Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صلاح وفساد کے معرکے میں عبادات کا کردار

 قلوب کے امراض سے شرعی مزاج میں بگاڑپیدا ہوتا ہے، جب اجسام سے معاصی صادر ہوں تو اس سے روح کو فنالاحق ہوتی ہے
* * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ * * *
     اسلام کا ربانی اصلاحی جامع پروگرام ایمانیات ،اخلاقیات، عبادات اورمعاملات کے تمام شعبوں پر مشتمل ہے جو انسان کو حسین باطن سے منور اور حسین ظاہر سے آراستہ کرکے اسے سیرت وکردار میں جمال وکمال عطاکرتاہے مگر احکام شریعت کے فیض سے مستفیض ہونے کیلئے کچھ بنیادی شرائط ہیں جنکا ادراک اور فہم عوام وخواص کیلئے ضروری ہے تاکہ عوام اس ربانی اصلاحی پروگرام سے کما حقہ مستفید ہوسکیںاور اہل دعوت واصلاح بھی اپنے کردار کو کما حقہ اداکرسکیں ۔ اسلام کے تربیتی پروگرام یا احکامِ شریعتِ ربانیہ کے بارے میں 3 امور بنیادی حیثیت کے حامل ہیں:
    اول: اس نظام کی عظمت کا شعور
    دوم: اس پورے سلسلۂ احکام کا صحیح فہم
    سوم: احکام شریعت کے تربیتی اور اصلاحی پہلومیں غور وفکر اور استفادہ
    ان تینوں امور کے بارے میںکچھ وضاحت پیش کرتے ہیں تاکہ مرض کا مداوا اور علاج کی تشخیص ہوسکے۔
    اول امریہ ہے کہ احکام شریعت کی عظمت وحرمت بندوں کے دلوں میں بٹھانے کی خاطر بنیادی طورپر اس بات کا استحضارضروری ہے کہ ان کی حیثیت قانونی ضوابط کی ہے جنہیں صانع اپنی مصنوعات سے استفادے کیلئے وضع کرتا ہے ۔خالق نے اپنی افضل ترین مخلوق حضر ت انسان کے بارے فرمایا’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی‘‘(الاسراء70)یقینا رب جلیل نے اپنی اعلیٰ ترین مخلوق کو پیدافرماکر اسے اس کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا کہ جیسے چاہے زندگی گزارے بلکہ خود اپنے کامل علم وحکمت سے اس کیلئے بہترین نظامِ حیات وضع فرمایا اور خالق ہی کا حق ہے کہ وہ اسے اپنی مخلوق میں تصرف فرمائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘(الاعراف54)بنانے والا ہی چلانے کا حق رکھتاہے لہذا اولاً یاد رکھیں کہ یہ احکام خالق کی عظمت کی وجہ سے اس کی عظیم ہدایات ہیں ، اللہ جل جلالہ عظیم ہے ،اس کے احکام بھی عظیم ہیں ،اس کے ارشادات بھی عظیم ہیں پھر وہی انسان کے سلامتی کا کفیل ہے، وہی اس کی اصلاح کا ضامن ہے ۔احکام کی پاسداری میں ہی انسان کی سعادت ہے ۔یہ بھی یادرکھیں کہ ان ہدایات ربانی سے روگردانی ان سے اعراض ،قلوب میں امراض اور اجسام میں بگاڑ اور اعما ل میں فساد کا موجب ہے ۔ یہ بھی یادرہے کہ مادی اجسام کو امراض لگ جائیں ،بندے کا خون خراب ہوجائے ،اس کے اعضاء سلیم نہ رہیں ،اس کی قوتیں ضعیف ہوجائیںتو صرف جسم کو فنا لاحق ہوتی ہے مگر قلوب کی امراض ،شرعی مزاج کے بگاڑسے جب اجسام سے منکرات اور معاصی صادر ہوں تو اس سے روح کو فنالاحق ہوتی ہے جو انسان کی دنیا وآخرت میں شقاوت سے عبارت ہے ۔
    پھر جیسے حفظا ن صحت کے اصولوں سے روگردانی کرنے سے جسمانی مریض کا مذاق وطبیعت خراب ہوتاہے ،وہ شہد کو کڑوا محسوس کرتاہے حالانکہ حقیقت میں وہ ایسا نہیں۔اسی طرح روحانی اور قلبی مریض کا دینی مذاق بھی بگڑجاتاہے۔و ہ طاعات کو منکرات پھر انہی مشکلات اور معاصی کو اپنے لئے آسان تصور کرتاہے ۔یہ بالکل وہی کیفیت ہے جسکے بارے نبی کریم نے فرمایا کہ’’ یہ قریب ہے کہ لوگ معروف کو منکر اور منکر کو معروف جانیں گے‘‘باطنی مذاق خراب ہو تو بدخلقی ،برائی اور اللہ کی نافرمانی میں بندے کا دل لگتا ہے ۔حسن خلق ، اچھائی اور اللہ کی ہدایات سے بے رغبتی ہوجاتی ہے اور نیکی اس پر ثقیل ۔قرآن حکیم میں آیا ہے کہ نماز بھاری ہے مگر خاشعین پر نہیں کیونکہ  انہیں رب سے ملاقات کا استحضار رہتاہے ۔
    یہ تو پہلے امر یعنی احکام کی عظمت کے بارے میں کچھ عرض ہے کیونکہ یہی اصلاح کا نقطۂ آغاز ہے جبکہ ان کی عظمت کا قلوب سے نکلنا بگاڑ کا نقطۂ آغاز ہے ۔آج عملی فساد اور بد خلقی کے عام ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ قلوب سے اللہ تعالیٰ اوراس کے احکام کی عظمت کو نکال دینے کی پوری سعی کی جارہی ہے ۔اہل فساد کی پوری محنت اللہ تعالیٰ کے احکام کی بے وقعتی کی خاطر ہے بلکہ آج تو کتنے بدبخت ایسے ہیں کہ وہ علی الاعلان اللہ تعالیٰ اور رسول کے تقدس کو پامال کرنے کی ناپاک سعی میں لگے ہوئے ہیں ۔عالمی کفر اور اسکا میڈیا مادیات کی عظمتوں کے پروپیگنڈے میں تو خوب استعمال ہوتاہے ،اس کے ساتھ ساتھ وہ شعائرِ اسلامیہ کی اہانت میں بھی کوئی کسر روا نہیں رکھتا۔خود ذات باری تعالیٰ اور جناب رحمت للعالمین کی ذات مقدسہ بھی ان کا ہدف ہے۔اہل غرب میں اللہ اور رسول  کا تمسخر اڑانا ،ان کی روز مرہ زندگی اور ذرائع ابلاغ عامہ میں اس کا معمول بن چکا ہے ،پھر اسی طرح وہ اہل ایمان کی ایمانی غیرت اور دینی حمیت کو آزمانے کے نت نئے تجربات بھی کررہے ہیں ۔یہ عالمی کفر کی مسلسل کوشش کا نتیجہ ہے کہ بے عمل مسلمانوں میں اعمال کی کمزوری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اور رسول کی حرمت کے جذبے اور تقدس کے مقامِ عالی پر مغرب ضرب کاری لگائے جس کا نتیجہ کچھ یوں ہے کہ اہل استقامت واصحاب عزیمت تو ہمت کے ساتھ اپنے دین پر قائم ہیں مگر امت عمومی بد عملی کا شکار نظرآتی ہے جس کے نتیجے میں عام افراد کی نیکی سے محبت تو ہے اس کا زبانی اظہار بھی ہے مگر عمل کی ہمت نہیں ۔انہیں شرسے نفرت بھی ہے،اس کا اظہار بھی کرتے ہیں مگرشر سے بچنے کی عزیمت نہیں ۔ مصلحین حضرات عوام میں نیکی کی محبت پیداکرنے کیلئے نبی کریم کے اس ارشاد میں خوب غور کریں ۔آپ  فرماتے ہیں’’تین خصلتیں جس میں ہونگیں اسے ایمان کی حلاوت نصیب ہوگی، جسے اللہ اور رسول() ،ان کے ماسوا سب سے زیادہ محبوب ہوں، ان کے ماسوا سے محبت یا بغض ان کی خاطر ہو،ایمان میں داخلے کے بعد شرک میں واپسی ایسا لگے جیسے آگ میں ڈالا جانا‘‘اللہ تعالیٰ اور رسول کے ساتھ محبت ، ولا ء اور وفاداری سب سے بڑھ کرہو ۔اس کیفیت کا پیدا ہونا قلب کی سلامتی ،مزاج کی اصلاح اوراحکام شریعت سے وفاہے ۔ان میں شوق ورغبت اوران کی عظمت لازم وملزوم ہیں ،پھر بندے کو اسی میں لذت محسوس ہوگی ،حلاو ت ہوگی ،ان کا ترک مشکل ہوگا بلکہ انہیں اپنے طبیعت کے عین مطابق سمجھے گا۔انہی میں بندے کو راحت ملے گی۔یہی وہ سلامتیٔ قلب کی کیفیت ہے جس سے اجساد کی سلامتی ہوتی ہے جسے دنیا میں حیات طیبہ سے تعبیر فرمایا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت ،بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے‘‘(النحل97)اور آخرت میںاسے سعادت نصیب  ہوگی ۔
    یاد رکھیں کہ اسلام روح کی صحت ،قلب کی سلامتی اوراجساد کی صلاح کی مکمل غذا ہے ۔وہ ربانی تشخیص اور ربانی تجویز ہے ۔ربانی طریقۂ علاج ومعالجہ ہے ،اس کے کسی پہلو کو ترک کرنا یا جس قدر ہمارے اختیار کرنے میں خلل ہوگا، اسی قدر اصلاح وتکمیل میں کمی رہے گی۔ اسی لئے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ‘‘(البقرہ208)پورے اسلام سے پوری اصلاح کی مثال سنئے ۔نبی کریم ،مربی ہیں ،مصلح ہیں ،مزکی ہیں ۔انسانوں کا تزکیہ اور تعلیم ان کا وظیفہ ہے ۔اپنے سابقہ ارشاد میں آپ نے حسی مثال سے اصلاح وفساد کے عمل کو سمجھایا ہے ۔آپ نے ایمان کو ایک لذت وذائقہ دار شے سے تشبیہ دی اور قلب سلیم والے شخص کو اس تندرست سے جو چیزوں کو اپنی طبعی حقیقت کے مطابق سمجھے جبکہ قلبی امراض والا شخص اس کے برخلاف اپنے مزاج کی بگاڑ کی وجہ سے شہد کو بھی کڑوا جانتاہے تو وہ طاعت میں کیسے راحت محسوس کرے گا؟پھر حلاوت ایمان کے حصول کا ذریعہ آپ نے یوں بیان فرمایا:
    اولاً: بندے کے دل میں محبوبیت عظمیٰ کا مقام اللہ اور رسول() کیلئے ہو ۔
    ثانیاً: ان کے ماسوا سے محبت وبغض کا مرجع اللہ اور رسول() ہی ہوں۔
    در اصل آج کے عمومی فساد ،شرعی احکام میں تساہل ،ان میں بے رغبتی ، شرعی مزاج میں بگاڑکی وجہ وہی ہے جس کی طرف نبی کریم نے ہدایت فرمائی ۔ اس ارشاد کے مطابق یہ لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت آجانے کے بعد ان کی شریعت کی عظمت کا آنا بھی لازمی ثمر ہے ۔پھر ان عظماء کی عظیم باتیں اور شرعی احکام کی تعمیل میں بندہ خودلذت محسوس کرنے لگے گا۔یہی وہ حلاوتِ ایمان ہے جو اللہ اور رسول کے عظیم مقام کے دل میں راسخ ہونے کا نتیجہ ہے کہ اولاً ان کی محبت سب پر غالب ہو ،نیز دیگر مخلوق سے محبت وبغض کی بنیاد بھی اللہ اور رسول ہوں تو ان کے احکام کی تعمیل کا شوق پیدا ہوگا۔ جب بندے کے دل میں کفر وشرک سے برأ ت اور بیزاری ہوگی تو وہ ایمان میں قوی ہوگا اور عمل صالح کو شوق سے اختیار کرے گا۔
    گزشتہ طریقۂ اصلاحِ نبوی اور اس میں ذکر 3 امور سے حلاوتِ ایمانی کا پیداہونا ضروری امر ہے جو صادق امین  کا فرمانا ہے۔اب قلوب کی سلامتی مربیٔ اعظم کی ہدایات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کی عظمت کے پیدا ہونے میں ہے ۔ایسا قلب سلیم والا ،سلیم الجسم اور سلیم الدین ہوگا جو ایمان کی حلاوت ضرور بضرور محسوس کرے گا ۔اسے طاعت میں لذت اور معصیت میں تکلیف محسوس ہوگی ۔محسن انسانیت ،مربی ٔاعظم جناب نبی کریم نے صحابہ کرامؓ  کی اسی اسلوب پر تربیت کی تھی جس کا ذکر حدیث  مذکور میں ہوا ۔آج کے عمومی امت کے احوال سے اگر مصلح ومربی حضرات کو شکوہ ہے کہ انہیںمعروف سے بے رغبتی ہے ،طاعات کا شوق نہیں ، اوامر اور نواہی اور اللہ تعالیٰ کی حدود کا پاس نہیں ،احکام پر عمل بھی لوگ رسماًکرتے ہیں ،ان کے اعمال میں حقیقت نہیں جس کی وجہ سے عملی زندگی میں متوقع اثرات اور اصلاحی نتائج برآمد نہیں ہوتے تو انہیں وہی نبوی طریقۂ علاج اختیار کرنا ہوگا ۔
    ان سطور سے ہماری غرض اس مخمصہ کی شرح وتفصیل تھی کہ لوگوں میں کیوں طاعات کا شوق نہیں،عبادات میں دل جمعی نہیں، کیونکر اجر وثواب کے بجائے لوگ اجرت اور منافع کی فکر میں رہتے ہیں ۔دوسرا ضرور ی اور اہم نکتہ جو افادہ اور استفادہ کی بنیادی شرط ہے ۔وہ ان کا درست ادراک اور فہم صحیح ہے ۔یہاں پر اہل علم ودعوت کا اولین فریضہ عوام کے ذوق کو تبدیل کرنا ہے ۔ان میں علم صحیح کا شوق پیدا کرناہے۔ عوام وخواص کے ملاقات کے مواقع اور مجالس میں ان موضوعات کو موضوعِ سخن بنانا ہے جن کا ہماری معاشرتی زندگی سے تعلق ہو جن سے ان کی زندگیوں میں انقلاب آئے ۔وہ اپنے دینی واجبا ت سے آگاہ رہیںمگر افسوس کہ ہماری مجالس میں موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن سے اصلاحی میدان میں نفع کیا ہو، عوام کی زندگی میں تبدیلی کیا آئے ۔امت کے مشترکہ مفادات کا کیسے تحفظ ہو ۔انہیں فروع میں الجھایا جاتاہے ۔ان میں اختلافات کو فروغ دیا جاتاہے ۔ایسے کہ گویا کہ مقصود اصلاحِ امت نہیں اپنی حزبیت اور جماعت کی کثرت ہے ۔ تیسرا ضروری امر اور احکام سے اصلاحی میدان میں افادیت ہے ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ان شرعی احکام کے عوام کی عملی زندگی سے تعلق کو بیان کیا جائے ۔اس بات کی وضاحت کی جائے کہ ایمانیات کے تقاضے کیا ہیں ؟ایک آدمی جب اپنی نماز میں اقرارکرتاہے کہ رب العالمین اللہ تعالیٰ ہے تو پھر رزق کے حصول میں نماز سے نکل کر کیوں حرام طریقۂ کار کو اختیار کرے جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب ہو ۔ جب ایک شخص اللہ تعالیٰ کی توحید کا، اس کے حاجت روا ہونے کا ،اس کے مشکل کشا ہونے کا نماز میں بار بار اقرار کرتا ہے تو کس طرح اپنی مشکل کشائی یا حاجت روائی کیلئے غیر اللہ کو پکارتا ہے ۔ہم نے صرف نماز کی ایک مثال دی ہے جبکہ جملہ احکام شریعت میں ہماری تربیت کے بیشمار راز پنہاں ہیں ۔ہماری غرض یہ ہے کہ احکام شریعت کو اپنی عملی اصلاح کا ذریعہ اور قرب الی اللہ اور الی الرسول  کا وسیلہ بنایاجائے ۔اگر ہم ان تینوں بنیادی امور کا پاس رکھیںگے تو عظمتِ احکامِ شریعت پیدا ہوگی، ان کا فہم صحیح اور ان احکام کے اصلاحی پہلو کو جانا جائے گا۔اگر ہم یہ کریں گے تو ان شاء اللہ ان سے پورا افادہ اور استفاد ہ ہوگا ۔ ان کی افادیت میں یقینا خلل نہیں ،ہمارے استفادہ کے طریقۂ کار میں خلل ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسے سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں