Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیرہن بدلنے سے کردار نہیں بدلے جاتے

 
ہمارے یہاں  ’’تبدیلی کے زیر اثر‘‘ اداروں کی وردی بدل دی گئی
اُم مزمل۔جدہ 
 
فزکس میں ڈاکٹریٹ کر لینے کے بعد یہاں سائنس دان کے طور پراس کی تقرری ہوئی تھی۔وہ ایٹمی ری ایکٹر کے اہم شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔ وہ اسکول سے بیٹے کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی جس کی فر مائش پر آج اس نے مٹن بریانی، چکن نگٹس اور اسکی پسندیدہ ڈیزرٹ بھی بنا ئی تھی اور اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے ریفریجریٹر میں رکھ چکی تھی۔ 
وہ اس کی مصروفیت دیکھتے ہوئے کہنے لگاکہ بیٹے کو ایسے دیسی کھانوں کا عادی مت بنائو کیونکہ وہ اسی جگہ پیدا ہواہے اور یہیں زندگی گزارے گا ۔اس کی شادی بھی یہیں ہوگی تو ایک عرصہ گزارنے کے بعد یہاں پلنے والے بچے یہیں مقامی لوگوں میں ہی اپنا ساتھی ڈھونڈ لیتے ہیں پھر انہیں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کھانے پکانے کا ہوتا ہے ۔
وہ اپنی اسی بات کو دہرانے لگی کہ میں اسی لئے چاہتی ہوں کہ اپنے وطن واپس چلیں۔ ہم نے اپنے ملک سے اتنی سہولت کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور اس کا فائدہ پہنچانے یہاں آگئے ،صرف اس لئے کہ ہمیں اچھی تنخواہ ملے اورہم ایک ترقی یافتہ ملک کے شہری کہلائیں۔
وہ ناراضی کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے کہنے لگاکہ ’’ ہم کتنی دفعہ ایک ہی بات پر بحث کریں گے؟ لوگ پوری دنیا سے اس ترقی یافتہ ملک میں شہریت اختیار کرنے کے لئے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں اور ہمیں اس جگہ جاب ملی جس کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے لیکن ایسی اعلیٰ جگہ پر بہترین پوزیشن حاصل کرلینا معمولی بات نہیں جہاں دنیا کی جدید سائنسی تحقیق میں آپ کی ذہانت شامل ہو۔ ایسا موقع ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔
وہ کہنے لگی کہ میں بھی ایسا ہی گمان رکھتی تھی کہ اس دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے لئے مادی کامیابی حاصل کرو اور سب کچھ بھول جائو۔ ہمارے والدین بھی دنیا داری سکھانے میں پیش پیش رہے  اور شاید انہوں نے اپنے نا مساعد حالات کا حل ملک سے دوری سمجھ لیا لیکن آج جب بات کریں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے درست مشورہ نہیں دیا، جلد بازی کرگئے ۔ اسکول سے جب انکا بیٹا آیا تو اس کے ساتھ اسکاکلاس فیلو بھی تھا ۔اسکی والدہ کا اسی وقت فون آیا کہ میرے بیٹے کی طبیعت کچھہ خراب ہے اور سنگل پیرنٹ ہونے کا نقصان یہی ہے۔  اس سردی میں تیز بارش کی وجہ سے میرے بچے کو سخت فلو ہو گیا ہے۔ چونکہ تمہارے بیٹے سے دوستی ہے تو اس نے خود کہا کہ آپ ابھی آفس سے نہ آئیں بلکہ میں اپنے دوست کے ساتھ رہوںگا تو وقت بھی اچھا گزر جائے گا اور مجھے بخار کا پتہ بھی نہیں چلے گا ۔اسکول میں میڈیسن تو  ڈاکٹر نے دے ہی دی ہے ۔
  وہ دونوں کو کھانے کی میز پر آنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ انکی عادت تھی کہ وہ دونوں کتنا ہی اختلاف رائے رکھیں لیکن کبھی بیٹے کے سامنے ایک دوسرے پر کوئی تنقید نہیں کرتے تھے ۔ڈور بیل دوبارہ بجی تو وہ دروازہ کھولنے گئی۔ اسکی پڑوسن نے کہا کہ ڈھائی دن سے 
یہ میرے پاس ہے۔ آج اسکے فادر کو لینے آنا تھا لیکن ابھی تک آیا نہیں اور فون پر کہہ رہا ہے کہ تھوڑی دیر ہو جائے گی۔ بتائو میں تو اپنے آفس میں یہی کہہ کر آئی ہوں کہ بریک کے بعد میٹنگ میں پہنچ جائوںگی۔ تم بتائو آفس کے معاملے میں بھلا گھر کی طرح دیر سویر کرسکتے ہیں، لیکن اس کے فادر کو تو بس اپنی جاب کو بچانے کی فکر ہوتی ہے کہ ایک دن ،دو دن تاخیر سے پہنچے اور آپکی نوکری گئی۔ اتنے لوگ نوکری کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اس نے کہا کہ تم اطمینان سے اسے ہمارے گھر چھوڑ جائو۔ اچھا ہے وہ بھی ہم جماعتوں کے ساتھ اچھا وقت گزارلے گا۔ وہ اس کا شکریہ ادا کر کے دوبارہ اپنے آفس روانہ ہوگئی ۔
پڑوسن کے گھر سے بچے کا فون آیا کہ کیا آپ کے گھر ڈے اسپینڈ کرنے آسکتا ہوں؟ ابھی مجھے معلوم ہواکہ میرے فرینڈز آپ کے گھر پہنچے ہوئے ہیں ۔میں تو آج ایک ویک کے لئے اپنی گرینڈ مدر کے پاس آیا ہوا ہوں کیونکہ میرے فادر کو اپنی فیملی کے ساتھ  چند دنوں کے لئے کہیں جاناتھا اور مدر ہماری اپنی کمپنی کی طرف سے کانفرنس میں شرکت کے لئے گئی ہوئی ہیں۔ وہ جب آیا تو سامنے والا پڑوسی انکی نئی ماڈل کی کار کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ کیا تم اپنے ملک میں ایسی عیش والی زندگی گزارسکتے تھے؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا کہ اگر آپ بھی اگر محنت کرتے، پڑھ لکھ جاتے توآج دوسروںکی گاڑی دیکھ کر حسد محسوس نہ کرتے اور آپ بھی اپنی محنت سے ایسی کار میں گھومتے۔ 
تھوڑی دیر کے بعد کسی کام سے گھر سے نکلنا ہوا تو اکیلی رہنے والی پڑوسن نے کہا کہ آج تم دونوں میاں بیوی میں سے کسی نے میرے گھر کے سامنے سے برف ہٹانے میں میری مدد نہیں کی۔ وہ ابھی کچھ کہنا چاہتی تھی کہ اس نے بڑی بے نیازی سے کہاکہ اپنے ملک میں بھی تو زمین پر ہل چلانے کی عادت ہو گی تمہیں ،اگر روزانہ میری تھوڑی مدد کردیتی ہو تو یہ کونسی تمہارے لئے مشکل ہے۔ کھیت میں ہل چلانا اور سڑک سے برف صاف کرنا ایک جیسا ہی کام ہے ۔
وہ کئی دن کے بعد آج پھر اپنے ملک جانے کی بات کر رہی تھی اور وہ کچھ سننے پر تیار نہیں تھا۔ ایک سال ہی گزرا تھا کہ ایسا طوفان آیا کہ جس نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا یہاں تک کہ کئی ایٹمی ری ایکٹر زبھی اس طوفان میں کھلونے کی مانند سمندر میں شامل ہو گئے۔ صد فیصد سائنس دان بے روزگار ہوگئے ۔اس نے کہا کہ ہم بغیر بنیاد کے عمارت تعمیر کر رہے ہیں ۔ ہماری ترقی مادی اشیا ء میں نہیں۔ ہمارے سامنے ہمارے اسلاف کی زندگی روشن چراغ کی مانندہے ۔ ہمیں اپنا وہ کا م کرنا چاہئے جس کے لئے ہم اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ ہماری ترقی ہمارے مقصد حیات کو پانے میں ہے ۔جس قوم نے اپنے گھر سے زیادہ آسائش کو اہمیت دی ، وہ آج تتر بتر ہو رہی ہے۔ سنگل پیرنٹس کا معاشرہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے جو دیمک کی طرح اقدار کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ 
  ہمارے یہاں بھی سنا ہے’’تبدیلی کے زیر اثر‘‘ اداروں کی وردی بدل دی گئی ہے۔پیرہن بدلنے سے کردار نہیں بدلے جاتے۔وردی کی تبدیلی کو ادارے کے سدھار کے لئے کافی نہیںسمجھنا چاہئے ۔ان کی اخلاقی تربیت کو یقینی بنانابھی ضروری ہے ۔
جاننا چاہئے کہ انسانی زندگی خاکی پیرہن میں روح کی بدولت ہے اور روحانی ترقی مادی ترقی سے ممکن نہیں۔
 

شیئر: