Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اذان پر دکان بند کرنا ، صریح شرعی نص کی خلاف ورزی

 کتنے تجارتی مراکزہیں جن کوبندکردینے کے بعداذان ونمازکے درمیانی وقفہ میں روزبروز جابجاچوری چکاری کی وارداتیں ہوتی ہیں
        نماز کے وقت دکانیں بند کروانے کی مخالفت کرنے والے شیخ علویط کی پا نچویں دلیل ہے:
     نمازکی خاطر جبرا ًدکانیں اورتجارتی سینٹرز بندکروانے میں بعض ثابت شدہ صریح ترین نصوصِ شرعیہ کی مخالفت ہے چنانچہ اذان کے ہوتے ہی ہوٹلزیا ریسٹورنٹس بندکرنے میں یہ مخالفت شرعیہ لازم آتی ہے کہ اس موقع سے جولوگ ریسٹوران میں کھاناکھانے میں مشغول ہیں ان کو کھانے سے نکالا دینے میں نص شرعی کی صریح مخالفت ہے جس میں واردہواہے کہ:
    ’’ اگراقامت ہوجائے اور کھاناحاضر ہو توپہلے کھاناکھالو پھرنمازاداکرو ۔‘‘
    یہ حکم تو ازروئے نصِ اقامت کے ساتھ جڑاہواہے تو اذان کے ساتھ تواس کاحکم بدرجہ اولیٰ لاگوہوگا ۔ اس کے علاوہ اوربھی نصوص شرعیہ اس بارے میں وارد ہوئے ہیں، مثال کے طورپر حدیث میں واردہوا ہے :
    ’’جب نمازکی اقامت ہوجائے اور رات کاکھانا حاضر ہو توپہلے کھاناکھاؤ۔‘‘( بخاری) ۔
    نمازکے وقت دکانوں ودفتروں کو بند کرنے یا کرانے کے بارے میں چھٹی توجیہ بیان کرتے ہوئے شیخ علویط کہتے ہیں کہ نماز کے وقت تجارتی محلات بندکرنا چوری چکاری کیلئے موقع فراہم کرتا ہے۔ کتنے تجارتی مراکزہیں جن کوبندکردینے کے بعداذان ونمازکے درمیانی وقفہ میں روزبروز جابجاچوری چکاری کی وارداتیں پیش آتی رہتی ہیں، اس خوف کے پیش نظر امن وسلامتی یانظم ونسق سے متعلق شعبہ کو دکانوں اورتجارتی مراکزکوبندکرتے وقت شٹرگرانے کا حکم جاری کرناپڑتاہے کیونکہ شیشہ کادروازہ بندکردینے سے دکانوں یا دفاتر کی سیفٹی نہیں ہوپاتی ۔ یہ اس مسئلہ کے بارے میں امن وسلامتی سے متعلق محکمہ کی بات ہوئی جہاں تک انفارمیشن یا ٹریفک نظام کے بارے میں شکایات کی بات ہے تو اس کے بارے میں جتنا کہو کم ہے چنانچہ نمازکے وقت دکانیں بندرہنے کے وقفہ کے دوران ٹریفک پولیس کی نقل وحرکت حدسے زیادہ تیزکرنی پڑتی ہے اورانہیں اس وقفہ کے دوران پورے طورپر چوکنا رہنے کی ہدایات جاری کرناپڑتی ہے خصوصاً نماز کے وقفے میں ان کی ذمہ داری حدسے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اگر اس وقفہ میںدکانیں کھلی رہیں توپھر پولیس کویہ زحمت اٹھانانہ پڑے اس بنیادپرہم کہہ سکتے ہیں کہ چوری چکاری کادروازہ بندکرنے کیلئے نمازکے وقت دکانیں اور تجارتی مراکزکھلے رہنا چاہئے اسی کو شریعت میں’’ سد ذریعہ‘‘ کہتے ہیں لہذادکانوں اور تجارتی مراکز کا نماز کے وقت کھولنا چوری و ڈکیتی کے امکانات کوختم کرنے کاذریعہ ہے۔
    شیخ علویط نے بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ بند کرنے یا کرانے کے بارے میں آخری وجہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی بات ختم یوں ختم کی کہ:
    ’’ بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ کو نمازکے وقت بندکرناسبب بنتاہے بے تحاشا رفتارکے ساتھ ڈرائیونگ کا،اس سلسلہ میں یہ وہ نقطہ ہے جس سے ہمیں کسی صورت میں غفلت برتنانہیں چاہئے کیونکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اذان سے قبل گھروں سے شاپنگ کیلئے نکلتے ہیں اور دکان یاشاپنگ سینٹرزبندہونے سے قبل  اُس میں داخل ہوجانا چاہتے ہیں جس کی بنیادپر انہیں گاڑی کی رفتارتیزکرناپڑتی ہے۔ تیز رفتارڈرائیونگ کی وجہ سے شہروں کے اندر حادثات کے جابجاواقعات مشاہدہ میں آتے ہیں اور شریعت میں اس بارے میں کسی قسم کی ممانعت نہیں کہ حادثات سے ایک آدمی کی جان بچانے کی غرض سے ہزاروں دکانیں، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ کھلے رہیں کیونکہ انسانی جان بچانادینی امور میں بہتری اور سدھارپیداکرنے پرمقدم ہے، تو معلوم یہ ہوا کہ بازار، شاپنگ سینٹرز و دفاتر وغیرہ کانمازکے وقت بند کرنا ڈرائیونگ میں اسپیڈنمائی کامظنہ ہے اور ڈرا ئیو نگ میں حدسے زیادہ تیزی حوادثِ مروریہ کاشاخسانہ ہے۔
    ہم نے یہ بات اسلئے کہی کہ ہم لوگوں کے حالات کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے اور ڈرائیونگ کے بارے میں ٹریفک نظام کی طرف سے صادرتعلیمات ڈرائیونگ کی اسپیڈاور عدم اسپیڈ کے بارے میں کافی وشافی ہیں مگراس مسئلہ میں اس بات کا  امکان ضرور ہے  جس کواستثنائی صورت سے تعبیر کیا جاسکتاہے کہ کسی شخص کو کوئی ایسی صورتحال پیش آجائے جس کوایمرجنسی حالت سے تعبیر کیا  جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اسے تیزرفتاری سے ڈرائیونگ کرناپڑے جس کے بغیرکوئی چارہ نہ ہو تو اور بات ہے جیساکہ طویل فاصلے کاسفرہو یاعلاج ومعالجہ کی ضرورت درپیش ہو تواور بات ہے اگر دیکھاجائے تو ایسے مجبور اور ضرورتمند لوگوں کیلئے بھی نمازکے وقت دکانیں بندکرنے کرانے میں زحمت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بھیڑبھاڑمیںکنٹرول نہیں ہوسکتا ،اس سے صرفِ نظر جوکہ نمازکے وقت دوکانیں بندہونے کی وجہ سے ٹریفک پولیس کی حدسے زیادہ نقل وحرکت کی وجہ سے بھیڑبھاڑ ہوجایا کرتی ہے، مثال کے طورپرجولوگ مغرب کے وقت شاپنگ کیلئے نکلتے ہیں ان کونمازکے ختم ہونے کاانتظارکرناپڑتاہے پھرنمازختم ہوجانے کے بعد وہ اور نمازسے فارغ ہونے والے نمازی دونوں بیک وقت شاپنگ کیلئے ایک دم نکل پڑتے ہیں اور یہی صورتحال عشاء کی نماز میں درپیش ہوتی ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کارش حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے اورمارکٹوں میں بھیڑ بھاڑ بڑھتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے دھکم پیل مچ جاتی ہے۔ اگرنمازکے وقت دوکانیں بند نہ ہوں تو مغرب وعشاء کے درمیان دکانوں اور شاپنگ سینٹروں یاتجارتی مراکز میں بھیڑ بھاڑ نہ ہو مگردکانیں بندہونے کی وجہ سے مغرب وعشاء کے درمیان شاپنگ کا وقت تنگ دامانی کاشکارہوجاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ جلدبازی کاشکارہوتے ہیں۔ جولوگ مغرب کے وقت شاپنگ کرنا چاہتا ہے ا نہیں نمازکے ختم ہونے کاانتظارکرناپڑتاہے اور ان کے ساتھ وہ لوگ بھی جمع ہوجاتے ہیں جنہیں نمازعشاء سے قبل ضروریاتِ زندگی خریدنے کی جلدی ہوتی ہے خواہ وہ کسی سبب سے ہو ہمیں اس سے سروکارنہیں مگر اتنا ضرورہے کہ یہ(تکلیف مالایطاق ) ہے اور لوگوں کے اوپر مشقت وحرج تھوپنا ہے ۔

 

شیئر: