Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منگھڑت رسومات ، دین سے دوری کا نتیجہ

ہم نے آپ کے ذکر مبار ک کو ایک خاص مہینے اور مہینے کے بھی ایک خاص دن تک محدود کر دیا ہے،یہ سیرت کے ساتھ بڑا ظلم ہے
* * *نبیل اقبال بلوچ ۔ پاکستان* * *

    لاہور پاکستان کا دل کہلاتا ہے اور بلا شبہ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر لمحے بھر پور زندگی کا احساس ہوتا ہے ۔ زندہ دلان لاہور میں ہر شخص چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو یا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو ، اپنی من پسند محافل ، تقاریب یا جگہ کا انتخاب کر کے خوب لطف اندوز ہو سکتا ہے اور یہ شہر ہر شخص کو اسکے لئے بھر پور مواقع فراہم کرتا ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر خطے کے رہنے والوں کا اپنا ایک منفرد مزاج ہو ا کرتا ہے لہذا لاہور میں اپنی زندگی کے5 برس گزارنے سے مجھے اس شہر کی تہذیب و ثقافت، رسم ورواج اور لوگوں کے مزاج کو قریب سے دیکھنے کا بھر پور موقع ملا۔ کئی لحاظ سے منفرد خصوصیت کے حامل اس شہر میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی خاص سیاسی، مذہبی ، یا قومی دن نہایت اہتمام سے منایا جاتا ہے لیکن اس ضمن میں بعض اوقات شرعی اور اخلاقی حدود سے بھی تجاوز ہو جاتا ہے جس کی واضح مثال 12ربیع الاول کا دن ہے۔ اس موقع پر دین کے تمام شرعی تقاضوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے انتہائی توہین آمیز اور شرم ناک انداز اپنایا جاتا ہے جو نہ صرف کسی بھی شخص کی دینی غیرت و حمیت بلکہ شعائر اسلام کے بھی خلاف ہے اور بدقسمی سے ا ب یہ صورتحال پاکستان کے باقی شہروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ کوئی روایتی تحریز نہیں بلکہ ایک فریاد ہے اُن تمام مسلمانوں سے جو نا سمجھی میں اُن تمام خرافات کا حصہ بن چکے ہیں جو پچھلے چندبرسوںسے سامنے آرہی ہیں ۔
    12ربیع الاول پیغمبر اسلام حضرت محمدکی ولادت مبارکہ کا دن ہے ۔بلا شبہ آنحضرت   کا ذکرِ مبار ک انسان کی عظیم ترین سعادت ہے اور اس رو ئے زمین پر کسی بھی ہستی کا تذکرہ اتنا باعثِ اجرو ثواب اوراتنا باعث خیرو برکت نہیں ہو سکتا جتنا سرور کائنات  کا تذکرہ ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے سیرت طیبہ کی ان محفلوں میں ہم نے ایسی بہت سی غلط باتیں شروع کر دیں جن سے ذکر ِمبار ک کے صحیح  فوائد اور ثمرات حاصل نہیں ہوتے ۔ 
    سب سے پہلی اور سنگین غلطی یہ ہے کہ ہم نے آپ کے ذکر مبار ک کو ایک خاص مہینے اور مہینے کے بھی ایک خاص دن تک محدود کر دیا ہے ۔یہ سیرت کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔یہ طریقہ ہم نے غیر مسلموں سے لیا ۔وہ اپنے بڑے پیشوائوں کے دن مناتے ہیں ۔در حقیقت اُ ن لوگوں کی پوری زندگی کو قابل تقلید نہیں سمجھا جاتا اس لئے ان کی یاد تازہ کرنے کیلئے کوئی ایک خاص دن منایا جا تا ہے جبکہ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی پوری زندگی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ انہوں نے 12ربیع الاول کو جشن منایا ہو بلکہ صحابہ کرامؓ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سرکار دو عالم کے تذکرے کی حیثیت رکھتا ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہر محفل ہر نشست سیرت طیبہ کی نشست تھی لہذا انہیں کسی رسمی مظاہروں اور فلک شگاف نعروں کی ضرورت نہ تھی۔رسمی مظاہرہ صحابہ کی عادت ہی نہ تھی بلکہ وہ دین کی اصل روح کو اپنائے ہو ئے تھے ۔
     رسول اللہ  اس دنیا میں کیوں تشریف لائے ؟ آپ کی تعلیمات کیا تھیں اور آپ کی ذات اقدس سے محبت کا تقاضا کیا تھا؟ اسکے لئے صحابہ کرامؓ نے اپنی پوری زندگی وقف کر دیں مگر افسوس ہم محبت اور عقیدت کے نام پر نمود و نمائش اور رسمی مظاہروں میں اس قدر آگے بڑھے کہ ہر جگہ جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں حالانکہ صحابہ کرامؓ کی پوری تاریخ میں کسی ایک جلوس کی نظیر نہیں ملتی ۔رسول اللہ کی یوم ولادت کے چراغاں کئے جاتے ہیں ،گلی محلوں میں ہزاروں روپے خرچ کر کے تزین و آرائش کی جاتی ہے، پھر اُن میںآپس میں باقاعدہ مقابلے کرائے جاتے ہیں ، اس سے بھی آگے بڑھ کر خانہ کعبہ اور گنبدخضرہ کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور پھر عورتیں، بچے اور بوڑھے اسے متبرک سمجھ کر ہاتھ لگانے اور بوسہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر کے نعت خواں حضرات کو بلایا جاتا ہے۔سیرت طیبہ کی محفل ہوتی ہے جس میں40,30سامعین کے لئے بڑے بڑے لاؤڈاسپیکر نصب کیے جاتے ہیں تا کہ پورے محلے میں آواز گونجے اور جب تک جلسہ ختم نہ ہو اس وقت تک کوئی بیمار ، ضعیف یا معذور شخص سو نہ سکے۔ افسو س کہ منتظمین اس بات سے بے خبر ہیں کہ کسی مسلمان کو ایذا پہنچانا گناہ کبیرہ میں سے ہے جس کا انہیں احساس تک نہیں حالانکہ آنحضرت   تہجد کے لئے اتنے دھیرے سے اٹھتے تھے کہ سیدہ عائشہ ؓ کی آنکھ نہ کھل جائے۔ 
    بعض علاقوں میں باقاعدہ طور پر اس مقدس رات میں خواجہ سرائوں سے رقص کروایا جاتا ہے اور ہمارے نوجوان انکے آگے دھمال ڈالتے ہیں ۔ربیع الاول کے ماہ مقدس میں محبت اور عقیدت کے نام پر اس سے بڑا تمسخر اور کھلواڑ اور کیا ہو سکتا ہے ؟ان محافل میں ہماری نیت ہی یہ نہیں ہوتی کہ سیرت طیبہ پر عمل کر کے اپنے ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے توبہ کی جائے اور آنیوالی زندگی کو آپ کے طریقوں کے مطابق گزارا جاے بلکہ اکثر و بیشتر محافل میں سنانے والے 4,3 گھنٹوں کا معاوضہ لے کر اگلی محفل کو چل دیے اور سننے والے اختتامی لنگر کے انتظار میں وقت گزاری کرتے رہے ۔
    میرے محترم بھائیو اور بہنو!اس تحریر سے ہر گز غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائیں کہ رسول اللہ  کا ذکر مبارک کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے بلکہ الحمد اللہ راقم پچھلے20 سال سے آپ  کی تعریف میں نعت گوئی کی سعادت حاصل کر رہا ہے اوراللہ سے دعا ہے کہ زندگی کے آخری سانس تک یہ نسبت برقرار رہے ۔ آپ   کا نام ہمیشہ بلند رہے گا اور کسی بھی انسان کیلئے آپ   کا ذکر کرنا انسانیت کی سب سے بڑی معراج ہے لیکن ذرا ایک لمحے کیلئے غور فرمائیں کہ اگر آنحضرت   ان محافل کو دیکھ لیں تو کیا آپ انہیں پسند فرمائیں گے ؟ خدارا ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، سوچناچاہئے کہ کہیں ہم فائدے کی بجائے گھاٹے کا سودا تو نہیں کرنے جا رہے ؟کہیں ہم رسول اللہ کی محبت اور عقیدت کے نام پر معاذاللہ آپ کی تعلیمات کی توہین تو نہیں کر رہے ؟آپ نے تو ہمیشہ امت کو رسمی مظاہروں سے اجتناب کی تلقین فرمائی ہے۔ آپکے ارشاد پاک کا مفہوم ہے:
    ’’ظاہری اور رسمی چیزوں کی طرف جانے کی بجائے میری تعلیمات کو اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرو۔ ‘‘
    اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ کی عظمت اور محبت کا حق پہچاننے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہر گھڑی آپکے طریقوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔

 

شیئر: