Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ2فرلانگ

یہیں وہ نگارشات پہلی مرتبہ پڑھی گئیں جنہوں نے برصغیر کی اردو کو نئی مشعلیں مہیا کیں
* * جاوید اقبال* *
کیا دور ِجنوں پرور تھا اور کیا وہ ننھا سا 2فرلانگ طویل راہ تھا جو برصغیر کی تاریخ و ادب کے قصے میں درخشانیاں پھیلاتا رہا۔ صرف کوئی 400گز کی گزرگاہ جو وائی ایم سی اے اور پاک ٹی ہاؤس سے اپنے پہلے قدم اٹھاتی اور پھر چلتی انارکلی کے موڑ پر رک جاتی۔ سامنے جامعہ پنجاب، عجائب گھر اور احمد شاہ ابدالی کی چھوڑی توپ زمزمہ ہوتے اور صدیوں کے قصے ہواؤں سے سرگوشیاں کرتے ہوتے۔ لاہور کے شب و روزاسی مختصر سے قطعۂ راہ سے ، مال روڈ کے اسی ٹکڑے سے انگڑایاں لیتے بیدار ہوتے رہتے، جنم لیتے رہتے۔ تاریخ ادب کی نومولود سانسیں اپنا ثبوت دیتیں اور اپنے وجود کو مستقبل کے نصاب میں یقینی بناتیں۔ لاہور کی مال روڈ کے اس مختصر سے ٹکڑے میں اتنی داستانیں پنہاں ہیں کہ کرۂ ارض پر کسی بھی مقام نے اتنا کچھ جنم نہیں دیا ۔ اہل جنون وقلم کا اتنا بڑا اکٹھ اور کہیں نہیں ہوا جتنا اس ٹھنڈی سڑک نے برسوں اپنے دامن میں بسایا ہے۔ 19ویں صدی کے اواخر میںجب انگریزی ادب اضمحلال اورجمود کا شکار ہوا تو زاروں کا روس بیدار ہونا شروع ہوا،حقیقت نویسی کی داغ بیل پڑی۔
روسی افسانہ اور ناول نویسوں نے عالمی ادب کو نئی راہوں پر ڈال دیا۔ فطرت نگاری اور رومانیت سے قلم نے منہ موڑا اور انسان کو موضوع بنایا لیکن عالمی سوچ کے دھارے تبدیل کرنے والا روسی ادب کوئی ایسی جگہ نہ ڈھونڈ سکا جو ادبی تحریک کا مرکز بن سکتا۔ سوشلسٹ حقیقت پسندی کا بانی میکسم گورگی ایک عظیم ادیب تھا۔ 5مرتبہ اس کا نام نوبل انعام کے امیدواروں میں شامل کیا گیا۔ اس کا شہرۂ آفاق ناول "ماں"رحجان ساز ہوا۔ گور کی ایک نزنی نو وو گورڈو نامی روسی قصبے میں پیدا ہوا اور اس کا انتقال 1936ء میں ماسکو میں ہوا۔ لیوٹاسٹائی اور چیخوف سے دوستی ہونے کے باوجود وہ یہ خواہش دل میں لئے مراکہ کبھی ان کے ہمراہ کچھ وقت گزارے، کہیں کسی مقام پر باقاعدگی سے کچھ نشستیں کر لے۔
لیوٹاسٹائی دنیا کے عظیم ترین مصنفوں میں سے ایک ہے۔ روسی مملکت کے قصبے لیسنایا پولیانا میں 1828ء میں پیدا ہوا لیکن جب 82برس کی عمر میں 1910ء میں اسٹاپووو میں مرا تو یہ حسرت اس کے دل میں تھی کہ کاش زندگی کا کچھ حصہ کسی ایسی جگہ گزارتا جہاں ا سکے ہمعصروں کی ادبی نشستیں منعقد ہو رہی ہوتیں۔ تاریخ کے عظیم ترین افسانہ نویس انٹون چیخوف کی پیدائش تو روس میں ہوئی لیکن اسکی موت جرمنی میں ہوئی۔ اسے بھی زندگی بھر کوئی ایسا گوشۂ محفل میسر نہ آیا جہاں وہ اپنے ہمعصر ادیبوں کے ہمراہ بیٹھ کر زندگی کی سانسوں کا لطف اٹھا سکتا۔ ماسکو میں، سینٹ پیٹرز برگ میں ، کہیں بھی کوئی محفلِ ادب نہ جمتی تھی۔ روس کے مختلف شہروں میں پڑے ادیب تنہائیاں جھیلتے رہے۔ حالات کے جو ستم ان سے عظیم داستانیں لکھواتے رہے وَہی انہیں باہم بھی نہ بیٹھنے دیتے رہے۔ پشکن ، گوگول ، ترگنیف کس کس کا نام لیں۔ تنہا زندگی بسر کر گئے۔ یہی صورتگری انگریزی ادب میں بھی نظر آتی ہے۔ 19ویں صدی میں برطانیہ میں رومانیت کی تحریک کا آغاز کرنیوالے چاروں شعراء کہیں باہم نہ ہوسکے۔ 1770ء میں کمبرلینڈ میںپیدا ہونے والے برطانوی شاعرِ فطرت ولیم درڈز ورتھ نے رومانیت کی تحریک شروع کی۔ 1850ء میں80برس کی عمر میں جب وہ مرا تو محترم تو ہو چکا تھا لیکن کسی بھی ایسی محفل میں نہ بیٹھ سکا تھا جہاں اپنے کسی ہم پلہ سے ادب و رومان پر بات کر سکتا۔ انگریزی ادب کا دوسرا عظیم شاعرجان کیٹس مورگیٹ ، لندن میں 1795ء میں پیدا ہوا۔ 26برس کی عمر میں تپ دق سے جب مرا تو اپنی شاعری کے ناقدوں پر گریاں تھا۔ لندن میں اسے کوئی ایسا گوشہ نہ ملا تھا جہاں اپنے ہم نفسوں کے ہمراہ کچھ وقت گزار سکتا۔
اسی جان کیٹس کے ہمعصر شیلی اور بائرن بھی عظیم رومانی شعراء مانے جاتے ہیں لیکن ان دونوں کو بھی لندن کا دامن انتہائی تنگ لگا۔ شیلی کی موت اٹلی میں ہوئی جبکہ بائرن نے یونان میں آخری سانسیں لیں۔ یوں ہی، اسی طرح ہی کسی بھی زبان کے ادب کو کھنگال لیں، کرہ ارض کے کسی بھی شہر کے گلی کوچوں میں گھوم لیں، کہیں کوئی ایسا مقام نظر نہیں آئے گا جو زبان و ادب کی آماجگاہ بنا رہا ہو۔ کوئی نہیں ہے کہیں بھی نہیں ہے سوائے لاہور کی ٹھنڈی سڑک کے اُس 400گز ٹکڑے کے!!جو وائی ایم سی اے سے آغاز کرتا ہے او رپاک ٹی ہاؤس کے پاس سے گزرتا ، چینیز لنچ ہوم میں جھانکتا آگے نئی انارکلی اور پرانی انارکالی کے درمیان جا رکتا ہے۔ یہیں وائی ایم سی اے میں شہرہ آفاق حلقہ اربابِ ذوق کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے رہے ہیں۔ یہیں عابد علی عابد، سجاد باقر رضوی، احمد ندیم قاسمی، سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد ، شہزاد احمد، ممتاز مفتی، فیض احمد فیض، منیر نیازی ، صوفی غلام مصطفی تبسم، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، انتظار حسین ، ظہیر کاشمیری، اے حمید، قتیل شفائی، اختر شیرانی ، ساغر صدیقی، شہرت بخاری، آغا حشر ، چراغ حسن حسرت، پطرس بخاری ،قیوم نظر ، ساحر لدھیانوی ، ناصر کاظمی، مستنصر حسین تارڑکی کہکشاں اُترا کرتی تھی یا کبھی پاک ٹی ہاؤس کو گلنار کرتی تھی۔ یہیں وہ نگارشات پہلی مرتبہ پڑھی گئیں جنہوں نے برصغیر کی اردو کو نئی مشعلیں مہیا کیں اور اس کی راہوں کو روشن کیا ۔
بقول منیر نیازی :ادیب کسی بھی شہر کا ہوتا جب تک اس کی تخلیق پر حلقۂ ارباب ذوق کی ، لاہور کی مہر نہ لگتی وہ ادیب نہ ہوتا۔ یہیں اسی وائی ایم سی اے میں ذوالفقار علی بھٹو نے وہ تاریخی خطاب کیا تھا جس نے انہیں عوام کی آنکھوں کا تارا بنا دیا تھا۔ یہیں چینیز لنچ ہوم میں بھٹو اکثر آبیٹھتے تھے اور لاہوری دماغ سے بحث مباحثہ کرتے تھے۔ یہیں انارکلی والے سِرے پر نگینہ بیکری ہوتی تھی، جہاں ہر ماہ آغا حشر کاشمیری کی محفل جمتی تھی۔ اختر شیرانی کی شامیں بسر ہوتی تھیں اور وہیں اسی سڑک پر کمبل اوڑھے ساغر صدیقی گھومتا تھا اور 10,10 روپے کے عوض کالج کے لڑکوں اور لڑکیوں کو غزلیں لکھ دیتا تھا۔ یہیں انارکلی میں محمد طفیل کے سہ ماہی "نقوش"اور احمد ندیم قاسمی کے"فنون"کے دفاتر تھے۔ قاسمی صاحب تانگے پر دفتر آتے جاتے۔یہیں کبھی ٹولنٹن مارکیٹ تھی، جہاں میں نے شورش کاشمیری اور مولانا کوثر نیازی کو باہم دست وگریباں ہوتے دیکھا تھا۔ یہیں ! …یہیں! …یہیں! لاہور کی ٹھنڈی سڑک کا یہ 2فرلانگ لمبا ٹکڑا! تاریخ ہے… ادب ہے…ہنگامہ ہے۔
 عروج و زوال کا عینی شاہد ہے
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

شیئر: