Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہماری تہذیب کے نقال، ہمارے لئے ہی بن گئے مثال

ہم ہر معا ملے کو سیا ست کی بھینٹ چڑ ھا دیتے ہیں 
تسنیم امجد ۔ریا ض
جب بھی کسی کام میں دھو کہ دہی یا نمود و نمائش شامل ہوجا تی ہے تواس کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں ۔بد قسمتی سے ہمارے ہا ں انسانی زندگیو ں اور سچا ئی کی کو ئی حقیقت نہیں۔جہا ں زندگیو ں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو وہا ں دھو کہ دہی کا امکان ہی نہیں رہتا لیکن بد قسمتی سے ہم اس بھو ل میں ہیں کہ جواب دہی جب ہو گی تب دیکھاجائے گا۔ وطنِ عزیز میں جب تک کچرے کے ڈھیر صاف نہیں ہو نگے ،تب تک بیما ر یو ں سے نجات نا ممکن ہے ۔نجانے ہم یہ کیو ں بھو ل رہے ہیں کہ ہماری تہذیب وہ ہے جس سے دو سرو ں نے سلیقہ سیکھا ،او جِ ثر یا کو چھونے کا و تیرہ ہم سے مستعار لیا، باعث شرم ہے کہ آج ہماری تہذیب کے وہی نقال ہمارے لئے ہی مثال بنے ہو ئے ہیں ۔صفا ئی ستھرائی ،ازل سے ہمارا طرہ امتیاز ہے مگر اسے اغیار نے اپنا یا ۔ہم نے اپنی روا یات سے منہ مو ڑ لیا ۔ہم اغیار کی تقلید میں کبھی کو ئی دن منا کر اور کبھی واک کر کے اپنے فرائض سے چشم پو شی اختیار کر لیتے ہیں۔یہ سب وقت کا ضیا ع ہے ۔الیکٹرانک میڈیابھی بغیر کسی تحقیق کے نیوز اسکر پٹ تیار کر لیتا ہے ۔صرف اور صرف وقتی واہ واہ کے لئے ۔
چند روز پہلے کی بات ہے ، آپا رو ہا نسی ہو رہی تھیں کہ صبح صبح ڈیزل کا دھوا ں گھروں میں بھی بھر جاتا ہے اس طر ح کہ سانس رکنے لگتی ہے۔اگر اس سے کوئی فائدہ ہوتا ہو توہم یہ بھی برداشت کرلیں مگر حالت یہ ہے کہ بچے اکثر اسی وجہ سے اسکول نہیں جاتے۔
ڈینگی آ گا ہی واک ایک خا نہ پری ہے ۔وجو ہ سے آ گا ہ تو کم و بیش سبھی ہیں ۔جس ملک میں بو ری بند لا شیں ملیں ،عوامی جلسو ں میں بموں سے خون کی ندیا ں بہانے اور جیتے جاگتے انسانوں کے پر خچے ا ڑانے سے کسی کا دل نہ دکھے، وہا ں تکلیف سے بلکتے اور بخار سے جلتے انسان کسے نظر آ ئیں گے؟
عوام جا نتے ہیں کہ ڈینگی سے بچا ﺅ مہم میں کیا دھو کاہو رہا ہے ۔اس دکھاوے کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ۔ڈا کٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے بچاﺅ کا موثر طریقہ ان مچھرو ں سے بچنا ہے جن کا سائنٹیفک نام”ایڈیز اجپٹائی “ ہے ۔اس کے کا ٹنے سے ہو نے والے بخار کو ییلو فیور بھی کہتے ہیں ۔ٹھہرے ہو ئے پا نی اور رات کے اوقات میں پو دوں سے احتیاط ۔گھر میں مچھر مار اسپرے اور آ ئل کا چھڑ کا ﺅ،تدارک میں مو ثر ہو سکتا ہے ۔لوگوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے پیمانے پر احتیاط کریں ۔گھرو ں اور محلے کی صفائی امدادِ با ہمی کی بنیاد پر ممکن ہے کیو نکہ اپنے اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانے سے اپنی روا یات کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں تو دین اسلام نے تعلیم فرما دی ہے کہ پاکیزگی نصف ایمان ہے، بس یہی سوچ کر پاکیزگی و صفائی کا خیال رکھا جائے تو نہ صرف فا ئدہ ہو گا بلکہ اللہ کریم کی خو شنو دی بھی حاصل ہوگی۔
اصولی طور پر جمہو ریت عوام دوست ہو تی ہے ۔حکومتی پا لیسیا ں بنا تے وقت عوام کی بہبود کا خاص خیال رکھا جا تا ہے بغیر کسی تفریق کے ،لیکن وطن کی صورتِ حال کے پیشِ نظر عام آدمی کا کہنا ہے کہ ہمیں رو ٹی کی فکر زیادہ ہے ۔بچوں کی بھو ک نہیں دیکھی جا تی ۔بھو کے بچے تو گند گی سے بھی اٹھا کر کھا لیتے ہیں ۔پیٹ کی آ گ بہت بری چیز ہے ۔ان اشعار نے سب سمجھا دیا کہ:
مر جھا گئے ہیں دل یہا ں
انسا نیت ہے اب کہا ں
لو گو ں کے دل پتھر ہو ئے
اچھے جو تھے بد تر ہو ئے 
اک گھر میں تھا ما تم بچھا
فا قے میں تھا سارا ہی گھر
لو گو ں پہ تھی ان کی نظر 
کچھ تو کو ئی دے جا ئے گا
آ خر کرم ہو جائے گا 
غر بت نے ایسی مار دی
بچے نے با زی ہار دی
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصا ویر کا مقصد ان حقائق سے پردہ اٹھا نا ہے جو نا سور کی طر ح اندر ہی اندر ہمیں کھو کھلا کر رہے ہیں۔ آگہی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔وائرس والے مچھر کے کا ٹنے کے چار سے سات روز کے اندر ڈینگی کی علامات ظا ہر ہو تی ہیں۔ان علامات میں تیز بخار ،سردی لگنا ،جسم میں شدید درد اور کمزوری شامل ہے ۔بیماری کے پہلے گھنٹے کے دوران ٹا نگو ں اور جو ڑو ں میں شدید دردہوتا ہے ،سر درد اوربعض کو آ نکھو ں کے پیچھے شدید درد ہوتا ہے ،منہ کا ذا ئقہ کڑ وا ہو تا ہے اور رفتا رِ قلب میں کمی ،چہرے کا سرخ ہونا یا گلابی دا نوں سے بھر جا نا جو کچھ دیر بعد غائب ہو جا تے ہیں ،یہ علا مات دو سے چار روز کے بعد ختم ہو جاتی ہیں ۔پسینہ زیادہ آ نے لگتا ہے ۔مریض سو چتا ہے کہ وہ بہتر ہو رہا ہے لیکن پھر تیز بخار ہو جا تا ہے ۔
محرومی کسی بھی شے کی ہو ،انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی ۔معا شرت رواں رکھنے کے لئے وطن میں ہر طرح کے ادارے موجو د ہیں لیکن افسوس ان میں بیشتر کو آئین و قوانین کے تحت فرا ئض کی ادائیگی کا احساس ہی نہیں ۔کاش عوام شعور کا دامن تھا متے ہو ئے ان کرتا دھرتا ﺅں کے انتخاب میںدیا نت سے کام لیں جو ان اداروں کے محافظ کہلاتے ہیں ۔کاش ہم سمجھ سکیں کہ قیامِ پا کستان کا مقصد کو ئی عام ریاست بنانانہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قائم کرنا تھا جہا ں ہم اپنی انفرادیت کو دو بالا کر سکیں ۔ہم خود اپنے ہا تھو ں زوال پذیر ہو رہے ہیں ۔ہماری بد قسمتی یہی رہی ہے کہ ہم ہر معا ملے کو سیا ست کی بھینٹ چڑ ھا دیتے ہیں ۔اپنی ذمہ داریاںدو سروں کے حوالے کردیتے ہیں اور پلٹ کر ان کی خبر نہیںلیتے ۔
کہا جاتا ہے کہ دورِ جدید نمود و نمائش اور جدت کا دور ہے ،سچ ہے لیکن صفائی کے حوالے سے یہ جدت تو صفر ہے ۔ہا ں گھر ضرور صاف رکھے جاتے ہیں ۔یہ بھی کہاوت بن چکی ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران ۔اس کو ایک پختہ سچائی نہ بننے دیں ۔شعور کسی بھی وقت بیدار کیا جا سکتا ہے ۔مسائل کے حل کے لئے ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا ہے کیو نکہ نظام انسا نوں سے چلتا ہے مشینوں سے نہیں ۔انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانے میں کو ئی خاص تگ و دو نہیں کر نا پڑے گی ۔
 

شیئر: