Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”اپنی خالہ کو گود میں لے کر اسکول جاتی ہوں“

 2شیزہ کی باتیں سن کر ہمارے ہاتھوں کے توتے شوتے سب اُڑ گئے

 

شہزاد اعظم۔جدہ
 
زندگی میں ہر کسی انسان کو کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں ایسا جملہ سننا یا سنانا پڑ جاتا ہے جو ان گنت پوشیدہ امور کا پردہ چاک کر دیتا ہے، بہت سے مستور امور کو بے نقاب کر دیتا ہے ، کئی راز افشا کر دیتاہے، گاہے لا تعداد بھانڈے پھوڑ دیتا ہے،کبھی و ہ تمام معاملات کی قلعی کھول دیتا ہے اور کبھی اس جملے کے باعث متعدد ہانڈیاں چوراہے میں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں، کبھی یہ سیکڑوں گتھیاں ایک ساتھ سلجھا دیتا ہے، کبھی یہ عقل و خرد کے بند دروازے ایک ہی ٹھوکر میں چوپٹ کھول کر رکھ دیتا ہے، کبھی یہ جملہ انسان کی چولیں ہلا کررکھ دیتا ہے اور کبھی انسان کو اپنی زندگی کی راہیں بدلنے اورنئے سرے سے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ان جملوں سے مرتب ہونے والے اثرات اور درآنےو الی تبدیلیوں اور واقع ہونے والے تغیرات کے بارے میں پھر کبھی تفصیلی گفتگو ہو جائے گی تاہم یہ جملے کیا ہیں، فی الحال ان کی محض مثال ہی پیش کی جا سکتی ہے مثلاًکوئی خاتون اگر یہ کہتی سنائی دے کہ ”آپ سے شادی کیاہوئی، میری تو زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی“، یہ نسوانی جملہ کسی بھی سننے و الے پراس”اہلیہ “ کے ”اہل“ کی ”نااہلی“عیاں کر دے گا اس خاتون کا شوہر کماتا نہیں، کماتا ہے تو تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر لا کر نہیں رکھتا۔ اسی طرح کسی اسپتال کے زنانہ وارڈ کے باہر ٹہلتے ، گہری سوچ میں ڈوبے ، ہر آہٹ پر پلٹ کر وارڈ کے دروازے کی جانب لپکنے والے شخص کوجب وارڈ سے برآمد ہونے والی نرس کہتی ہے کہ ”آپ کے ہاںبیٹی ہوئی ہے“۔ یہ جملہ سنتے ہی ہم پر تمام عقدے وا ہو گئے اور ہمیں علم ہو گیا کہ ایسے موقع پر کسی بھی باپ کے ذہن میں سوچیں”دھرنا“دینا شروع کر دیتی ہیں اور اس دھرنے کا ”ڈی جے“وہ نغمہ ہائے رخصتی بجانے لگتا ہے جو اس باپ نے اس وقت سنا ہوتا ہے جب وہ دولہا کے یونیفارم میں باراتیوں کے جم غفیر کے ساتھ سسرال پہنچتا ہے اور دلہن کو لے کر واپسی کے لئے پر تولتا ہے توسسرالی درو دیواراپنی چہیتی کی رخصتی کے وقت دھاڑیں مارمار کرتمام باراتیوںکی سمع خراشی ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:
 ”بابل دا ویہڑا چھڈ کے ، ہو کے مجبور چلّی
گُڈیاں پٹولے چھڈ کے ویراں توں دور چلّی“
ایک اور مثال ایسی ہے جس سے ہم براہ راست متاثر ہوئے۔ ہوا یوں کہ گزشتہ ہفتے ہم وطن عزیزمیں سمندر سے ہم کنار، قلتِ آب کا شکار، لوڈ شیڈنگ سے بیزار روشنیوں کے شہرکراچی کی ایک بس نما وین میں سفر کی سزابھگت رہے تھے۔ راستے میں یہ وین ایک زنانہ درسگاہ کے پاس رُکی جہاں نازک صنف سے تعلق رکھنے والی متعددہستیاں سوار ہوئیں ۔ ان میں دو”2شیزائیں“ ہم سے اگلی نشست پر براجمان ہوگئیں۔ان میں سے ایک نے دوسری سے کہا کہ میری سب سے چھوٹی خالہ بڑی کیوٹ سی ہے۔ میں جب بھی کالج کے لئے تیار ہوتی ہوں وہ ضد کرتی ہے کہ مجھے بھی گود میں لے کر چلو۔ میں نے گزشتہ ہفتے ہی انہیں” کے جی 2“میں داخل کروایا ہے۔یوں ان کی ضد بھی پوری ہوگئی۔ میں روزانہ کالج جاتے ہوئے اپنی خالہ کو تیار کراتی ہوں اور انہیں گود میں لے کر گھر سے نکلتی ہوں۔ سارے راستے وہ اپنی توتلی زبان میں اسکول کی باتیں کرتی جاتی ہیں۔
اس ایک 2شیزہ کی باتیں سن کر پہلے تو ہمارے ہاتھوں کے توتے شوتے، کبوتروبوتر، بازشازاور چڑیاں وِڑیاں سب کے سب اُڑ گئے، منہ ایسا کھلا کہ بند ہونا ہی بھول گیا۔ اسی اثناءمیں عقل نے ہماری انگلی پکڑی اور دور تک ساتھ لے گئی اور ہمیں اس ”2شیزہ“ کے بیان سے پھوٹنے والے تمام بھانڈے، ہانڈیاں، فاش ہونے والے راز،کھلنے والی قلعی ، چاک ہونے اور ہٹائے جانے والے پردے وغیرہ دکھادیئے۔عقل نے ہمیں باور کرایا کہ ”اس ”2شیزہ“ کی نانی بے انتہاخوبصورت ہیں۔یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نانی کی عمرلگ بھگ 12برس کی تھی۔ وہ اپنے گھر کی صفائی کر رہی تھیں کہ کھڑکی کے ایک پَٹ پر اچانک ایک چھپکلی نمودار ہوئی ، یہ وہ جاندار شے تھی جس سے وہ بے حد ڈرا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے موت سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا چھپکلی سے لگتا ہے “ چنانچہ چھپکلی کو دیکھ کران کی چیخ نکلی اور اس عالمِ بے دھیانی میںایک ہاتھ کھڑکی پر پڑا جو پھٹاک سے کھل گئی۔ باہرگلی میں سے ایک شخص جا رہا تھا، اس کی نظر ان پر پڑی اور وہ یہ نامکمل جھلک دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔اس نے اس جھلک کے مکمل ہونے کا انتظار شروع کیا، اسے یقین تھا کہ کھڑکی پھر کھلے گی مگر ایسا نہ ہوا، پہلے شام ہوئی، پھر رات ہوئی ، پھر نیا دن نکلا، سورج اُبھرا، دوپہر ہوئی، شام ہونے لگی مگر کھڑکی نہ کھلی اور نہ ہی کھلنی تھی۔ باہر ایستادہ شخص بھی ایساگرہ کا پکا تھا کہ اس نے ادھوری جھلک مکمل کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ جب محلے والوں کو شبہ ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ اے نوجوان! تم یہاں کیوں کھڑے ہو،آخر تمہاراکیا کھو گیا ہے؟ اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں نے نامکمل یعنی ادھوری جھلک دیکھی ہے، مجھے اس دریچے میں نامکمل چاند دکھائی دیا تھا، میں اس کی دوبارہ آمد کا منتظر ہوں، ماہِ کامل دیکھ کر ہی ٹلوں گا ۔ محلے داروں کو جب ان ”حقائق“ کا ادراک ہواتو انہوں نے اس نوجوان کی خوب درگت بنائی ، مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا اور اسے ان الفاظ میں دھمکی دی کہ:
”ابے او کھڑپینچ، کھڑ گنجے، آئندہ اس کھڑکی کے سامنے کھڑا دکھائی دیا تو کھڑاﺅں سے کھڑ کھڑا دیں گے۔اس کے بعد انہوں نے اس زخمی نوجوان کو ایک بوری میں ڈال کر کہیں دور لے جا کر پھینک دیا۔ اگلے ہی پہر وہ روتا پیٹتا گھسٹتاواپس آیا ۔ وہ اپنے ساتھ ایک تپڑی بھی لایا اور کھڑکی کے سامنے بچھا کر بیٹھ گیا۔ لوگوں نے پھر پوچھا کہ یہاں کیا کرنے آئے ہو، اس نے کہا کہ ادھوری جھلک مکمل کرنی ہے، ماہِ کامل دیکھ کر ہی ٹلوں گا ۔اس کا یہ عزِ مصمم دیکھ کر جمِ غفیر نمودار ہوا جس نے کھڑاﺅں پہن رکھی تھیں۔ سب نے اپنے ایک پیر سے کھڑاﺅں اتاری اور اس نوجوان کی دھنائی شروع کر دی۔ وہ لہو لہان ہو کر بیہوش ہو گیا۔ لوگوں نے اسے بوری میں ”بھرا“ اور کچرا کنڈی کے پاس پھینک کر آگئے۔ کچھ دیر کے بعد جب اسے ہوش آئی تو وہ بوری سے نکلا اور سیدھا اسپتال گیا جہاں ڈاکٹروں سے اس نے مرہم پٹی کرائی اور وہاں سے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر نانی کی کھڑکی کے سامنے جا گرا۔ محلے داروں نے پھر دریافت کیا کہ آخر وہ یہاں کیوں لیٹا ہے، اپنے گھر یا کسی اسپتال میں جا کر صحت یا موت کا انتظار کیوں نہیں کرتا؟ اس نے جواب دیا کہ میں جھلک مکمل کرکے ہی جاﺅں گا، ماہِ کامل دیکھوں گا۔3دن کے بعد اس نوجوان کی والدہ اپنے جگر گوشے کو تلاش کرتے کرتے وہاں آ نکلیں۔ پہلے تو انہوں نے بیٹے کو پیار کیا، پھرزخموں کی بابت دریافت کیا۔ بیٹے نے سارا ماجراسناڈالا۔ اس کی والدہ وہاں سے اٹھیں اور فوراً ہی نانی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ پڑ نانی نے دروازہ کھولا، نوجوان کی والدہ نے ان سے کہا کہ میرا بیٹا آپ کی بیٹی سے بے حد متاثر ہوگیا ہے، میں اسے بہو بنانے کے لئے آئی ہوں۔ یہ سن پڑنانی نے اپنی بیٹی کو آواز دی کہ منہ ہاتھ دھو کر تیار ہوجاﺅ، تمہیں بہو بنانے والی آگئی ہیں۔ یہ سن کر نانی نے اسکول کا یونیفارم پہنا اور تیارہو کر آگئیں۔ پڑنانا ،مولوی صاحب کو بلا لائے ، انہوں نے اس زخمی نوجوان سے اپنی بیٹی کا نکاح پڑھوایا اور گھر کے ملازم سے تانگہ منگوایا۔ یوں وہ زخمی نوجوان جو اب ہمارے نانا ہو چکے تھے، اپنی والدہ کے ساتھ اس”ماہِ کامل“ کو لے کر تانگے میں بیٹھ کر چلے گئے۔یہی وجہ ہے تھی کہ جب ہماری امی15سال کی عمر میں کالج میں پہنچیں تو نانی کی عمر صرف29سال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج میں اپنی خالہ کو گود میں لے کر اسکول چھوڑنے جاتی ہوں۔یہ بھی علم نہیں کہ آئندہ اور کتنی خالاﺅں کو گود میں کھلانا میری قسمت میں لکھا ہے؟
آج مجھے خیال آتا ہے کہ بڑوں کی ہدایات، بیانات، فرمودات و ارشادات میں کیسی کیسی حکمتیں ہوتیں ہیں، واقعی ہم نہیں جان سکتے۔ہمیں ہمارے بڑوں نے سمجھایا ہے کہ انسان کو بہادر ہونا چاہئے، ڈرپوک نہیں۔ اب اگر ہماری نانی نے بڑوں کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیا ہوتا تو نہ تو وہ چھپکلی سے ڈرتیں، نہ کھڑکی کا پٹ پھٹاک سے کھلتا، نہ ان پر ”نانا“ کی نظر پڑتی، نہ وہ ادھوری جھلک دیکھ کر حواس باختہ ہوتے، ”نہ ماہِ کامل کی دید“ کے لئے ضدکرتے اور نہ نانی سے ان کی شادی کا کوئی بہانہ بنتا۔اب مجھے ہی دیکھ لو، میں کسی انسان یا جانور سے نہیں ڈرتی۔چھپکلی آئے یا نہ آئے، میں جب چاہوںکھڑکیاں کھول دیتی ہوں اور جب چاہوں بند کر دیتی ہوں، مجال ہے کہ کوئی ماضی، حال یا مستقبل کاکوئی ناناکسی قسم کی ضد کر سکے۔
یہ سن کر ہمارے دل میں خیال آیا کہ ”ماضی حال یا مستقبل کا نانا کسی کھڑکی کے باہرکھڑے ہونے کی ضد اسی وقت کرے گا ناں جب اسے ادھورا چاند نظر آئے گا۔ایسی نانیاں جن کا چہرہ نقاب میں رہنے کا عادی ہو، وہی بدلی میں چھپے چاند کی مانند ہوتا ہے ، ورنہ وہ چاند نہیں رہتا بلکہ ماندہوجاتا ہے، پھر کھڑی کھلے یا دروازہ، کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ اسی اثناءمیں نجانے کیا ہوا، اس بھانجی کی گود میں سوارخالہ نے سوال کیاکہ ”یہ بتائیں ! آپ عبایا تیوں نہیں پہنتیں“۔ معصوم خالہ کے اس سوال نے بھانجی کو لاجواب کر کے عجب شش و پنج میں مبتلا کر دیا، خالہ نے پھر وہی سوال دہرایا، قبل اس کے کہ بھانجی کوئی ”نامعقول تاویل“ پیش کرکے خالہ کو چپ رہنے کا مشورہ دیتی، اسٹاپ آگیا اور وہ خالہ بھانجی وین سے اتر گئیں۔
 

شیئر: