Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گناہ، جسم و روح کیلئے مہلک

یہ اْمت اسوقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس کے امرا ء علما کی موافقت کریں گےعلامہ حافظ  ابن قیمؒ
* * * *
    آخر وہ کیا چیز تھی جس نے ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ السلام کو راحت، خوشی اور مسرت کے ابدی مقام جنت سے رنج و غم اور مصیبت کے گھر (یعنی دنیا) میں لاڈالا؟ آخر وہ کونسا قدم تھا جسے اْٹھانے کے بعد، ابلیس کو آسمانی بادشاہت سے نکال پھینکا گیا اور راندۂ درگاہ اور لعنت و ملامت کے قابل بنا دیا گیا، اس کے ظاہر و باطن کو مسخ کرڈالا گیا۔ وہ جنت میں تھا لیکن دہکتی ہوئی آگ اْس کا مقدر بنی۔ وہ جو تسبیح و تقدیس اور وحدانیت کے وظیفے کو حرزِجاں بنائے ہوئے تھا، اب کفروشرک، مکروفریب، دروغ گوئی اور فحاشی اْسکی فطرت ثانیہ بنی۔
    آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلندوبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مْردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اْتار دئیے گئے۔ وہ کونسا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جنکے اصرار پر قوم لوط ؑ کی بستیوں کو اتنا اْونچا اْٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اْس بستی کو اْلٹ کر انھیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی  اور ایک ایک متنفس ہلاک کردیا گیا۔ وہ کونسی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اْوپر تن جاتی تو اسکے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔ اسی طرح آخر وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں ڈبو دیا  جس نے قارون کو اسکے گھربار اور اہل و عیال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔
     آخر وہ کون سی چیز تھی جسکی پاداش میں بنی اسرائیل پر ان سے زیادہ سخت گیر قوموں کو مسلط کیا گیا۔ انہوں نے مردوں کو تہِ تیغ کیا، بچوں اور عورتوں کو غلام اور کنیز بنایا، گھربار کو آگ لگا دی اور مال و دولت کو لوٹ لیا، آخر کیوں ان مجرم قوموں پر طرح طرح کی سزاؤں کو نافذ کیا گیا ، کبھی وہ موت کے گھاٹ اْتارے گئے، کبھی قیدوبند میں مبتلا ہوئے ۔ انکے گھر اْجاڑے گئے اور بستیاں ویران کی گئیں۔کبھی ظالم بادشاہ ان پر مسلط کیے گئے، کبھی ان کی صورتیں بندر اور سور کی بنا دی گئیں۔ بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا  جسکے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے، حضرت اْم سلمہؓ سے روایت ہے،فرماتی ہیں کہ رسول اللہ   نے فرمایا :     
    ’’جب میری اْمت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ ‘‘
    میں  نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان دنوں ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟ آپنے فرمایا:
    ’’کیوں نہیں۔ ‘‘
    میں نے عرض کیا :تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ ہوگا؟۔آپ نے  فرمایا:
    ’’عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوںگے، پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔‘‘ (مسنداحمد)۔
    حضرت حسن کی ایک مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’ یہ اْمت اسوقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس اْمت کے امرا ء اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ اْمت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ ، بْروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے اور جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اْوپر سے اپنا ہاتھ اْٹھا لے گا۔ پھر ان کے اْوپر انہی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا  جو انہیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ تعالیٰ  انہیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔‘‘
    حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہکے قریبی مہاجرین کی10 کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا، (ہم بیٹھے تھے کہ) اتنے میں رسول  اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
     ’’5 قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ تم اس کا شکار ہوجاؤ:
    1۔ جو قوم کھلم کھلا بْرائی اور بے حیائی کریگی  اللہ  انہیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کریگا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔2۔ جو ناپ تول میں کمی کریگا اللہ تعالیٰ  انہیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کریگا ۔ 3۔ جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیگی، اللہ تعالیٰ انہیں بارش کے قطروں سے محروم کردیگا اور اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔4۔ جو قوم عہدشکنی کریگی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کریگا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے اور جب کسی قوم کے حکمران اور امام اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کرینگے تو اللہ انہیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔‘‘ (ابن ماجہ)۔
    اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور بْرے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے  وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں  اس لئے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھیریں گے حالانکہ یہ غیرعقلی، غیر سائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوں کا بْرا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرتِ گناہ کے نتیجے میں ہونے والے دنیا اور آخرت میں ہمہ گیر نقصانات کا اندازہ اللہ رب العزت کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔
 

شیئر: