Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بالی، ہالی، لالی وڈ کی طرح ”ماسی وڈ“

 
 کوئی خاتون کام خود کرے تو اسے احساس کمتری کا شکار کر دیاجاتا ہے
صبیحہ خان۔ ٹورانٹو
لوگوں کو گھریلو کاموں کے لئے ملازماﺅں کی جتنی ضرورت موجودہ دور میںہے ،پہلے کبھی نہ تھی حالانکہ ماضی کے دور میں تو گھروں میں آج جیسی مسالہ پیسنے ، کپڑے دھونے اور مختلف کام سرانجام دینے والی جدید مشینوں کی سہولت بھی نہیں تھی مگر اب ان تمام آسائشوں کے باوجود ملازمہ کے بغیر خواتین کو اپنی زندگی ادھوری لگتی ہے۔ گھریلو ملازماﺅں کی مانگ اتنی ہے کہ ان کی باقاعدہ صنعت یا انڈسٹری”ماسی وڈ“ موجود ہے جہاں ہر عمر کی خادمائیں اور ملازم بکثرت دستیاب ہیں۔ اکثر گھروں میں ماسیوں کا پورا کنبہ مختلف کاموں پر مامورہوتا ہے اور ہمیں یقین واثق ہے کہ اگر یہ خادمائیں ایک دن ہڑتال کر دیں تو بہت سی خواتین ممکن ہے صدمے اور غم کے باعث کوئی انتہائی اقدام کر بیٹھیں کیونکہ گھریلو کام کاج اکثر خواتین کوکسی عذاب سے کم نہیں لگتا۔ ایک دن کام والی نہیں آتی تو گھر میں گویا طوفان کی سی کیفیت بپا ہوجاتی ہے۔ گھر کا ہر فرد ملازمہ کو کوس رہا ہوتا ہے۔ اگر ملازمہ کی بیماری کی اطلاع موصول ہو جائے تو اسے محض بہانے کا نام دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ابھی پچھلے ہفتہ تو وہ بیمار ہوئی تھی۔ گھر کی مالکن ملازمہ کی بیماری کے خیال سے ہی لرز اٹھتی ہے کہ اب اسے برتن دھونے پڑیں گے، آٹا گوندھنا پڑے گا۔ 
پوش علاقوں میں رہنے والے اکثر گھرانے صرف نوکروں کے بل پر چلتے ہیں۔ کچن سمیت پورا گھر ہی ملازماﺅں پرچھوڑدیا جاتا ہے۔ گھر کی بیگمات کا زیادہ تروقت شاپنگ، پارٹیز، سالونز اور جم کی نذر ہوجاتا ہے ۔ نہ انہیں گھریلو کاموں سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی اتنی فرصت کہ ان کاموں میں اپنا وقت گنوائیں ۔
واقعہ ہے کہ جب ایک کم عمر ملازمہ نے اچانک نوکری چھوڑنے کا اعلان کیا تو گھر کی مالکن نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا کہ تمہیں احساس نہیں کہ صاحب تمہارے ہاتھ کے ذائقے دار کھانوں کے کتنے عادی ہوچکے ہیں ،اب تم چلی جاﺅگی تو ان کو کتنا برا محسوس ہو گا۔ اس پر ملازمہ نے تنک کر جواب دیا آپ صاحب کی فکر نہ کریں کیونکہ وہ بھی میرے ساتھ ہی جا رہے ہیں۔ 
اب گھروں میں ماسیوں سے کام کرانا اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی خاتون گھر کا کام خود کرے تو دوسری خواتین اسے اس کی معاشی مجبوری قرار دے کر احساس کمتری کا شکار کر دیتی ہیں۔ اس کے برعکس یورپ اور امریکہ کے لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اپنے گھر کے کام وہ خود انجام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ فیملیز جو اپنے ملک میں رہ کر اپنے سارے کام نوکروں پر ڈال دیتی ہیںاور خود کام کرنا شان کے خلاف سمجھتی ہیں، وہ بیرون ملک جاتی ہیں تو ان کے سارے کس بل نکل جاتے ہیںکیونکہ پردیس میں ان کو گھر کے سارے کام یہاں تک کہ باتھ روم کی صفائی بھی خود کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود گوروں کے دیس میں کام کرنا ان کے لئے باعث فخر ہوتا ہے۔ 
دیکھا جائے تو اب صورتحال یہ ہے کہ گھر میں کام کرنے کی وجہ سے ماسیاں تو اسمارٹ دکھائی دیتی ہیں مگر خاتون خانہ اپنے وزن میں دگنا اضافہ کر بیٹھتی ہیں جب مٹا پا بے قابو ہونے لگتا ہے تو بھاگنے دوڑنے ، پسینہ بہانے کے لئے مشینوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں سے مشورے ، مختلف ٹوٹکے اور نسخے استعمال کرنے کی تگ و دو شروع ہو جاتی ہے مگر گھریلو کاموں سے پھر بھی اجتناب کیا جاتا ہے۔ ان کے معالج بھاری فیس لے کر جب ان ”فربہ خواتین“ کو یہ مشورہ دے ڈالتے ہیں کہ گھر کا کام خود کریں تو اسے وہ ڈاکٹری نسخہ سمجھتی ہیں اور ان کی نظر میں ڈاکٹر کا حکم مانتے ہوئے گھر کے کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ۔
ہم اپنی پڑوسن کے گھر میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بی پڑوسن اپنے بھاری بھرکم وجود کے باعث بڑی مشکل سے اپنے گھر کے فرش پر رگڑرگڑ کر پونچھامار رہی تھیں او ران کی ملازمہ ہاتھ میں پانی کی بالٹی پکڑے ان کو کام کرتے دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہی تھی۔ ہمیں رحم آیا کہ ان پر اتنا برا وقت آگیا ہے کیونکہ ہماری یہ پڑوسن تو اپنی ناک پر بیٹھی مکھی اڑانے کے لئے بھی ملازمہ کو ہی آواز دینے کی عادی تھیں۔ 
ہمیں خیال آیا کہ ممکن ہے ان کی امیگریشن ہو گئی ہو اور وہ گھریلو کاموں کی پریکٹس کر رہی ہوں۔ ہمیں یوں اچانک سامنے دیکھ کر وہ خاصی شرمندہ ہوئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی جرم کر رہی ہوں۔ اسی لئے انہوں نے فوری اقبال جرم کی سی کیفیت میں بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ اصل میں وزن کسی طو ربھی قابو میں نہیں آرہا تھا۔ جاگنگ مشین پر دوڑتے ہوئے کتنے ہی مہینے ہو گئے مگر نہ وزن کم ہوا نہ کمر ۔ اب شہر کے معروف ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ مشکل کام کر رہی ہوں۔
گھرمیں ملازمہ ، آیا یا ماسی رکھنا کیونکہ ہماری سماجی مجبوری یا فیشن بن چکا ہے اس لئے گھریلو کام کاج کرنے والے ملازمین ہماری اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ان کے نخرے اور چھٹی کے بہانے سوطرح کے ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے کیونکہ ان ماسیوں اور آیاﺅں کی بدولت ہی تو ہمیں گھر کے کاموں سے نجات اور اپنی سوشل لائف انجوائے کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ 
ماضی میں ملازمہ رکھنا صرف ملازمت پیشہ خواتین کی مجبوری ہوا کرتی تھی جو بڑھتے بڑھتے سب ہی کی ضرورت بن گئی۔ یہ حال ہے کہ گھر کی ملازمائیں اسمارٹ ہو رہی ہیں او رمالکن بے ڈول اورمٹاپے سے بے حال۔ اس لئے دنیا میں صرف موٹے ہی نہیں پائے جاتے بلکہ موٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جی ہاں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی خوب موٹی ہوتی ہیں۔ بہت سی عورتیں اپنے گھر کے کاموں کو کسی عذاب سے کم نہیں سمجھتیں۔ چھٹی کے دن تو خواتین ویسے ہی کچن کو تالا لگا دیتی ہیں کہ اب تو ویک اینڈ شروع ہو گیا گھر میں کھانا نہیں پکے گا۔ ہوٹل انڈسٹری آج کل عرو ج پر ہے۔ فاسٹ فوڈ کا بول بولا ہے۔ آپ کسی بھی فوڈ اسٹریٹ میں جا کر دیکھ لیں تو ذہن و دل سے اس امر کے قائل ہو جائیں گے کہ ہماری قوم گھر پر کھانا کھانے کی بجائے فاسٹ فوڈز پر گزارہ کر رہی ہے جبکہ یہ کھانے گھر کے کھانوں سے کئی گنا مہنگے اور ساتھ ہی مضر صحت بھی ہوتے ہیں۔
ویسے تو ہر طرف مہنگائی کا رونا رویا جاتا ہے اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ آپ کسی بھی ہوٹل، ریستوران ، ریڑھی یا ڈھابے میں چلے جائیں وہاں پر آپ کو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ نظرآئیں گے۔ یہ مضر صحت کھانے مٹاپے او رمختلف بیماریوں کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔ کھانے کے شوقین افراد کو گدھے او ربکرے کے گوشت میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ گدھے کا گوشت کھانے والے لوگ اپنے لیڈروں کے انتخاب میں بھی گدھے پن کا شکار ہو رہے ہیں......صد معذرت! شاید ہم موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔ آرام طلب خواتین او رمرد حضرات جو ہل کر پانی پینا پسند نہیں کرتے اور ملازمین سے ہر کام کروانا ان کی عادت بن جاتی ہے ،یہی آرام طلبی عورتوں کو فربہ کر دیتی ہے۔ اگر خواتین گھر کے کام جیسے آٹا گوندھنا ، روٹی پکانا، کپڑے استری کرنا اور دیگر گھریلو کام کرنے کی عادت ڈال لیں تو کسی قسم کی ڈائٹنگ کرنے اور جم جانے کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ ان سب ”کارستانیوں“ کے بغیر ہی اسمارٹ اور صحت مند رہیں گی۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ موٹے لوگ خوش بہت رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ان کو موٹا کہہ بھی دے تو وہ برا نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ 
 

شیئر: