Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اشیاءہمارے پاس ، ہم اپنوں سے دور، کیا فائدہ

 
 سوشل سائٹس پر رابطہ ضروری نہیں،خط سے بات پہنچائی جا سکتی ہے
اُم مزمل۔جدہ 
وہ پنگھٹ پر پانی بھرنے آئی تھی ۔وہ کیمرے کے لینزکو زوم کرکے دیکھ رہا تھا ۔ وہ اس گاﺅں کی ترقی کی عجیب داستان سن کر یہاں آیا تھا۔ وہ اونچے پہاڑ ،چٹانوں سے نکلتے صاف شفاف آبشار اور لہلہاتے کھیت کھلیان کائنات کی خوبصورتی کو اجاگر کر رہے تھے۔ اس نے 
اس جگہ کی نہ صرف خوبصورتی کا ذکر سنا تھا بلکہ ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے اپنے ریسرچ ورک کے دوران اسے آگہی ہوئی کہ اس علاقے میں کوئی ایسی شخصیت بھی موجود ہے جو قدرت کی صناعی کے شاہکار اس حسین خطہ¿ ارضی میں لاعلاج بیماریوں کاکسی دوا کے بغیر علاج کرتی ہے اور اس کے اس قدرتی علاج کی دھوم دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ صحت یاب ہونے والوں کے دلوں سے اس حسین وادی کو چھوڑ کر کسی شہر کا رخ کرنے کی خواہش ہی نکل جاتی ہے ۔
وہ تین دنوں کی مشقت کے بعد ایک ایسی عمارت میں اپارٹمنٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا تھا جہاں سے وہ اپنے جدید 
کیمرے کی مدد سے اس پورے علاقے کو دیکھ سکتا تھا اور اب اس نے اس کامیاب طریقہ¿ علاج کے بارے میں جان کر اپنے وطن واپس جانا تھا ۔یہی اسکااس جگہ آنے کا مقصد تھا کہ وہ یہاں سے خود ایسا علم حاصل کرے جس کی وجہ سے مریض کی جان دوا کے بغیر بچائی جا سکے۔
 اسے پوری امید تھی کہ اس نے جو ہدف سوچا ہے وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مکمل ہو جائے گا لیکن وہ اسکا طریقہ علاج ہی نہ سمجھ سکا۔
وہ سورج نکلتے ہی سیکڑوں عورتوں،لڑکیوں اور بچیوں کی قطار کی سربراہی کرتے ، وہ پانی بھرکر واپس آتے، سائبان تلے محلے بھر کے لئے اور کھیت پر کام کرنے والوں کے لئے کھاناتیار کرت دکھائی دی ۔اس کے علاوہ اس نے کیمرے کی آنکھ سے اسے کوئی قلم، کتاب تھامے یا ادویہ کی تیاری کرتے نہیں دیکھا۔ اسکی یہی بات اسے اور زیادہ حیرت میں ڈال دیتی کہ پھر اسکو اتنا خاص کیوں مان لیا گیا ہے کہ 
اس کے گھر سے نکلنے سے پہلے اس گاﺅں کا ہر مرد اپنے اپنے کام پر چلا جاتاہے اور اگر کوئی کسی وجہ سے گھرپر رہ جاتا تو پھر وہ سارا دن گھر سے نہیں نکلتا تھاحتیٰ کہ وہ اپنے بڑے سیاہ گیٹ والے گھر میں داخل نہ ہو جائے۔ وہ اسکی اتنی اہمیت کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا۔اس کا رعب و دبدبہ لوگوں پر غالب تھا یاہر دل میں اس کی اتنی عزت تھی کہ اس کے کہے بغیر ہی اسکی ہر خواہش کا احترام کیا جاتاتھا۔ 
ایک عجیب بات جس کا وہ اتنے دنوں میں نوٹس لینے پر مجبور ہوا، وہ یہ تھی کہ وہ پانی کا گھڑااٹھائے کچھ کہتی جاتی تھی اور اسے دراصل حیرت اس بات پر ہورہی تھی کہ جب اس نے زوم کر کے دیکھا تو قطار میں چلتی ہر عمر کی عورت اسی طرح زبان سے کہتی جاتی۔ روزانہ وہ یہی منظر دیکھتا اور انتظارکرتا کہ آج تو ضرور کچھ ایسا مختلف دن ہوگا جب وہ کسی علاقے میں جڑی بوٹیاں تلاش کرنے کسی جگہ جائیں گی 
لیکن وہ ناکام رہا کیونکہ وہ سب ایک ہی روٹین ورک کرتی نظر آتی تھیں۔
وہ رپورٹ لکھ رہا تھا کہ جس نے بھی اس لڑکی کی غیر معمولی صلاحیتوںکا ذکر کیا تھا اس سے ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے کیونکہ اسکی اتنے دنوں کی نگرانی میں کوئی ایک بات بھی عجیب نہیں۔ ویسی ہی روزمرہ کی مصروفیت ہے جیسا کسی بھی گاﺅں میں عورتوں کی مصروفیات ہوتی ہیں۔
پوچھاگیا کہ کیا اس گاﺅںمیں لوگ مطمئن ہیں اور اس لڑکی کی واقعی اتنی ہی اہمیت ہے جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے؟وہ اس بات پر سچ مچ چونک گیا کہ لوگوں کے دل میں اس کے حد سے زیادہ احترام کی کیا وجہ ہوگی؟ اور پھر وہ اس لڑکی کے ہونٹوں کی حرکات سے اندازہ لگاتا کہ جیسے وہ کچھ بول رہی ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آخر وہ روزانہ ایسا کیا کہتی تھی کہ اس کے لبوں کی جنبش ایک مخصوص انداز میں جاری رہتی اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ کہ اس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ قطار یں موجود تمام عورتیں اسی کی طرح کچھ کہتی جاتی تھیں۔
وہ چونکہ بہت دور سے کیمرے کے ذریعہ دیکھ سکتا تھا تو وہاں تک ان کی آواز نہیں سنی جاسکتی تھی۔ اب اس نئے خیال کے آجانے پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو اسے اس کی حقیقت بتا سکے۔
وہ دور تک سیر کی غرض سے شہر کی پکی سڑک تک جاتا تھا اور اردگرد کے لوگوں سے مقامی لوگوں کی کوئی خاص بات معلوم کرنے 
کی کوشش میں رہتا تھا۔آخر کار اسکی محنت رنگ لائی اوروہ کسی سے یہ سوال کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کے سر میں سخت درد ہے تو اسکا علاج کیسے ممکن ہے جبکہ اس کو کوئی دوا فائدہ نہیں دے رہی۔یہ سننا تھا کہ اس آدمی نے فوراً کسی بچے کے ہاتھ یہ پیغام اس ہمدرد ہستی کو بھجوا دیا اور اسکو اپنے اتنے دنوں کے ضائع ہونے کا احساس ہواکہ یہ خیال پہلے ہی اس کے ذہن میں آجاتا تو اتنے دنوں کی مشقت سے بچ جاتا لیکن دراصل وہ آج بھی یہی بات سوچ رہا تھا کہ ضرور کوئی غیر معمولی عمل کیا جاتا ہو گاجس کا پتہ وہ کسی نہ کسی دن لگاہی لے گا جسکو معلوم 
کرنے میں وہ اب تک ناکام رہا تھا۔
کچھ دیر گزری تھی کہ ایک بچے نے اپنا سبق سنا ناشروع کیا اور وہ اس کی خوش الحانی کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا اور اس کا سبق سننے والے کا یہ کہناتھا کہ ڈاکٹر باجی کو پتہ چلا کہ تمہاری جماعت میں تمہارا سبق پکا نہیں تھا تو معلوم ہے ناں پھر سہ ماہی چھٹیوں میں ہم کہیں سیر کو نہیں جا سکیں گے۔ 
اس نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا یہاں کوئی ڈاکٹر خاتون بھی ہیں؟ جواب ملا وہ ایسی ڈاکٹری جانتی ہیں کہ ہر مرض کا علاج پانی سے کرنے کو کہتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ آج ہم اپنے ارد گردخطرناک شعاعوں میں گھرے رہتے ہیں اور اسی وجہ سے بیمار پڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اور اسی وجہ سے ہمارے علاقے میں ترقی کے نام پر مواصلاتی رابطوں کا کوئی گزر نہیں ہے وہ اچانک اپنی اتنے دن کی محنت کا نتیجہ معلوم کرنے کے لئے سوال پر سوال پوچھ رہا تھا کہ اس طرح آپ لوگ تو اپنے لوگوں سے کوئی بات بھی نہیں کر پاتے ہونگے اس کو جو جواب ملا وہ اسکی اپنی طبیعت صاف کرنے کے لئے کافی تھا کہ ہم اپنے پیاروں کو اپنے سے دور بھیجتے 
ہی نہیں کہ جنکی صرف آواز اور تصویر دیکھنے تک محدود ہو جائیں۔ اس آسائش کا کیا فائدہ کہ اشیاءہمارے پاس ہوں اور ہم اپنوں سے دور رہیں۔ اچھا ہے کہ ہم سادہ ماحول میں صحت اور ایمان کی دولت سے معمور اپنی خوشگوار زندگی گزاریں۔
اس نے اس بارے میں بھی اتنے دن سے ذہن میں آیا سوال پوچھ لیاکہ عورتیں تو کہیں پڑھنے جاتی نہیں ، کوئی کتاب بھی کھول کر نہیں پڑھتیں۔اس نے جواب دیاکہ ہمارے گاﺅں کا ہر فرد حافظ قرآن کریم ہے اور کھیتوں میں کام کرتے مرد ایک دوسرے کو سناتے ہیں اور گاﺅں بھر کی عورتیں پانی بھرنے جاتی ہیں تو ڈاکٹر باجی کے ساتھ روزانہ قرآن مجید دہراتی ہیں۔
وہ ہکا بکا رہ گیا ،وہ جس معاملے کو سلجھا نہیں سکا تھا ،وہ آج سمجھ پایا تھا کہ جب مالک حقیقی سے اپنا تعلق قائم کرلیں تو دنیا کی کوئی آسائش اپنی جانب نہیں کھینچ سکتی ۔لوگوں سے سوشل سائٹس پر رابطہ کرنا ضروری نہیں ہوتا۔یہ کام پوسٹ آفس جاکر یا اپنے علاقے میں موجود لیٹر بکس سے خط ڈال کر بھی کیاجا سکتا ہے اور اپنوں تک اپنی بات پہنچائی جا سکتی ہے ۔
اس نے ایک فیصلہ کیا اور چند سطریں لکھ کر اپنی والدہ کو اپنے پاس آنے کی درخواست کر دی کہ اب وہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجا دیں۔
جاننا چاہئے کہ جو انسان اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنالیتا ہے وہ مالک حقیقی کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
 

شیئر: