نے یہ وارننگ تک دے دی تھی کہ نواز شریف اپنے اردگرد خوشامدیوں سے چھٹکارا پائیں، ان کو صرف لمبی لمبی پُرتعیش گاڑیوں اور منصب سے مطلب ہے، یہ آپ سے مخلص نہیں لیکن کون سنتا ہے، نواز شریف کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ وہ اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جو لوگوں کی نظروں سے بچ نہیں سکا ،وہ تھا نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا فیصلہ کہ اسحاق ڈار اب قرضے اپنی مرضی سے نہیں لیں گے بلکہ اس کا اختیار اُن سے لے لیا گیا۔ وزیراعظم نے کابینہ سے ایک بلین ڈالر کا نیا قرضہ منظور کروالیا۔ ملک میں اس کے خلاف چیخ و پکار جاری ہے، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ پھر شاہد خاقان عباسی پر بھی الزام ہے کہ وہ قطر سے 2 بلین ڈالرز کی گیس خرید کر خود اُسکے منافع میں حصّے دار بن بیٹھے ہیں۔ جہاں ایسی صورت حال ہو وہاں لوگ دم بخود نہیں ہوں گے تو اور کیا کرسکتے ہیں۔ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کا جواب میرے پاس تو نہیں، لیکن شاید یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، کوئی نہ کوئی تماشا ضرور دِکھائے گا۔

شیئر: