Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پردیس آتے ہوئے تکلیف نہیں ہوئی جتنی وطن واپسی پر ہو رہی ہے ،نظام علی

فخر ہے کہ فن میں میرے استاد والدصاحب ہیں،فرید علی
جدہ ( امین انصاری ) جدہ میں مقیم غزل گلوکار محمد نظام علی خان کی وطن واپسی کی اطلاع نے غزل کے شیدائیوں کو جیسے بے چین کردیا۔منفرد روش کے اس گائک کو سننے کے لئے نظام علی نائٹ ، جشن نظام علی، الوداعیہ جیسی بے شمار تقاریب کا اہتمام ہونے لگا ۔ شہر جدہ ہی نہیں بلکہ ریاض ، دمام اور دیگر شہروں سے ان کے مداح بے تاب ہوگئے ۔ایک جانب ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی بے شمار تنظیمیں آئے دن تقاریب کا اہتمام کررہی ہیں تو دوسری جانب نظام علی خان کے شاگربھی ان کو تہنیت پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔ 
جدہ کی تنظیم "انڈین فائن آر ٹ اکیڈمی اینڈ اسٹار دل کی آواز "کے سربراہ استاد نظام علی خان کے بڑے فرزند فرید علی خان جو خود ایک بہترین سنگر ہیں، اپنے والد کی سرپرستی میں انہوں نے اپنی گلوکاری کا سنہرا دور شروع کیا اور نئے و پرانے نغموں میں کمال پیدا کردیا ۔ انہوں نے اپنے والد کی مستقل وطن عزیز حیدرآباد واپسی پر خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کی سرپرستی تلنگانہ یونائیٹڈ فورم نے کی ۔نظام علی خان کے دیرینہ دوست فاروق احمدنے اسے اسپانسر کیا۔ تقریب میں جدہ کے غزل شناس اور نظام علی خان کے قدر داں احباب کی ایک بڑی تعداد کو مدعو کیا گیا ۔ نوشہ¿ بزم نظام علی خان سرخ کرتہ پاجامہ اور سدری زیب تن کئے ،چہرے پر من من مسکان لئے کرسی پر براجمان تھے اور حقیقت میں دولھا لگ رہے تھے۔ تقریب کے میزبان محمد فاروق نے شرکاءکا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ لفظ غزل سنتے ہی ذہن و دل میں ایک نازک شبیہ ابھرتی ہے اور جب غزل گانے والے کا نام چشم تصور میں آتا ہے تو ایک کھنک سی دل میں اٹھتی اور یہ ذہن میں آتا ہے کہ ہم اپنے تھکے ماندے دل ودماغ کو جلد سے جلد اس ماحول میں ڈھال لیں ۔محمد فاروق نے کہا کہ استاذ نظام علی خان کم عمری میں ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ،یہ ان کے فن کا کمال تھا ۔ان کی واپسی پر انکے شایان شان الوداعیہ دینا ہم سب کا فرض تھاسو ہم نے یہ فرض نبھایا ۔اس موقع پر تلنگانہ یونائٹیڈ فورم کی جانب سے انکی شال پوشی کی گئی جبکہ مولانا نوید افروز کی جانب سے انہیں سپاس نامہ پیش کیا گیا ۔
ڈاکٹر سید علی محمود نے کہا کہ ہم جدہ میں نظام علی خان کو گزشتہ 30 سال سے سن رہے ہیں۔ ہم نے انہیں فن کی منازل منازل طے کرتے دیکھا ہے۔ سرزمینِ جدہ سے بلند ہونے والی نظام علی کی آواز شہرت کے آسمان کو چھوتی ہوئی متعدد ممالک میں لوگوں کو اپنا گرویدہ کر چکی ہے ۔نظام علی خان بہترین نعت خواں بھی ہیں۔وہ قوالی بھی پیش کرتے ہیں اور غزل کے منفرد گلوکار ہیں۔ انکا یہی انداز انہیں دوسروں میں جدا رکھتا ہے ۔ 
محمد فرید علی خان نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ فن موسیقی اور گائیکی میں میرے استاد، میرے وجود کی پہچان،میرے والد ماجد نظام علی خان ہیں ۔ انہوں نے میری ہر گام پر رہنمائی کی ۔انہوں نے ہمیں دینی ، مذہبی ، سماجی ، ادبی اور فلاحی کاموں کی جہاں تربیت دی وہیں انہوں نے ہماری تعلیم ، اسپورٹس ،گائیکی اور آداب زندگی میں بہترین نکھار پیداکیا جس کے باعث آج ہم دنیا میں اپنے والدین ، اساتذہ ، ریاست اور ملک کا نام روشن کررہے ہیں ۔ بحیثیت شاگرد ان کو خراج تحسین پیش کرنا میرا فرض ہے۔ اس لئے آج کی محفل ان کے شاگرد بیٹے کی طرف سے ان کو تحفہ ہے ۔ 
تلنگانہ یونائیٹڈ فورم کے سربراہ بدر انصاری نے کہا کہ نظام علی نرم گفتار اور بہترین حسن اخلاق کے مالک ہیں۔ ان کی آواز فن گائیکی میں ایک کھنک رکھتی ہے لیکن گفتار میں یہ آواز انتہائی شفاف اور کومل ہے ۔
یوسف الدین امجد نے نظام علی خان سے اپنی دیرینہ رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ محمد رفیع صاحب کے گانوں کو جب ہم نے 25 سال قبل نظام علی خان سے سنا تو چند لمحوں کے لئے ہم ششدر رہ گئے کہ یہ کمسن لڑکا اور اتنی اچھی گائیکی؟ پھر جب اس لڑکے نے غزل چھیڑی تو زبان بے ساختہ واہ واہ پکار اٹھی ۔ یوسف الدین نے اپنی آواز میں رفیع صاحب کے گانے " تم مجھے یو ںبھلا نہ پاو¿ گے " کے دو مصرعے سناکر نظام کو خراج تحسین پیش کیا ۔ 
اعجاز احمد خان نے کہا کہ نظام علی خان اور مجھ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔ وہ بھی خان ہیں اور میں بھی خان ہوں ۔وہ غزل سنانے میں ماہر تو میں سننے کا ماہر ہوں ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نظام وطن عزیز میں اپنی آواز کا جادو جگائیں گے اور شہرت کی بلندیوں پر ہونگے ۔ 
سید خواجہ وقار الدین نے کہا کہ اچھے کلام اور اچھی آواز کا جب سنگم ہوتا ہے تو دلوں کے دریچے کھل جاتے ہیں اور یہ شاعری اور آواز اپنا مقام خود بخود بنالیتی ہے ۔ اردو شاعری کا یہ حسن ہے کہ وہ سرچڑ ھ کر بولتی ہے اور اس شاعری کو نظام علی خان جیسی آواز مل جائے تو پھر یہ ہمالےہ کی بلندی کوچھولیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے بیشتر مقامات پر نظام علی خان کے مداح موجود ہیں ۔
ندیم عبدالباسط نے کہا کہ استاد نظام علی خان جیسے گلوکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہ بیک وقت فلمی نغمے ، غزلیات، گیت ، اور قوالی کو پوری مستعدی اور ان کا حق ادا کرتے ہوئے گاتے ہیں ۔انکی واپسی سے جدہ میں تو محافلِ نغمہ سونی ہوجائیں گی لیکن حیدرآبادکی فضائیں مسرور ہو ں گی۔ 
استاد نظام علی خان نے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب میں وطن عزیز سے دیار غیر یعنی جدہ پہنچا تو محسوس کیا کہ تنہا ہوگیا ہوں لیکن چند ہی دنوں میں میرے محسن اور کرم فرماو¿ں نے مجھے سہارا دیا اور میری ایسی پذیرائی کی جو مجھے وطن میں رہتے ہوئے نہیں مل سکتی تھی ۔ مجھے وطن سے پردیس آتے ہوئے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی پردیس سے وطن واپسی پرہورہی ہے سب سے پہلے تو حرمین شریفین سے دوری کا غم ہے اور پھر میرے دوست احباب اور کرم فرماو¿ں کی جدائی کا غم ہے ۔دیار غیر میں جہاں اپنے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، کمیونٹی کے سرکردہ اشخاص نے میری نہ صرف ہمت افزائی کی بلکہ میری رہنمائی اور سرپرستی بھی کی ۔انہی سے ملنے والے حوصلوں نے میرا مستقبل روشن کردیا اور آج میں جو کچھ ہوں، ان تمام کی دعاو¿ں کا نتیجہ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ میری آواز اور میری گائیکی میرے وطن ، ریاست اور ملک کے لوگوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں موجود غزل شناس لوگوں کی امانت ہے ۔ جب تک آپ کا پیار ملتا رہے گا، میں اس کی حفاظت کرتا رہونگا ۔ انہوںنے لوگوں کی فرمائش پرغزلیں پیش کیں جبکہ اپنی طرف سے 2الوداعیہ غزلیات بھی پیش کیں اور محفل میں سماں باندھ دیا ۔ 
اس موقع پر جدہ کے سنگرز نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظام علی خان کو تہنیت پیش کی ۔ بدر انصاری نے بہترین انداز میں تقریب کی نظامت کرتے ہوئے آرٹسٹوں کا تعارف کروایا ۔ تلنگانہ یونائیٹڈ فورم کے ذمہ داران محمود بلشرف، مہتاب قدر ، فاروق احمد ، بدر انصاری ، عبید باجوہ منور خان ، عبدالقدیر جاوید اور ضمیر الدین نے تمام تنظیموں کے سربراہوں ، سنگرز اور شرکاءشکریہ ادا کیا جنہوں نے شرکت کرکے اس تقریب کو کامیاب بنایا ۔ 
******

شیئر: