Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی سرگرمیاں عروج پر، آئندہ الیکشن کیلئے صف بندیاں

انتخابات کی تیاری اور عوام رابطہ مہم کا آغاز مسلم لیگ کی اولیں ضرورت ہے، اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے سے سسٹم کو نقصان پہنچ سکتا ہے
حمید گورایہ۔ لاہور
پنجاب کے صوبائی دار الحکومت میں رواں ہفتے سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔اس ہفتے کم و بیش ملک کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت لاہور میں موجود رہی اور موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر مشاورت کا عمل جاری رہا ۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم   نواز شریف نے جاتی عمرہ رائیونڈ میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور شریف فیملی پر کیسوں کے حوالے سے تبادلہ خیال اور ملک میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے لائحہ عمل پر غور کیا گیا ۔اسی طرح تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان بھی ایک روزہ دورے پر لاہور آئے انہوں نے نمل یونیورسٹی کے گریجوایٹس میں ڈگریاں تقسیم کیں اور اس کے علاوہ سیاسی ملاقاتیں بھی کی گئیں ۔ پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو بھی لاہور پہنچے ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتے تک لاہور میں قیام کریں گے اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر غور کیا جائے گا ۔اسی طرح دینی جماعتوں کی قیادت کا ایک اہم اجلاس جماعت اسلامی پاکستان کے مرکز منصورہ میں منعقد کیا گیا جس میں دینی جماعتوں کے اتحادمتحدہ مجلس عمل کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جے یو آئی ف کے سربراہ فضل الرحمٰن نے لاہور میں آنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ ان سیاسی ملاقاتوں کا مقصد آئندہ قومی انتخابات کے حوالے سے صف بندی کرنا ہے ۔ اس حوالے سے آئندہ دنوں میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی ۔اور ان ملاقاتوں کے حوالے سے انتخابی اتحاد بھی سامنے آنے کا امکان ہے ۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی قیادت نیب کیسوں کی وجہ سے مشکلات سے دو چار ہے ہر دن گزرنے کے ساتھ اس کی پریشانی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔اس حوالے سے آئندہ ہفتے کو اہم قرار دیا جارہا ہے جس میں شریف فیملی کے خلاف حدیبیہ پیپر کیس سمیت اہم کیسوں کی سماعت ہونے جا رہی ہے ۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ہفتے کے روز جاتی عمرہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ،خواجہ سعد رفیق ،پرویز رشید ، مریم صفدر اور دیگر اہم رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ، وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف سے دو طویل ملاقاتیں کیں اور اپنی فیملی کو درپیش مسائل پر مشاورت کی ۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت کی قیادت کے ان اجلاسوں میں ملک میں عوام رابطہ مہم تیز کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس کا پہلا جلسہ 20نومبر کو ایبٹ آباد ، دوسرا جلسہ شیخوپورہ اور اس کے بعد مزید جلسوں کا انعقاد بھی کیا جائے گا ۔ حکمران مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے پبلک جلسوں کے ذریعے کافی عرصہ سے عوام رابطہ مہم کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے ۔ ان جماعتوں کے رہنما عمران خان ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نیب ریفرنسوں کے حوالے سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور شریف خاندان اور حکومت پر آئین قانون اور انصاف کی عملداری کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ۔ اس کے علاوہ عوام کو مہنگائی کی بد ترین صورتحال کا بھی سامنا ہے ۔جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حکومت عوامی حلقوں میں بھی سخت تنقید کی زد میں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپوزیشن کی مخالفانہ سیاست کے توڑ کے لئے ملک بھر میں پبلک جلسوں کا انعقاد کر کے اپنی حکومت کے کارناموں اور آئندہ کے پارٹی منشور سے عوام کو آگاہ کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح کے منصوبوں میں تیزی لائی جائے گی ۔اس کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ،مریم نواز اور لیگی وزراء کی جانب سے نیب مقدمات کو فوکس کر کے اداروں کے خلاف جارحانہ مہم شروع کر دی گئی ہے ۔ لیگی رہنماؤں کی جاتی عمرہ میں ملاقاتوں میں بھی اداروں کے خلاف وہی الفاظ استعمال کئے گئے جو میاں نواز شریف نے احتساب عدالت کے باہر استعمال کئے تھے ۔میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ہفتے کے روز اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ،، ہر کوئی نواز شریف نہیں کہ بار بار زخم کھا کر اداروں کا پردہ رکھے۔ نواز شریف کی خاموشی پاکستان کے مفاد پر ضرب کے لئے استعمال کی تو چپ نہیں رہیں گے ،،واقفان حال کا کہنا ہے کہ عوام کی عدالت میں جانے کے لئے انتخابات کی تیاری اور عوام رابطہ مہم کا آغاز مسلم لیگ ن کی اولین ضرورت ہے مگر اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر کے سسٹم کو نقصان پہنچنے کا باعث بن سکتا ہے ۔ایسی صورتحال نہ صرف حکمران جماعت مسلم لیگ ن بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے لئے بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے ۔ دانشمندی اس میں ہے کہ کسی افسوسناک صورتحال کے آنے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو پوائنٹ سکور کرنے کی بجائے سسٹم کو محفوظ رکھنے کی کوئی مشترکہ حکمت عملی طے کرنی چاہئے تاکہ 2018ء کے قومی انتخابات وقت پر ہو سکیں ، جس سے جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا اور آئین و قانون کے مطابق اقتدار بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس چلا جائے گا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں