Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لوگوں کی دوا اندرون ملک،اپنا علاج بیرون ملک

 
 حکیم صاحب لوگوں کا علاج کرتے تھے تو اپنا کیوں نہیں کر پائے؟
زینت شکیل۔جدہ
وہ لان میں پانی دے رہی تھی۔وہ دفتر سے واپسی پر خود گاڑی سے اتر کر مین گیٹ کھول کر گاڑی لان کے ساتھ بنے روِش پر لے آیا۔اسی دوران اسکی نگاہ سبز گیٹ کے اندر لان میں موجود سیکڑوں لوگوں پر پڑی۔ وہ اس سے پوچھنے لگی کہ ان کے گھرمیں آج اتنا رش کیوں ہے ؟وہ مصروف انداز میں مختصر جواب دے کر اندرونی دروازے میں داخل ہوگیا کہ ارد گردبستیوں سے بسوں میں سفر کر کے لوگ اپنی بیماری کا علاج کرانے ان حکیم صاحب کے پاس آتے ہیں ۔تمہیں انکے بارے میں زیادہ تجسس نہیں کرنا چاہئے ۔
اکثر اس کے گھر مہمان آتے تو ضرور یہ سوال پوچھتے کہ کیا یہاں کوئی تقریب ہے ؟ وہ لوگ بتاتے کہ تقریب تو کوئی نہیں تاہم مختلف گوٹھوں سے لوگ دور دراز کا سفر کرکے یہاںپہنچتے ہیں تاکہ انہیں اپنے درد کی دوا ملے، بیماری کا علاج ہو۔ 
وہ اشتیاق سے معلوم کرتے کہ کیا انہیں فائدہ ہوتا ہے ؟ وہ بتانے لگی مجھے تو لوگوں کے رش سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی سبیل تو نکلتی ہوگی کہ ہر ہفتے ان کاطویل وعریض لان بھرا ہوتا ہے ۔ان لوگوں نے مزید پوچھاکہ جب لوگ سارا سارا دن ادھرجمع رہتے ہیں تو کوئی کھانے پینے کا بھی انتظام ہوتا ہے یا نہیں؟اس نے بتایا کہ مغرب کے وقت کئی گاڑیاں آکر رکتی ہیں پھر دیگوں کے کھڑکنے کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ بار بار پلاﺅ اور چاہئے کی آوزیں آتی ہیں کبھی یہ آواز بھی آتی ہے کہ ایک سینی میں نمکین میٹھے دونوں چاول آدھے آدھے دیتے جاﺅ لوگوں کو نمکین میٹھے چاول ملاکر کھانے میں اچھا لگتا ہے ۔
  وہ جب مہمانوں کو شام میں گھمانے لے گیا تو سب نے ہی اچھا وقت گزارا ۔جب انکے گھر کے قریب پہنچے تو اس جم غفیر کو دیکھ کر پھر وہی ایک سوال ذہن میں گونجا کہ کیا واقعی بیمار کو کسی ڈاکٹرکے پاس جانے کی ضرورت نہیں ؟ کیا انکا بتایا ہوا علاج کافی ہوتاہے کہ تیز دھوپ میں 4 گھنٹے مشقت کا کام کرو۔ اس کے لئے بہترین یہ ہے کہ حکیم صاحب کی زمین پر کم از کم چار مہینے تک یہ علاج جاری رکھو۔ بھلے چنگے ہو جاﺅ گے۔
اس کے چچا زاد بھائی نے کہا ”واہ بھئی ! حکیم صاحب نے کیا ذہانت پائی ہے یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے بھی دام۔ کوئی معمولی بیمار بھی ہوتا ہو گا تو انکے ملازمین یہ راستہ دکھاتے ہونگے کہ چلوحکیم صاحب کے ہاں،وہا ں جانے میں تمہاراکوئی خرچہ نہیں ہوگا۔ مزے سے بس میں آرام دہ سواری کے مزے لینا اور وہاں شہر کی رونق بھی دیکھنے کو ملے گی۔ آدھی طبیعت تو اس سفر کے دوران ہی ٹھیک ہو جائے گی اور
باقی جب وہاں پہنچو گے تو شاندار مہمانداری سے تمہاراجی خوش ہو جائے گا۔ وہ مفت میںبیماری کا علاج بھی کریں گے اور اس کے بعد اپنی رحمدلی کی وجہ سے مہینے بھر کا اناج بھی تمہارے گھر میں بھجوادیا کریں گے ۔
دوسرے کزن نے کہا کہ یہ لوگ کتنی عقل مندی سے مزدوری کا پیسہ بچا رہے ہیں اور ان لوگوں سے اپنا کام نکال رہے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ لیکن ایک فائدہ تو بہرحال ان کو ہوتا ہوگا کہ بے کاری کے عالم میں جو جو بیماریاں ان پر حملہ آور ہوتی ہوں گی،یہاں کام کے باعث ان کی مصروفیت ہی انکا علاج بن جا تی ہو گی ۔
ڈھائی مہینے کے بعد ان لوگوں کا دوبارہ پروگرام بن گیاتو کیا دیکھتے ہیں کہ سبز گیٹ بند ہے اور وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے۔تجسس نے سر اٹھا یا تو پڑوسیوں سے اسکا سبب پوچھا ۔انہیں بتایا گیا کہ آپ اتنے بے خبر ہیں کہ ہمارے حکیم صاحب آجکل بیمارہیں اسی لئے علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں ۔ان کے بارے میں تو کئی چینلز نے خبر بھی دی ہے ۔ 
وہ حیرانی سے سوال پوچھ رہا تھاکہ جب حکیم صاحب اتنے لوگوں کا علاج کرسکتے تھے تو اپنا علاج کیوں نہیں کر پائے؟حکیم صاحب کا ”خادم“ ناراض ہوکر کہنے لگاکہ ہر امیر آدمی اپناعلاج کرانے باہر جاتا ہے،اس پر تو کوئی کچھ نہیں کہتا ، حکیم صاحب پرآپ کو اعتراض کیوںہے۔ ویسے بھی وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے ہیںجس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے ۔ وہ بہت اذیت میں ہیں۔ ان کے لئے دعا کریں۔
جانناچاہئے کہ جو لوگ اپنی ذہانت کا منفی استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں ، قدرت کسی نہ کسی شکل میںان کا حساب بے باق کردیتی ہے۔
  
 

شیئر: