Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کا انسان :تنہائی میں دُنیا سے مربوط ، ہجوم میں تنہا

 
تحریر:منظورالحق: سابق سفیر پاکستان
ایک پرانی نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے جو ابن حنیف کی تحریر”مصر کا قدیم اَدب“سے لی گئی نظم کا ترجمہ ہے :
آج میں کس سے بات کروں
بھائی کمینے بن گئے ہیں
اور آج کے دوستوںمیں محبت باقی نہیں رہی
آج میں کس سے بات کروں
دل لالچی ہو گئے ہیں
ہر شخص اپنے ساتھی کا سامان ہتھیا لیتا ہے
آج میں کس سے بات کروں
شرافت ختم ہو گئی ہے
اور متشدد آدمی ہر شخص پر پل پڑا ہے
آج میں کس سے بات کروں
لو گ لُوٹ رہے ہیں
ہر شخص اپنے پڑوسی کو لُوٹ لیتا ہے
آج میں کس سے بات کروں
راست باز لوگ باقی نہیں رہ گئے
اور ملک بد کرداروں پر چھوڑ دیا گیا ہے
آج میں کس سے بات کروں
دھرتی پر بُرائی کا دور دورہ ہے
اس برائی کی کوئی انتہا نہیں
یہ نظم کوئی 4ہزار سال پہلے کہی گئی تھی اور ایسے لگتا ہے جےسے کل ہی تخلیق ہوئی ہو۔ بھائیوںکی لاتعلقی، دوستوںمیں محبت کی کمی، دِلوں میں لالچ کا ڈیرہ ،معاشرے میںشرافت کا ناپید ہونااور بُرائی کا عام ہونا، ایسی شکایتیں ہیں جو انسان ہر دور میں کرتا رہا ہے۔ قدیم مصری شاعر کوکیا معلوم تھا کہ اُس کی نظم کی تازگی ہمیشہ قائم رہے گی اس لئے کہ اُس نے انسان کی بنیادی کمزوری کو اپنی تخلیق کے لئے منتخب کیا اورانسان کی ماضی میں واپس جانے کی خواہش کوزبان دی۔اُس نے ہر دور کی بزرگ نسل کی نبض پر ہاتھ رکھا اور اُس کی دُکھتی رگ کو چھیڑا ہے۔
در حقیقت ہر دور کی بزرگ نسل ماضی کے سحر میں گُم ہو جاتی ہے۔اُسے ماضی کے حسین لمحات بھی یاد آتے ہیں اور تکلیف دہ ساعات بھی ۔ تلخ یادیں اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اورخوشگوار یادوں کو وہ بھولنا نہیںچاہتی۔ وہ حال کی تلخیوں کو تو شدت سے محسوس کرتی ہے لیکن لمحہ موجود کی شیرینی کی قدر نہیں کرتی ۔ اس لئے اُسے حال اور ماضی میں سے ماضی اچھا لگتا ہے پھر یہ کہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ گیاوقت واپس نہیں آتااور جو چیز انسان کو نہیں ملتی وہ اُسے اچھی لگتی ہے۔ 
بزرگ نسل سوچتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان کی عادتیں بگڑ گئی ہیں اور اُسکی خوبیاںماند پڑ گئی ہیں۔اس لئے اُسے گزشتہ زمانہ یاد آتا ہے اور وہ اُس میں لوٹ جانا چاہتی ہے لیکن یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ تبدیلی کا عمل ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ یہی زندگی کا اصول اور زمانے کا دستور ہے :
” ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“
جو نسل 60 یا 70کی دہائی میں جی رہی ہے یعنی جس نے 20ویںصدی کے آخری نصف سے لیکر اب تک وقوع پذیر تبدیلیاں دیکھی ہیں، اُسے تبدیلی کے عمل نے جس قدر متاثر کیا ہے اس کی مثال انسانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ اس نسل نے اِرتقاءکے عمل میں جو تیزی دیکھی ہے، اس سے پہلے کسی زمانے میںکسی نسل نے نہیں دیکھی تھی ۔
آج کی بزرگ نسل نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وہ انقلاب دیکھا ہے جو پہئے کی ایجاد کے بعد انسانی ارتقاءکی تاریخ میںسب سے اہم سنگ میل ثابت ہوا۔یہ نسل اُس دور میں پیدا ہوئی جب انسان کا چاند پہ پہنچنا ایک خواب تھا۔ ٹیلی فون موجود تھا لیکن آواز کے ساتھ اپنے مخاطب کی تصویر دیکھنا وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ای میل کے ذریعے برق رفتار پیغام رسانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ٹیلی فون ایجاد کرکے گراہم بیل نے کہا تھا کہ ہر گاﺅں میں ایک یا دو ٹیلیفونوں کی ضرورت پڑے گی۔ اُسے کیا معلوم تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ اسمارٹ فون کی شکل میں کئی لوگوں کے پاس 2 یا3 ٹیلیفون ہونگے۔ آج اسمارٹ فون ایک ضرورت تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف فوری مواصلات کی ضرورت پوری ہوتی ہے بلکہ یہ کتاب بھی ہے، کیمرہ بھی، ریڈیوبھی، گھڑی بھی، کیلنڈر بھی اور اخبار بھی ۔ نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو خوبصورت بھی بنایا ہے اورپُر آسائش بھی لیکن سماجی ا قدار کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔ جیسے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
”احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات“
آج انسان کا انسان پہ دارومدار کئی لحاظ سے کم رہ گیا ہے۔ وہ معاشرتی زندگی کی کئی ضروریات کوا سمارٹ فون سے پورا کرتا ہے۔وہ تنہائی میں دُنیا سے مربوط رہتا ہے مگر ہجوم میں تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک شخص اپنے دوستوں اور عزیزوں کے درمیان رہتے ہوئے کسی اور دنیا کے خیالوں میں گُم ہے، کسی اور سے رابطے میں ہے اور بسا اوقات اُسے اپنے کسی رشتہ دار یا عزیز سے تعلق رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ایک ہی گھر میں میاں ، بیوی،بچے اپنے اپنے موبائیل میں گُم ہوتے ہیں اور خوبصورت معاشرتی اقدار جیسے آپس میںملنا جلنا اور ایک دوسرے کا خیال رکھناکم ہوگیا ہے ۔ حکیم الامت نے گزشتہ صدی کے آغاز میں کہا تھاکہ:
 ”محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی“
یہ تبدیلی او رترقی جس تیزی سے واقع ہوئی ہے، آج کی بزرگ نسل باوجود کوشش کے اُس کے ساتھ قدم نہیں ملا سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج کا نوجوان اپنی بزرگ نسل سے ٹیکنالوجی کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں آگے نکل گیا ہے۔ آج بزرگ بچوں سے کہتے ہیں کہ بیٹا، میرا موبائل ذرا سیٹ کر دو۔کوئی معلومات حاصل کرنی ہو توبچے انٹرنیٹ سے کر لیتے ہیں یعنی چھوٹے خبردار اوربزرگ بے خبر۔جب آج کے بزرگ چھوٹے تھے تو سفید بال علمیت کی نشانی ہوا کرتے تھے۔ بزرگ بہت کچھ جانتے تھے اور جب یہ بڑے ہوئے توچھوٹے بہت کچھ جاننے لگے یعنی یہ نسل ہر دور میں بے خبر ہی رہی۔ اس نسل کو فائدہ بھی بہت ہوا ۔اِس نے زندگی کی اُن سہولتوں سے فائدہ اُٹھایا جواس نے سوچی بھی نہیں تھیں لیکن نقصان بھی بہت اُٹھایا۔ اس لئے کہ سماجی رویوں کے حوالے سے اس نسل نے جو معاشرتی اقدار دیکھی تھیں، وہ آج مفقود ہیں۔جوخوبصورت زمانہ اس نے دیکھا وہ نہیں رہا۔اس نسل کے لئے ماضی ایک خوبصورت خواب بن کر رہ گیا ہے۔یہ بھی حال سے شاکی اور ماضی کا قیدی ہے۔ تب تو چار ہزار سال پہلے قدیم مصر میں لکھی گئی نظم ایسے لگتا ہے جیسے آج لکھی گئی ہو اور ہماری بزرگ نسل کے لئے لکھی گئی ہو۔
”آج میں کس سے بات کروں؟“ بھائی وہ نہیں رہے۔ ”آج دوستوں میں محبت باقی نہیں رہی“ وہ سب واٹس ایپ اور فیس بک سے فارغ نہیں اور فارغ ہو بھی جائیں تو اُن کے پاس میرے لئے وقت نہیں۔انسان سے بڑھ کر آج مشین کی اہمیت ہے ۔ 
 

شیئر: