Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرشتوں سے بہتر ہے انسا ن بننا

نبی کریم جو بلا شبہ ایک بشرکی حیثیت سے اس مقام تک پہنچے تھے جہاں تک کسی نورانی مخلوق کی رسائی ممکن نہیں
  محمد کبیر بٹ ۔ریاض
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تحقیق ہم نے انسا ن کو بہتر ین صورت میں پیدا کیا ہے۔‘‘(التین4)۔
اللہ تعا لیٰ احسن الخا لقین (بہترین تخلیق کر نے وا لا )ہے ۔ اس رب کر یم نے بے شما ر مخلو ق تخلیق کی ہے۔ جن و انس ، ملا ئکہ مقر بین ،حیوا نا ت ،حشرا ت الارض ،خوبصورت پر ندے اور حسین تتلیا ں ،درندے اور مو ذی جا نور ،سا نپ اور بچھو اسکے علاوہ انوا ع واقسا م کی خوبصو رت اور عظیم آبی مخلوق:فتبا رک اللہ احسن الخا لقین’’پس بڑی ہی با بر کت اللہ کی ذا ت ہے جو بہترین پیدا کرتا ہے‘‘ (سبحا ن اللہ و بحمدہٖ سبحان اللہ العظیم)۔
درختوں کے پتوں اور سا ری کا ئنا ت کی تعدا د سے بھی بڑھ کر حمد و ثنا ء اس رب کریم کے لئے جس نے ہر مخلوق میں درجا ت بھی رکھے اور انسان کو سا ری مخلو ق میں اعلیٰ درجہ عطا فرما یا:ولقد کرمنا بنی آدم’’اور ہم نے اولا د آدم کو سا ری مخلو ق پر بزرگی عطا کی ہے‘‘۔ گویا انسا ن اشر ف المخلو قا ت ہے۔
اس انسا ن کو اللہ نے کیا کیا اعزا زا ت بخشے ہیں ۔قرا ٓن و حدیث کی رو شنی میں ان کا کچھ تذکرہ اس لئے کیا جا رہا ہے تا کہ ہم اپنے مر تبے اور مقا م کو پہچا ن کر اپنے مقصد ِحیا ت کی احسن طریقے سے تکمیل کر سکیں ،اس لئے کہ جو انسا ن اپنے مرتبے اور مقا م کا شعور نہیں رکھتے اور اپنے مقصد تخلیق سے غا فل ہیں وہ انسان ہو تے ہوئے ایسی بد ترین حرکتیں کرتے ہیں کہ کو ئی درندہ اور جا نور بھی ویسے کا م نہیں کرتا۔ مثلاًانسانوں کو عقو بت خا نوں میں ننگا کر کے ان کی شر مگا ہوں اور نا زک اعضا ء کو سگریٹوں اوراستریوں سے جلا نا اور اسی طرح مر د کا مرد سے اور عو رت کا عورت سے جنسی خوا ہش پو ری کرنا وغیرہ  بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مر دوںکے کفن اتا رنا اور ان کی لا شوں کی بے حر متی کرنا اور 4,3 سا ل کی بچیوں کے ساتھ منہ کا لا کر کے ان کو موت کے گھا ٹ اتا ردینا ۔ ان با تون کا تذکرہ کر تے ہو ئے بھی شرم آتی ہے  لیکن انسا ن جب اپنے مر تبے اور مقا م سے غا فل ہو تا ہے تو اس کے بعض اعما ل شیطا ن کو بھی شرما دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جہا ں رب کریم نے انسا ن کی بہتر ین تخلیق کا تذکرہ فرما یا اس کے سا تھ ہی یہ بھی فرما یا کہ:  ثم رددنٰہ اسفل سا فلین’’پھر( اس کی بد اعما لیوں کی وجہ سے) اسے( پستی اور گراوٹ کے اس) نچلے درجے میں پھینک دیا جا تا ہے ‘‘۔جہا ں کوئی حیوان اور درندہ بھی نہیں گرتا ۔ ایسے انسا نوں کے متعلق وہ علیم ہمیں خبردا ر کر تے ہو ئے فرما تاہے :اولئک کا الانعا م بل ھم اضل ’’ایسے لوگ جا نور وں کی ما نند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ۔ایسے ہی بعض لو گو ں پر جب اللہ کا قہر و غضب ٹوٹتا ہے تو پھر اسکے حکم سے وہ ’’کونواْقردۃً خا سئین‘‘"ذلیل وخوار بندے بنا دیے جا تے ہیں" جس کی شہا دت قرآن کریم میں مو جو د ہے ۔   
قا رئینِ محترم !یا د رکھیے :جتنا کسی کا مرتبہ اور مقا م عظیم ہو تا ہے اتنی ہی اس کی مسئولیت بھی بڑی ہو تی ہے ۔ حضرت انسا ن کو اللہ تعالیٰ نے جب تخلیق کیا اور اس کی صو رت گری کی تو فر ما یا :لما خلقت بیدی’’جسے میں نے اپنے ہا تھ سے بنا یا‘‘ ۔ سا ری مخلوق اللہ ہی نے بنا ئی یا پیدا کی ہے مگر انسا ن کو اتنا بڑا اعزاز بخشا کہ میںنے اسے اپنے ہا تھ سے بنا یا ہے ۔ سبحا ن اللہ۔پھر اس جسد خا کی میں روح پھو نکی تو ارشا د فرما یا :ونفختُ فیہ من رُّوحی’’اور میں نے اس کے اندر اپنی روح سے پھو نکا ہے‘‘ ۔ روح کی حقیقت کیا ہے اس کا ہمیں کو ئی علم نہیں لیکن کتنا بڑا عزازہے جو رب نے ہمیں بخشا ہے۔
نبی سے روح کے متعلق جب سوال کیا گیاتو رب علیم وخبیر نے اس کے جواب میں فر ما یا :قل الرو ح من امر ربی وما او تیتم من العلم الا قلیلا’’کہو اے نبی!روح میرے رب کا امر ہے اور جو علم تمہیں عطا کیا گیا (وہ روح کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے)نا کا فی ہے‘‘ ۔ 
روح پھو نکنے کے بعد جب ہما رے جد امجد سیدنا آدم  ؑجیتے جا گتے انسا ن بن گئے تو اللہ تعا لیٰ نے پھر ایک بڑا اعزاز یہ بخشا کہ فر شتو ں جیسی مخلو ق کو آد م ؑکے سا منے سجدۂ تعظیمی ادا کرنیکا حکم دیا :فسجد الملٰئکۃ کلھم اجمعون الاابلیس ’’ پس تما م فرشتے( بشمول جبر یل امین) سجدہ ریز ہو گئے سوا ئے ابلیس کے‘‘ ۔ اس طرح انسا ن مسجود ملا ئکہ ہو کر سا ری کا ئنا ت کا سر دا ر قرار پا یا ۔
علم کا سرچشمہ اور منبع اللہ کی ذات ہے :واللہ بکل شیء علیم’’اور وہ اللہ ہر شے کا علم رکھتا ہے‘‘ ۔اس نے اپنی ہر مخلوق کو اسکی ضرورت کے مطابق علم سے نوازا ہے لیکن اس لحاظ سے بھی حضرت انسا ن کا درجہ ساری مخلوق سے بلند ہے ۔ اللہ تعا لیٰ نے آدم ؑ کو اشیاء کے ناموں اوران کے خواص کا علم عطا فر ما یا ،پھر فرشتوں سے فر ما یا تم ان اشیاء کے نا م بتاؤ ۔انھو ں نے لا علمی کا اظہار کر دیا اور پھر آدم ؑ کو حکم دیا تو انھوں نے تمام اشیاء کے نا م بتا دیے۔ اسطرح اللہ تعا لیٰ نے ایک مرتبہ پھر فرشتوں پر آدم  ؑکی بر تری کو ثابت کردیااور علمی لحاظ سے بھی  حضرتِ آدم ؑاور اولاد آدم کو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہو گئی۔
جب نبی  پر پہلی وحی نا زل ہو ئی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو علم کا منبع اور سرچشمہ قرار دیا اور قلم کی حرمت اور تقدس کو بھی بیان کر دیا جو علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیے جا نے والے علم کا ذکر یوں فرمایا :علم الانسان مالم یعلم’’انسان کو اللہ نے وہ علم عطا فرمایا جو اسے از خود حاصل نہ تھا ‘‘۔انسان کو اللہ نے جو علم عطا فرمایا ہے آج ہم پوری دنیا میںاس علم وآگہی کی چکا چوند کو آنکھوں سے بھی دیکھ سکتے ہیں اور کا نوں سے بھی اس کا تذکرہ سنتے ہیں ۔ 
نبی کریم اولاد آدم کے سر دار اور امام الانبیاء کے منصب جلیل پرفا ئز ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ  کوسب انسانوں سے بڑھ کر علم بھی عطا فرمایا اور دنیا اور آخرت میںبھی آپ  کا مقام اور مرتبہ تما م انسا نوں بلکہ ملا ئکہ مقربین اور تمام انبیاء ؑ سے بڑھ کر ہے ۔ جب آپ   معراج پر تشریف لے گئے تو فر شتوں کے سردارجبرا ئیل امین نے سا تویں آسما ن سے آگے جا نے سے معذوری ظاہر کی اور عرض کیاکہ ہم یہاں تک ہی آسکتے ہیںاور یہیں سے ہمیں اللہ کی بار گاہ سے احکا مات ملتے ہیں ۔اگرمیں اس سے آگے جاؤںتو میرے پر جل جا ئیں گے ۔ سبحان اللہ یہ نورانی مخلوق کے سردار کی آخری منزل ہے جبکہ اولاد آدم کے سردار امام الانبیاء اور سید البشرحضور نبی کریم  آگے بڑھتے ہیں اور اکیلے عرش الٰہی میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں جو انسانیت کی معراج ہے۔ ایک کلمہ معترضہ پیش خدمت ہے ۔ 
نبی کریم جو بلا شبہ ایک بشرکی حیثیت سے اس مقام تک پہنچے تھے جہاں تک کسی نورانی مخلوق کی رسائی ممکن نہیں لہٰذا جو لوگ سید البشر  کو نورانی مخلوق ثابت کرنے کے لئے من گھڑت جھوٹے دلائل پیش کرتے ہوئے قرآن کریم کا انکار تک کر بیٹھتے ہیں وہ حضور  کو نور کہہ کر آپ  کا مرتبہ بڑھا نے کے بجائے دانستہ یا نا دانستہ آپ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ۔ اس لئے کہ نبی  معراج کے موقع پر ساتویں آسمان پر نورکی حیثیت سے نہیں بشر کی حیثیت سے تشریف لے گئے تھے ()۔ آپ کی شناخت یہ ہے کہ آپ قریش کی بہترین شاخ بنی ھاشم سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے دادا عبدالمطلب اور والد عبداللہ تھے۔ آپ کی والدہ حضر ت آمنہ بہترین شرف والی خاتون تھیں۔ آ پنے حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ  کا دودھ پیا ۔ مکے کے اندر پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ ایک قریشی خاتون سے آپ کی شادی ہوئی اور انہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ  کو اولاد کی نعمت عطا فرمائی ۔ قرآن کریم نے آپ کی بشریت کا اعلان جا بجا کیا ہے۔ سورۃ کہف میں ارشاد ہوتا ہے ـ:قل ا نما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی’’ اے نبی ! ان لوگوں سے کہو میں بھی تمہاری طرح ایک بشرہوں( تمہار ے ا ور میرے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ نے مجھے نبی بنایاہے،میری طرف اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے جس طرح اللہ تعا لیٰ نے سابقہ انبیاء ؑ سب کے سب انسانوں میںسے ہی مبعوث فرمائے تھے) اسی طرح آپ  کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا‘‘۔
اگرقرآن کریم کی ا س وضاحت کے بعد بھی کسی کی تسلی نہیں ہوتی تو اس کے حق میں ہدایت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ 
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جہاںاتنے اعزازات عطا فرمائے ہیں وہاں اسے عقل و تمیز اور شعور و فہم کی صلاحیتیں بھی دی ہیں اور اسے زمین میں اپنی خلافت و نیابت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ دنیا انسان کے لئے امتحان گاہ بنائی گئی ہے اور خالق کائنات نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی عطا فرما کر خلاقت اور نیابت کی خِلعت سے نوازا ہے ۔ اس کی ہدایت و رہنمائی کیلئے آسمانوں سے وحی اور انبیاء ؑ بھیجے ہیں ۔  
        اس فر ض منصبی کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لئے انسان کو اس زمین میں جن وسائل کی ضرورت تھی وہ سب یہاں وافر مقدار میں مہیا کر دیے۔ ہوا پانی، چاند سورج ،ستارے سیارے۔ دن اور رات، خشکی اور سمندر ۔ حیوانات اور جمادات ،نباتات ۔سمندری مخلوق چرند پرند ۔ بارش اور موسم کی تبدیلی اور دیگر بے حد و بے حساب نعمتیں اس انسان کی خدمت میں لگا دی ہیں اور اس کی ضرورت پوری کر رہی ہیں ۔ہمارا خالق و مالک یہ چاہتا ہے کہ ہم اس زمین میں اس کی مرضی کے مطابق عمل کریں ۔ اسکے رسولوں اور کتابوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان کو زندگی کا لائحہ عمل بنائیں تاکہ رب کی رضا حاصل کر کے آخرت کی زندگی میں جنت کی سدا بہار نعمتوں کے مستحق بن سکیں 
        جو لوگ اپنے شرف انسانیت کا شعور نہیں رکھتے اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں وہ اس دنیا میںخواہشات کے غلام ،نفس کے بندے اور شیطان کے چیلے بن کر دنیا میں بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں اور آ خرت میں بھی اس رب کے غیظ و غضب کا شکار ہو کر جہنم کاایندھن بنیں گے ۔ آج انسان اخلاقی زوال کا شکار ہو کر پستی اور گراوٹ کی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت انسان اپنی حیثیت کو پہچانیں، اپنے انسان ہونے کے شرف کی پاسداری کریں ،اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ونائب ہونے کی حیثیت سے اس کے وفادار اور فرمانبردار بندے بن کر زندگی بسر کریں۔
اللہ ہمارا حامی وناصرہو۔ آمین۔   
 

شیئر: