Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صفر کی میں نحوست ، حقیقت کیا ہے؟

جب صفر کا مہینہ آتا تو عرب جنگ کیلئے چلے جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ دیتے تھے، اس لئے اس کو صفر کہا جانے لگا
حافظ محمد ہاشم صدیقی۔جمشید پور،ہند
اللہ رب العزت نے ہر چیز پیدا فرمائی ہے۔ اس میں دن، ہفتہ، مہینہ، سال سب شامل ہیں اور سب کا ذکر اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا۔سال کا ذکر اور مہینوں کی تعداد کا ذکر بھی فرمایا:
’’بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں12ہے،اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔‘‘(التوبہ36) ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے قمری سال کے مہینوں کا ذکر فرمایا ہے اوراسی آیت میں آگے یہ بھی فرمایا:
’’یہ سیدھا دین ہے ،تم ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔‘‘
یعنی پورے سال اللہ رب العزت کے بتائے راستوں پر چلو۔ طرح طرح کے رسم و خرافات میں پڑ کر اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ آج مسلم معاشرے میں ان گنت خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ایک،2ہوں تو گنوایا جائے،4,2 ہوں تو رونا رویاجائے۔ مذہب اسلام رسم ورواج کو مٹانے آیاہے۔ افسوس آج اسی مذہب کے ماننے والے بعض لوگ رسم ورواج کو پکڑے ہیں۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاؤں کے ساتھ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ نشاندہی فرماتے رہیں۔
صفرالمظفراسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اور ان کا گمان ہے کہ اس ماہ میں بکثرت مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت مصطفویہ نے نزولِ آفات سے انکار کیاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا:
’’ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت کا نزول نہیں ہوتا۔‘‘(مسلم)۔
دوسری حدیث پاک یوں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
’’چھوت لگنا، بد شگونی لینا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیںالبتہ جذامی(کوڑھی)شخص سے ایسا بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتاہے۔ ‘‘(بخاری )۔
بخاری شریف میں یہ حدیث بھی مذکور ہے، نبی نے فرمایا:
’’چھوت(بیماری) لگ جانا، بدشگونی، شیطانی گرفت(بھوت چڑھنا) یا صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں۔‘‘
ماہِ صفر منحوس نہیں:
اسلامی سال کے دوسرے مہینے کا نام صفر ہے۔ محبوبِ خدا کی بعثت سے پہلے ماہِ محرم میں جنگ حرام تھی۔ جب صفر کا مہینہ آتا تو عرب جنگ کیلئے چلے جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ دیتے تھے اس لئے اس کو صفر کہا جانے لگا۔ ماہ صفر کو لوگ منحوس مانتے ہیں۔ اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے اور لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی بہت سے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور صفر کو منحوس سمجھ کر سفر نہیں کرتے، خصوصاً صفر کی شروع کی13تاریخیں بہت منحوس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ آخری چہار شنبہ (بد ھ) کیاہے؟صفرکے آخری بدھ کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ اس روز حضور نے مرض سے صحت پائی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا اور مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ مرض جس میں آپ نے وفات پائی اس کی شروعات اس دن سے ہی بتائی جاتی ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے ماہ صفر کے آخری بدھ سے آپ  کا مرض شروع ہوا اور 12ربیع الاول کو وصال ہوا۔ مسلمانوں کے لئے عبرت کا مقام ہے کہ پیغمبر() کی بیماری پر جشن منائیں۔
یہ غلط بات مشہور ہے کہ آپنے اس دن غسلِ صحت فرمایا۔ کتابوں میں اس کا تذکرہ نہیں ۔ حضور کی صحت یابی کی خوشی میں کچھ لوگ اپنے اہل وعیال کے ساتھ نہاتے دھوتے ہیں اور خوب اچھے اچھے کھانے بناتے کھاتے ہیں،اہل وعیال کے ساتھ تفریح کیلئے نکل جاتے ہیں اور طرح طرح کی خرافات کرتے ہیںجو شرعاً ممنوع ہیں۔کچھ لوگ اس کو نحس مان کر گھر کے مٹی کے پرانے برتن گھڑا وغیرہ توڑ دیتے ہیں۔یہ بھی غلط ہے۔ اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ خوشی منانا اور منحوس سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں جس کا ذکر اوپر احادیث طیبہ میں آچکا ہے۔ چند احادیث اور ملاحظہ فرمائیں،ایمان میں جلا پیدا فرمائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرواورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی نے صفر سے رنگے ہوئے2 کپڑوں کو پہنے دیکھا تو فرمایا: تجھے تیری ماں نے یہ کپڑے پہننے کا حکم دیا ہے۔ میں نے عرض کیا: میں اس رنگ کو دھو ڈالوں گا۔ آپنے فرمایا(نہیں) بلکہ اسے جلا ڈالو(مسلم، جلد 3)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مرض کے متعدی ہونے اور صفر کی نحوست اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں تو ایک دیہاتی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !کیاوجہ ہے کہ اونٹ ریت میں ہرنوں کی طرح صاف ہوتے ہیں پھر ان میں کوئی خارش (کھجلی)زدہ اونٹ آتا ہے جو ان اونٹوں کوبھی خارش زدہ کر دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا:پہلے ا ونٹ کو بیماری لگانے والا کون ہے؟ (مسلم) ۔
ماہ صفر کے دوران کے واقعات:
«   اس ماہ میںہجرت کے پہلے سال مقام ِ ابواء پر غزوہ ہوا جس میں آپ بنفس نفیس شریک ہوئے تھے۔ 
«  تیسری ہجری ماہ صفر میں قبیلہ عضل اور وقارہ کے لوگ نبی کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔
«   9ہجری ماہ صفرمیں بنی عذرہ کے 12لوگوں نے دربارِ رسالت میں حاضر ہوکر بسروچشم اسلام قبول کیا۔
 اللہ پاک ہم تمام مسلمانوں کو دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 
 
 

شیئر: