Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کو صحراء سے ترقی یافتہ ملک بنتے دیکھا

شجاعت حمیدی سعودی عرب میں 38سال ملازمت کرنے کے بعد کراچی واپس گئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے مملکت سعودی عرب کو صحرا سے ترقی یافتہ ملک بنتے دیکھا۔ وہ کافی عرصے تک تبوک میں اردونیوز کے نمائندے کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ ان سے کراچی میں انٹرویو کیا گیا جو قارئین کی نذر ہے۔
راؤ محمد افنان۔ کراچی
 
کبھی سوچا نہ تھا کہ سعودی عرب میں 38سال عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے بعد پاکستان واپس جانا ہوگا۔ سعودی عرب کو صحراسے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے دیکھا۔پاکستان کو جیسا چھوڑ کر گیا تھا اس سے بدتر حالات میں پایا۔سعودی عرب روزگار کی غرض سے نہ گیا ہوتا تو کبھی گھر والوں کی مالی مدد یا اپنا گھر نہ بنا پاتا۔پاکستان واپس آکر 2 سال گھر میں قید رہا۔گھر والوں اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ جاننے والے تتر بتر ہوگئے تھے کوئی انتقال کرگیا تو کوئی دوسرے ممالک میں زندگی گزار رہا تھا۔بیوی،بچوں کا ساتھ اور ماں باپ کا سایہ ہونے کے باوجود ہر وقت بے چین رہتا اور راتوں میں بیدار رہتا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے پہلے کی زندگی خواب تھی یا اب خواب دیکھ رہا ہوں۔ بڑی مشکل سے دوبارہ پاکستان کے ماحول میں خود کو ڈھال پایا ہوں۔ سعودی عرب میں 38 سال سعودی ایئرلائن میں ایگزیکٹو تنخواہ پر کام کرنے اور بطور جنرل منیجر سیلز ریٹائر ہونے والے شجاعت حسین حمیدی نے سعودی عرب میں گزرے وقت اور پاکستان واپس آنے کے بعد پیش آنیوالے مسائل کے حوالے سے بتایاکہ 1951 ء میں کراچی کے درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوا۔بچپن میں بہت شرارتی ہوا کرتا تھا۔والدین نے شروع سے دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں پر زور دیا۔ والدین کی محنت و مشقت سے علم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول ملیر کینٹ سے میٹرک1964 ء میں کیا۔ ایف ایس سی1966 ء میں اوربی اے 1968ء میںجامعہ ملیہ ڈگری کالج ملیر سے کیا۔1971-72ء میں جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کیا۔دوران تعلیم ہی گھر والوں کی مالی مدد کیلئے 1967 ء میں سول ایوی ایشن پاکستان میں بطور اسسٹنٹ ایئرڈروم افسر سیکیورٹی کراچی میں بھرتی ہوا جس کا کام پاسز وغیرہ جاری کرنا تھا۔1971 ء میں پی آئی اے کے ٹریفک ڈپارٹمنٹ میں بطور اسپیشل ہینڈلنگ ملازمت کرتا رہا۔اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن(پی آئی اے ) میں اقربا پروری چھائی ہوئی تھی۔ سب کے تبادلے ادھر سے ادھر کئے جارہے تھے۔من پسند لوگوں کو نوازا جا رہا تھا۔پورے ملک میں عجیب سی فضا قائم تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں خلیجی ممالک کا بڑا نام تھا۔خلیج میںملازمت کرنے کے سب خواب دیکھا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں سعودی ایئرلائن کی جانب سے ملازمت کی آفر ملنے پر بہت خوش ہوا کیونکہ سعودی عرب میں بہتر مستقبل نظر آرہاتھا۔ مڈل ایسٹ کے نام نے ہر طرف دھوم مچائی ہوئی تھی۔خلیجی ممالک ترقی کی طرف گامزن ہورہے تھے۔لوگوں نے خلیجی ممالک میں بہتر مستقبل کیلئے رخ کرنے کی کوششیں تیز کر رکھی تھیں۔پی آئی اے کے پائلٹ سمیت دیگر عملے نے سعودی ایئرلائن کا رخ کرنا شروع کردیا تھا۔1974 ء میں سعودی ایئرلائن سے ملازمت کی آفرآنے پر ٹریننگ ڈپارٹمنٹ میں بطور افسر بھرتی ہوا۔ اس وقت تنخواہ 1500 سے 2 ہزار ریال تھی۔سستائی کا زمانہ تھا کہ کوئی خرچہ نہیں گاڑی،رہائش اور 3 وقت کا کھانا بھی کمپنی کی طرف سے ملا کرتا تھا۔صرف اپنی جیب سے ٹوتھ برش خریدنا پڑتا تھا۔اس دور میں صحراء ہونے کی وجہ سے گرمی بہت ہوا کرتی تھی۔ اس دور میں ایئر کنڈیشن کا استعمال بہت ہی عالیشان جگہوں پر ہوا کرتا تھا لیکن کمپنی کی طرف سے جہاں رہائش ملی ہوئی تھی وہاں پر 2 کمروں کیلئے دیوار میں سوراخ کر کے ایک اے سی لگا ہوا تھا جس کا آدھا حصہ ایک کمرے میں اور دوسرا حصہ دوسرے کمرے میں ہوتا تھا۔ اس وقت درجہ حرارت 49 سینٹی گریڈ تک پہنچتا تھا اور گاڑیوں میں ایئرکنڈیشن کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ سعودی عرب گیا تو چند شہروں کے علاوہ پورا ملک بنجر ہوا کرتا تھا ہر طرف صحرا ہی صحرا تھا۔ان 38 سالوں میں سعودی عرب کو صحرا سے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے دیکھا۔اس وقت ایک سعودی ریال پاکستانی ڈھائی روپے کے برابر ہوا کرتا تھا۔اس وقت میں کنوارہ تھا تو کوئی فکر نہیں ہوتی تھی اور میرا کوئی خرچہ نہیں ہوتا تھا۔سعودی میں کیونکہ شاپنگ مال اور ایسی کوئی خاص تفریح گاہ بھی نہیں ہوتی تھی جہاں پیسے خرچ کئے جاسکیں۔ اس لئے پیسے گھر والوں کو بھیجنے کیلئے بچ جایا کرتے تھے۔ اس دور میں بینک بہت کم تھے جبکہ ایسی کوئی جدید سہولت نہیں تھی جس سے پیسے با آسانی اور جلد از جلد بھجوائے جاسکیں۔ اس لئے سعودی ایئرلائن کا ملازم ہونے کی حیثیت سے اپنے ہی کسی ساتھی جو ایئرلائن پر ڈیوٹی پر مامور ہوتا تھا اور کراچی جا رہا ہوتا تھا تو اسے پیسے والدین تک پہنچانے کی ذمہ داری سپرد کردیا کرتا تھا۔ انہوں نے اس دورکے حوالے سے بتایا کہ پہلی دفعہ تبوک ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا چارٹر طیارہ لیبر لے کر آیا تو سیڑھی نہیں ہوتی تھی۔ویلڈر سے لوہے کی سیڑھی لیکر اس پر روئی لگا کر طیارہ کے ساتھ لگائی گئی تاکہ طیارے کو نقصان نہ پہنچے۔میں نے سعودی عرب کو بنتے ہوئے دیکھا ہے۔وقت کے ساتھ سعودی عرب میں ترقیاتی کام میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔سڑکیں بننا شروع ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں پاکستانی کنسٹرکشن کمپنی جس کا نام غالباً گیمن پاکستان ہوا کرتا تھا اس نے سعودی عرب میں ترقیاتی کام کرنے کے بڑے پروجیکٹ لئے جس کے بعد امریکی اور یورپین کمپنیز بھی میدان میں اتریں اور سعودی عرب کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگا۔ انتہائی محنت مشقت کے بعد سعودی ایئرلائن انتظامیہ نے انہیں 1977 ء میں سعودی عرب کے نارتھ ریجن میں ترقی کیساتھ منیجر سیلز تبادلہ کیا۔پھر ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں جنرل منیجر سیل(جی ایس ایس) تعینات کیا گیا جس کا کام ایئرپورٹ پر ہینڈلنگ کرنا تھا۔سعودی عرب اب ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا تھا۔کمپنی نے لگژری رہائش اور گاڑی مہیا کر رکھی تھی۔1980 ء میںشادی کے بعد اپنی اہلیہ کو بھی سعودیہ لے گیا۔مختلف جگہ پر تبادلے ہوتے رہے۔بڑے بیٹے نے انٹر میڈیٹ اور چھوٹے بیٹے نے میٹرک جدہ سے کیا۔ سعودی ایئرلائن میں ہونے کی وجہ سے کبھی مہینے میں کبھی ہفتے میں پرواز کے ساتھ ہی اپنے گھر والوں سے ملنے کراچی چلا جایا کرتا تھا۔ گھر تعمیر کرنے کیلئے کراچی کے علاقے عزیز آباد میں پلاٹ لیا اور پھر اس کی تعمیر شروع کردی۔ والد نے گھر کی مکمل تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی۔چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم اور والدین کے روز مرہ کے اخراجات کیلئے باقاعدگی سے پیسے بھیجتا رہا۔پہلے مملکت سے فون کرنا بہت مہنگا ہوا کرتا تھا۔گھر والوں سے فون پر بات کرنے میں سب سے زیادہ پیسے خرچ ہوا کرتے تھے۔ اس لئے خط و کتابت کرلیا کرتا تھا۔ گھر جب بھی فون کرتا تو والدین سے کم بات ہو پاتی تھی کیونکہ رشتہ دار ہی فون پر سعودی عرب کی صورتحال جاننے کیلئے بے تاب رہتے تھے اور ادھر میرے فون کا بل بڑھ رہا ہوتا تھا جیسے تیسے کرکے کال کاٹنے کے بہانے تلاش کرتا تھا تاکہ پیسے بچا سکوں۔ آہستہ آہستہ سعودی ایئرلائن میں ترقی پاتا گیا اور 1974 ء میں جنرل منیجر سیلز نارتھ ریجن تعینات کردیا گیا۔ایگزیکٹو پوسٹ پر تعینات ہونے سے تنخواہ میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔تنخواہ میں اضافہ ہونے سے مستقبل کیلئے بچت کرنے لگا اور بیوی کا زیور بنایا اور سونے کی مد میں بچت کرنا شروع کردی کیونکہ سعودی عرب میں اعلیٰ تعلیم کیلئے معیاری یونیورسٹی نہیں تھی اس لئے اہلیہ اور بچوں کو کراچی واپس بھیجنے سے قبل ہی گلستان جوہر بلاک 15 میں ایک پلاٹ لیا اور اس کی تعمیر شروع کردی۔اس وقت گلستان جوہر بنجر ہوا کرتا تھا ہر طرف سناٹا ہوا کرتا تھا۔ایک منزل تعمیر مکمل ہونے پر انہیں وہاں بھیج دیا۔کراچی کے حالات چونکہ غیر معمولی ہی ہمیشہ سے رہے ہیں اسلئے گھر کی حفاظت کیلئے چوکیدار بھی رکھا۔ سعودی عرب میں چونکہ اہلیہ اور بچوں کے جانے کے بعد دفتری کام سے فارغ ہونے کیلئے کوئی وقت نہیں ہوتا تھا اس لئے زیادہ وقت سوشل لائف میں گزرا کرتا تھا۔ 1974ء میں سعودی عرب میں کرکٹ کو فروغ دینے کیلئے پہلی دفعہ انٹر سٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا،جس میں مختلف شہریوں کی ٹیموں نے حصہ لیا۔میں نے جب سعودی عرب میں کرکٹ ٹورنامنٹ کرایا تو شیخ اور مقامی عرب لوگ بہت پریشان ہوئے کہ یہ کونسا کھیل ہے کیونکہ وہ اس کھیل سے مکمل طور پر ناواقف نہیں تھے۔اسی کے ساتھ بیڈ منٹن اور دوسرے کھیلوں کے ٹورنامنٹ منعقد کرواتا رہا۔ مملکت میں اردو مشاعرے بھی منعقد کرواتا رہا۔2003 ء میں پاکستانی ویلفیئر سوسائٹی کا صدر منتخب ہوا اور پاکستانی کمیونٹی کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے لئے کوششیں کرتا رہا۔پاکستانی ویلفیئر سوسائٹی کا صدر ہونے کی وجہ سے سعودی عرب میں تعینات سفیروں سے اچھے تعلقات پر 200 سے زائد سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو رہا بھی کرایا۔شجاعت حمیدی نے بتایا کہ میرے ساتھ کبھی پیسے کے معاملے میں فراڈ نہیں ہوا ۔ میرے بہت سارے دوستوں کے ساتھ ایسے حادثات پیش آئے جن میں سگے ماں باپ اور بہن بھائیوں نے فراڈ کیا۔ میرا دوست انجینیئر تھا۔اس نے سعودی عرب میں دوسری شادی کرلی تھی جس پر اس کی پہلی بیوی اور بچوں نے اس کی پاکستان میں جائیداد کے دستاویزات میں جعل سازی کرتے ہوئے اس کے انتہائی مہنگے پلاٹ فروخت کردیئے جس کا کیس آج تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔ 2010ء میں سعودی ایئرلائن سے بطور جنرل منیجر نارتھ ریجن ریٹائر ہوا۔ریٹائرمنٹ کے بعد مقامی شخصیات نے مجھے سعودی عرب سے نہ جانے کے مشورے دیئے کیونکہ میری جوانی اور عمر کا بہت بڑا حصہ مملکت میںگزرا۔ ایک عمر ایگزیکٹیو ملازمت کرتے گزر گئی اور مجھے ملٹی پل ویزا حاصل تھا۔ سعودی عرب میں رہتے ہوئے عربی زبان پر مکمل عبور تھا۔مقامی لوگوں،شیخوں اور گورنر کے ساتھ جب ملاقات ہوتی تو عربی میں بات چیت کیا کرتا تھا لیکن پاکستان میں میرے بچے، اہلیہ اور والدین میری راہ تک رہے تھے جب پاکستان واپس آیا تو میرے واپس آجانے سے گھر والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد میرے لئے انتہائی مشکل ہوگیا۔ سعودی عرب میں عیش و آرام اور ایگزیکٹو تنخواہ پر کام کرنے والا آج گھر میں دن گزرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ سعودی عرب میں میری سوشل لائف تھی،بہترین ماحول میں زندگی گزر بسر کررہا تھا۔پاکستان آیا تو کوئی سوشل لائف نہیں رہی تھی،کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ہاتھ تنگ ہوگیا تھا۔چوکیدار سے لیکر ماسی کو کتنے پیسے دینے ہیں پائی پائی کا حساب کرنا پڑتا تھا۔مالی بحران سے بچنے کیلئے اخراجات پر قابو پانے کیلئے ترکیبیں سوچتا تھا۔ پاکستان آکر ماں باپ کا سایہ ہونے،اہلیہ اور بیوی بچوں کا ساتھ ہونے کے باوجود سکون نہ تھا،بے چینی رہتی تھی۔راتوں میں نیند نہیں آتی تھی۔ ذہنی دبائو کا شکار ہوگیا تھا۔سماجی رابطے مکمل طور پر ختم ہوچکے تھے کوئی پرانا دوست انتقال کرگیا تھا تو کوئی کسی اور ملک کی شہریت حاصل کرکے وہیں زندگی گزار رہے تھے۔قریبی رشتہ داروں میں بھی انجان ہوگیا تھا جب کسی دعوت میں جانا ہوتا تو بتانا پڑتا تھا کہ میں رشتے میں ان کا تایا،ماما لگتا ہوں۔خاندان اور قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر سب کچھ انجان تھا۔ 2 سال تک گھر میں قید رہا،پاکستان میں پہلے سے زیادہ مسائل میں اضافہ ہوچکا تھا،بجلی کی لوڈشیڈنگ پورا پورا دن غائب رہتی تھی۔ سعودی عرب میں ہر وقت ایئر کنڈیشن میں رہنے کا عادی ہوچکا تھا۔چونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد عیش و آرام کی زندگی نہیں گزار سکتا تھا اور اے سی چلانے کی صورت میں بھاری بجلی کا بل ادا کرنے کا سوچ کر اے سی بھی نہیں چلایا کرتا تھا۔پاکستان کے اندر خود کو ایڈجسٹ کرنے میں بہت وقت لگا لیکن خدا نے بہت مدد کی اور لوگوں سے رابطہ بڑھتے گئے جان پہچان ہوتی گئی اور لائف ایک بار پھر نارمل ہوگئی۔ سعودی عرب میں عیش و آرام سے گزرے وقت اور سوشل لائف کو شدت سے یاد کرتا ہوں۔دوسری طرف یہ خیال دل کو سمجھاتا کہ ادھر میرا سب کچھ ہے۔میری اہلیہ،بچے،پوتا پوتی،والدین،بہن،بھائی اور کچھ بھی ہوجائے مجھے اس ملک سے کوئی نہیں نکال سکتاآج سعودیہ سے پاکستان آئے ہوئے مجھے ساڑھے7 سال ہوگئے ہیں۔ میں اس وقت اگر سعودی ایئرلائن سے آئی آفر کو مسترد کردیتا تو شاید آج نہ یہ گھر ہوتا اور نہ ہی والدین کیلئے گھر تعمیر کرپاتا۔بچوں کے تعلیم کے اخراجات اور خورو نوش اشیاء کی خرید میں ساری تنخواہ گنواتا رہتا۔ بچوں کو نہ معیاری زندگی دے پاتا اور نہ ہی میں عیش و آرام کی زندگی گزار پاتا،چونکہ مستقبل کا کچھ پتہ نہیں اس لئے سعودی عرب میں روزگار یا کاروبار کے غرض سے گئے ہوئے پاکستانی بھائیوں کو پیغام دوں گا کہ بہتر مستقبل کیلئے کوششیں کریں۔ اپنے اخراجات کو کم کرکے گھر والوں کی کفالت کے ساتھ برے وقت کیلئے کچھ بچت کریں تاکہ مستقبل میں آپ کو کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: