Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت ، قرآن مجید کی نظر میں

 عورت ملازمت کرسکتی ہے، جو کچھ وہ کماتی ہے اس پر تصرف کا حق بھی اسی کو ہے، کوئی اس کو اخراجات میں شریک ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا
ڈاکٹر حسن الدین احمد
جب سے انسان جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہے اس وقت سے مردوں نے عورتوں کو جسمانی ساخت میں اپنی ساخت سے مختلف اور قوت میں کمزور پاکر نہ صرف ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرنا چھوڑدیا بلکہ ان کو اپنے سے کم تر اور مختلف النسل بھی سمجھ لیا ۔ انہوں نے عورت کی زندگی کا مقصد صرف یہ سمجھا کہ اس سے مرد کیلئے تسکین اور گھر کیلئے خادمہ اور ملازمہ کا کام لیا جائے، اسی طرح فرعون بنی اسرائیل کی لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا اور لڑکوں کو قتل کرادیتا تھا۔ اس بات کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے:
یا دکرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی،انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کررکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘(البقرہ49)
آج21ویںصدی میں بھی عورت پر کچھ کم مظالم نہیں ہورہے البتہ انداز بدلے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے خود مسلمانوں کے معاشرے میں مردوں نے عورتوں کو جاہلی رسوم وقیود میں جکڑ رکھا ہے، جہاں ایک طرف ایک طبقے نے پردے میں ایسی شدت اختیارکی کہ عورتوں کی نقل حرکت کو گھروں کی چاردیواری میں اس طرح محدود کردیا کہ وہ قدرت کی تازہ ہوا سے مستفید ہونے سے بھی محروم ہوگئیں بلکہ اپنی جائز ضروریات کی خاطربھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتیں۔ دوسری طرف جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے عورتوں کو نہ صرف یہ کہ وراثت سے محروم کر رکھا ہے بلکہ زناکے شبہ پر عدالتی ثبوت کے بغیر کاروکاری جیسے ظالمانہ طریقے سے ان کے قتل وغارت گری کا نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ کسی نام نہاد’’روشن خیال‘‘ کی یہ ہمت نہیں کہ اس لوٹ کھسوٹ اورظلم وبہیمیت کو ختم کرنے کی جرأت کرسکے۔ مغرب زدہ طبقہ بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ان مظالم کو اسلامی تہذیب کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنے کا کام سرانجام دے رہا ہے۔
غیر مسلم دنیا کی صورتحال تو اس سے بھی بدتر ہے۔ ہندوؤں کے ہاں اگر حمل میں(الٹرا سائونڈ سے)لڑکی قرار پائے تو اسقاط حمل کرادیا جاتاہے جیسا کہ آج کل ہندوستان کے اسپتالوں کی خبروں سے پتہ چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یقینا اس قتل کا مواخذہ کرے گا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے:
’’جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘(التکویر8،9)
اگر ان کے گھروں میں لڑکیاں پیداہوئیں تو ان کا چہرہ مرجھاجاتا ہے ، قرآن پاک اسی بات کو ایک جگہ بیان کرتاہے:
’’کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لئے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا؟ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس (اللہ) رحمن کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کی خبر جب خود ان میں سے کسی کو دی جاتی ہے تو ان کے منہ پر سیاہی چھاجاتی ہے اور وہ غم سے بھرجاتاہے‘‘( الزخرف16،17)
بچپن میں ہی اس کو مندر کی دیوداسی بنادیا جاتا ہے جہاں وہ پنڈتوں کی ہوس کا شکار رہتی ہے۔ لڑکی کی شادی کیلئے لڑکی والوں کو ایک خطیر رقم اپنے ہونے والے داماد کی نذر کرنی پڑتی ہے ۔ بیویاں کاوشی کی چاند رات اپنے شوہروں کی پوجاکرتی ہیں اور اگر شوہر مرجائے تو اس کی بیوہ سے زندہ رہنے کا حق چھین کر ’’ستی‘‘ کے نام پر اس کو شوہر کے ساتھ زندہ جلادیاجاتاہے۔ اگر کسی طور وہ زندہ رہ جائے تو اس کو منحوس کہہ کر خوشی کی ہر تقریب سے دور کردیا جاتا ہے۔ 
یہودیوں اورعیسائیوں کی بائبل عورت کی جو تصویر پیش کرتی ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک یہ ہے :
عورت(حوا) پر الزام لگاتی ہے کہ اسی نے پہلا گناہ کیا اور اسی نے آدم کو بہکایا(پیدائش)عورت کو سزا کے طور پر درد زہ میں مبتلا کردیا گیا اور مرد کی محکوم بنادیا گیا( پیدائش3:17) اور چونکہ مرد نے عورت کی بات مان لی تھی اس لئے اس کو زمین پر زندگی بھر محنت ومشقت سے روزی کمانے کی سزا دی گئی (پیدائش3:18،20) مرد کا سر مسیح، عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خدا ہے(1۔ کرنتھیوں 11:3) عورت کو چرچ میں بات کرنے کی اجازت نہیں(1۔کرنتھیوں14:35)عورت اپنی قسم کو پورا کرنے کیلئے باپ یا شوہر کی اجازت کی پابند ہے ( گنتی30:3۔15) 
آج بھی کتنی ہی عورتوں کو شادی اوربچوں سے محروم کرکے چرچ میں ننیںNuns بنادیا گیا ہے جہاں وہ پادریوں کی ہوس کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ اسی بائبل کی تعلیم دینے والے راہب اورپادریوں نے عورت کی تذلیل کرتے ہوئے یہ تعلیم دی کہ ’’عورت شیطان کا دروازہ ہے‘‘ ان پادریوں کا کہنا ہے کہ :
’’عورت بچھوکا ڈنک ہے، عورت جھوٹ اور فریب کی بیٹی ہے، پنڈورا نامی عورت نے بیماریوں اور مصیبتوں کا صندوق کھول کر دنیا کو اس میں مبتلا کردیا‘‘(دیکھئے:کامپٹن انسائیکلو پیڈیا) مغربی دنیا کی لادینی تہذیب نے غیر معینہ اور لامحدود آزادیٔ نسواں کے نام پر عورت کی شناخت چھین کر اسے شوہر کا دُم چھلا بنادیا، اس کی ذاتی ملکیت اور جائیداد میں شوہر کو شریک کردیا اور ساتھ ہی گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے بھی اس پر مال کمانے کی ذمہ داری ڈال دی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک ہی کام کا معاوضہ عورت کو مرد کے مقابلے میں بہت کم دیا جاتاہے۔ دوسری اسے فلموں ، کلبوں، ہوٹلوں، تیراکی کے حوضوں، سمندر کے ساحلوں اور کھلے بازاروں میں برہنہ کردیا۔ آرٹ اور فن کے نام پر عورتوں کو بے حیائی پر مجبور کیا۔ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورت کے ذہن سے عصمت وعفت کی حفاظت کا تصور ہی سرے سے ختم ہوگیا اور اس کی نظر میں مردوں کیلئے کشش اور طلب ہی اس کی کامیابی کا معیار قرار پایا۔ جن جن ممالک اور معاشروں نے اس روشن خیال مغربی نظریئے کو اپنایا ہے وہاں اقوام متحدہ کی شماریات کے مطابق غیرشادی شدہ ماؤں ، حرامی بچوں ، عصمت دری کے واقعات، عورتوں اور جوان لڑکیوں کے اغوا اور قتل اورایڈز میں مبتلا افراد کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
قدیم اور جدید تہذیبوں میں عورت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی ایک جھلک آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب ہم دیکھیں گے کہ دوسری تمام تہذیبوں یا مذاہب نے عورت کی جو بے حرمتی کی ہے اس کے برعکس قرآن مجید نے عورت کے مرتبے اور مقام کو انسانی معاشرے میں کس طرح بلند کیا ہے اور اس کو کن کن باعزت اور واجب الاحترام حیثیتوں میں پیش کیا ہے۔
بحیثیت انسان :
عورت اور مرد ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا عورت اور مرد سب کو ایک مرد اور ایک عورت کے جوڑے سے پیدا کرکے دنیا  میںپھیلایا نہیںگیا؟قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
’’ اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایااور ان دونوں سے بہت سے مرد وعورت دنیا میں پھیلادیئے‘‘( النساء1)
اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں ہی کو احسن تقویم عطا کی ہے مگر عورت کا مرد سے علیحدہ اپنا تشخص ہے، شکل وصورت اور جسمانی ساخت میں وہ مرد سے زیادہ کشش اور جاذبِ نظر ہے۔ اس کا تفصیلی مطالعہ ہم آگے چل کر کریں گے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ عورت اور مرد کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی اپنی مرضی اور حکمت پر مبنی ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے ’’اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جوکچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاکر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے‘‘( الشوریٰ49،50) 
کمائی کا حق :
جہاں قرآن مردوں کو اپنی کمائی پر تصرف کی آزادی دیتا ہے وہاں عورت کو بھی اس کی کمائی پر تصرف کا مکمل حق دیتا ہے ، ارشاد ربانی ہے ’’اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کاحصہ ہے‘‘(النساء32) اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت ملازمت کرسکتی ہے، کھیتی باڑی کرسکتی ہے، تجارت کرسکتی ہے اور کوئی بھی جائز طریقۂ آمدنی اختیار کرسکتی ہے۔ اس طرح جو کچھ وہ کماتی ہے اس پر تصرف کا حق اسی کو ہے اور کوئی اس کو شوہر یا اس گھر کے اخراجات میں شریک ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
حمایت وحفاظت :
عورت کا یہ بھی حق ہے کہ اگر اس پر مظالم ہورہے ہوں تو عورت اور مرد کی تفریق کے بغیر اس کی مدد کی جائے گی،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوںکی خاطر لڑوجوکمزور پاکر دبادیئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار!ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومدد گار پیدا کردے‘‘( النساء75) 
میراث میں حصہ :
یہ قرآن مجید ہی تھا جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ عورتوں کو والدین اور اقرباء کی میراث میں شرکت کا حقدار بنایا ہے، ارشاد ربانی ہے ’’مردوں کیلئے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا اور عورتوں کیلئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہے ، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ مقرر ہے‘‘( النساء7) قرآن نے میراث کی تقسیم کا بنیادی اصول مقرر کیا ہے کہ عورت کے ایک حصے کے برابر مردوں کو دو حصے ملیں گے ’’تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے‘‘( النساء11) اس طرح ایک عورت کا میراث میں نہ صرف حق قائم ہوا بلکہ اس کا حصہ ہی تقسیم کا معیار قرارپایا اور اس سے یہ بھی طے ہوا کہ صرف مرنے والے کے ورثا ہی میراث کے لازمی حقدار ہیں۔ رہا یہ سوال کے عورت کا حصہ مردکے حصے کا آدھاکیوں ہے تو اس کا تفصیلی جواب ہم آگے دیں گے۔
فہم وتدبر:
قرآن مجید کی رو سے عورت بھی مردوں کی طرح عقل وفہم رکھتی ہے ۔ قرآن نے اس بات کے اظہار کیلئے کئی مثالیں ہمارے سامنے رکھیں ہیں، مثلا ًفرعون نے جب حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے نومولود لڑکے قتل کردیئے جائیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی بچانے کیلئے ان کو ہوشیاری کے ساتھ ایک پٹارے میں ڈال کر دریا میں بہادیا۔ قرآن مجید نے اس کو اللہ کی طرف سے دی ہوئی اس ذکاوت کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’اس بچے کو صندوق میں رکھ دے پھر صندوق کو دریا میں چھوڑ دے ، دریا اس کو ساحل پر پھینک دے گا‘‘( طہ 39) اور ساتھ ہی  ان کی والدہ نے اپنی بیٹی کو ہدایت کی کہ وہ پٹارے کے ساتھ ساتھ جائے اورخفیہ طور پر اس پر نظر رکھے ’’ موسیٰ کی والدہ نے بچے کی بہن سے کہا: اس کے پیچھے پیچھے جا، چنانچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ دشمنوں کو اس کاپتہ نہ چلا‘‘۔ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی عورت کا دودھ نہیں پی رہے تو اس نے ایک مدبر کی طرح کمال ہوشیاری کے ساتھ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آل فرعون سے اس طرح گفتگو کی’’ تو اس لڑکی نے کہا: تمہیں ایسے گھر کا پتہ بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں‘‘( القصص10) 
حضرت شعیب علیہ السلام کی ایک بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لے کر اپنے باپ کی خدمت میں آتی ہے تو ایک انتہائی تجربہ کار مردم شناس منتظم کی طرح گفتگو کرتی نظر آتی ہے۔ وہ نہ صرف یہ جانتی ہے کہ کسی کام کیلئے کن صلاحیتوں والے شخص کی ضرورت ہے بلکہ وہ ان صلاحیتوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام میں پرکھ بھی لیتی ہے’’ ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا: اباجان! اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے، بہترین آدمی جسے آپ نوکر رکھیں وہی ہوسکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو‘‘( القصص26) 
اسی طرح قوم سباء کی ملکہ بلقیس کے قصے میں قرآن مجید عورت کو ایک باصلاحیت مدبر حکمران کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ یہ وہ حکمران تھی جو امور سلطنت مشورے سے انجام دیتی تھی’’ ملکہ نے کہا: اے سردارانِ قوم! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو ، میں کسی معاملے کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی‘‘( النمل32)یہ وہ حکمران تھی جو عدل و انصاف اور لوگوں کی عزت ووقار کا فہم رکھتی تھی اور جانتی تھی کہ مرد حکمران مفتوح قوموں کے ساتھ کیسے ناروا سلوک کرتے ہیں’’ ملکہ نے کہا: بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں‘‘( النمل34) اور وہ اتنی سمجھدار تھی کہ نہ صرف اپنا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں دیکھتے ہی پہچان گئی بلکہ اس سے قبل ان کو اللہ تعالیٰ کا نبی سمجھ کر مسلمان ہوچکی تھی ’’ملکہ جب حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا : کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ وہ کہنے لگی: یہ تو گویا وہی ہے، ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم مسلم ہوچکے تھے‘‘ ( النمل42) 
بشری کمزوریاں :
ان خوبیوں کے ساتھ قرآن مجید عورت کی بشری کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ عورت بھی انسان ہے اور مردوں کی طرح اس سے بھی گناہ اور غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں لیکن اس دعوے کے برعکس کہ یہ عورت ہی تھی جس نے پہلا گناہ کیا اور مرد کو بھی اسی نے گناہ پر اکسایا، قرآن کہتا ہے کہ وہ آدم ہی تھے نہ کہ حوا جو شیطان کے فریب میں آگئے’’ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘( طہ 121) قرآن مجید نے عورت کی جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے ، وہ یہ ہے کہ عورت بھی دعوتِ گناہ دیتی ہے اور جب پکڑی جاتی ہے تو مکر کرتی ہے۔ عزیز مصر کی بیوی حضرت یوسف علیہ السلام کو دعوت ِ گناہ دیتی ہے ، حضرت یوسف علیہ السلام دروازے کی طرف بھاگتے ہیں، وہ ان کا پیچھا کرتی ہے اور اسی کشمکش میں ان کی قمیص پیچھے سے پھٹ جاتی ہے، جب دروازے پر اس کاشوہر مل جاتا ہے تو وہ فورا ًحضرت یوسف علیہ السلام پر الزام تھوپ دیتی ہے ’’آخر کار وہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے ان کا قمیص پھاڑدیا اور دورازے پر ان دنوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا، اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی: کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھروالی پر نیت خراب کرے؟ یہی کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے‘‘( یوسف25) عورت کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ آپس میں چہ مگوئیاں کرتی ہیں اور ایک دوسرے سے حسد کا اظہار کرتی ہیں’’شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اسے بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریحاً غلطی پر ہے‘‘ (یوسف30) عورتوں کی چند اور بشری کمزوریاں جو مردوں میں بھی ہیں جن کی قرآن نے نشاندہی کی ہے وہ یہ کہ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا ، نام دھرنا اور غیبت کرنا وغیرہ ہیں(دیکھئے: الحجرات11) ایک اور فطری کمزوری جس کی طرف قرآن نے ہماری توجہ مبذول کی ہے وہ قرض کے لین دین کی شہادت میں عورت کی بھول چوک ہے ’’اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد لائے‘‘( البقرہ282) آیت کے اس حصے سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی حیثیت گھٹادی گئی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں۔
 

شیئر: