Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیار رسول ﷺمیں بیتے ہوئے لمحات

اللہ تعالیٰ بندوں کو معاف کرنے کے بہانے بناتا ہے، بعض نیکیاں بہت چھوٹی ہوتی ہیں مگر ان کا اجرو ثواب بہت زیادہ ملتا ہے
***عبدالمالک مجاہد۔ ریاض***
(گزشتہ سے پیوستہ)
     اللہ کے رسولنے امت کو سلام کا طریقہ سکھایا ہے جو ہم ہر نماز کے دوران التحیات میں پڑھتے ہیں:
    السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ۔
      ’’اے نبی اکرم( )!آپ( ) پر سلام ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔‘‘
     یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے:
    السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ۔
    اس کے بعد کچھ مزید دعائیہ کلمات استعمال کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں، مثلاً:
      صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَعَلٰی آلِکَ وَأَصْحَابِکَ، وَجَزَاکَ اللّٰہُ عَنْ أُمَّتِکَ خَیْرًا، اللّٰھُمَّ آتِہِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیلَۃَ وَابْعَثْہُ الْمَقَامَ الْمَحْمودَ الَّذِي وَعَدْتَہُ ۔
    تو ان الفاظ کو کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ الفاظ اللہ کے رسول کی قبر مبارک کے آگے کھڑے ہو کر کہیں یا قبر کے سامنے چلتے ہوئے ادا کرلیں۔
    رسول اللہ کی قبر مبارک سے ذرا سا آگے3,2 قدم پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی قبر مبارک ہے۔ اس کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں:
    السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَابَکْرٍ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْکَ وَجَزَاکَ عَنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ خَیْرًا۔
    پھر 3,2 قدم آگے چل کر سیدنا عمر فاروقؓپر سلام ان الفاظ میں پیش کریں اور کہیں: السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْکَ وَجَزَاکَ عَنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ خَیْرًا)۔
    ہر مسلمان کے لئے اللہ کے رسول پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا ضروری ‘ فرض اور بے شمار اجر و ثواب کا باعث ہے۔ اس کی اہمیت وفضیلت واضح کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
     ’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم ()پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس نبی ()پرخوب درودوسلام بھیجا کرو۔‘‘ (الاحزاب56)۔
    اس سلسلے میں اللہ کے رسول کی بڑی مشہور حدیث ہے ۔آپنے ارشاد فرمایا:    
     ’’ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا‘ اس پر اللہ تعالیٰ  10 مرتبہ رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘
    مسجد نبوی شرتف کی اپنی ہی شان وعظمت ہے۔ یہ اُن 3 مساجد میں سے ایک ہے جن کی طرف ثواب کی نیت کر کے سفر کرنے کی اجازت ہے۔ ارشاد ہوا: 
    ’’ اہتمام کے ساتھ سفر اِن3 مساجد کے سوا کسی جگہ کے لئے نہ کیا جائے: مسجد حرام، میری یہ مسجد اور مسجد اقصیٰ۔‘‘
    درود وسلام کی سعادت حاصل کرنے کے بعد باہر نکلا تو برطانیہ سے آئے ایک صاحب نے ہاتھ پکڑ لیا۔ ان کا حافظہ بڑا تیز تھا۔ کہنے لگے: میں نے آپ کو آج سے کوئی 20 سال قبل برطانیہ میں برمنگھم کی دعوت اسلامی کانفرنس میں دیکھا تھا۔ ان سے وہاں حالات کے حوالے سے بات چیت ہوتی رہی۔ وہ حجاج کا قافلہ لے کر آئے ہوئے تھے۔
    اچانک میں نے موبائل پر ابو اَنس کے نمبر پر انگلی دبائی تو دیکھا کہ ان کا نمبر چل رہا تھا۔ ابو انس کہنے لگے: رات ہماری بس خراب ہو گئی تھی۔ ہم رات گئے مدینہ شریف پہنچے ہیں۔ میں روضۂ شریف کے سامنے ہی ایک ہوٹل کی لابی میں بیٹھا ہوں، آپ ابھی آجائیں۔
     ابوتراب کہنے لگے: چلئے میں آپ کو ہوٹل چھوڑ آتا ہوں۔ مجھے اس کا محل وقوع معلوم ہے۔ چند منٹ کے بعد ہم ابو انس کو گلے لگا رہے تھے۔ قدرے چھوٹے قد کا خوبصورت نوجوان‘ آنکھوں میں بلا کی تیزی ‘ وہ ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔ لابی میں حجاج کا بیحد رش تھا۔ بیٹھنے کے لئے کوئی خالی جگہ نظر نہ آئی۔ ایک طرف ریسٹورنٹ والوں نے رسی لگا کر اپنے مہمانوں کے لئے جگہ بنا رکھی تھی۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ چلو کافی پیتے ہیں۔ بیٹھنے کے لئے جگہ بھی مل جائے گی اور بات بھی کر لیتے ہیں۔ ابو انس کہنے لگے: میں جرمنی سے120حجاج کو لے کر آیا ہوں، میں ان کا مرشد دینی ہوں۔
     قرآن پاک کے جرمنی ترجمہ کے حوالہ سے اُن سے میٹنگ کامیاب رہی۔ میں ان پر اپنا نقطہ نظر واضح کرنے میں کامیاب ہو گیا اور انہیں اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اتنے میں ناشتہ آ گیا۔ میرا پسندیدہ ناشتہ‘ کپ چینو اور کروسینٹ، ابو انس کہنے لگے: جلدی کریں، ابھی آپ نے جرمن حجاج سے خطاب کرنا ہے۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ باقی3 منٹ ہیں۔ اس دوران سارے لوگ لابی میں جمع ہو جائیں گے۔ کہنے لگا: جرمن قوم وقت کی بڑی پابند ہے۔ واقعی میں نے دیکھا کہ تمام حجاج عورتیں ومرد ہوٹل کی لابی میں جمع ہو چکے تھے۔ ابو انس نے چھوٹا لاؤڈاسپیکر اپنے ہاتھ میں لیا کہنے لگا: میں آپ لوگوں کی دنیا کے ممتاز پبلشرز دارالسلام کے مدیر عبدالمالک مجاہد سے ملاقات کروانا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مائیک میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ کہنے لگا: اب آپ ہیں اور سامعین ہیں، جیسے چاہیں ان سے مخاطب ہوں۔
    میری زندگی کے وہ لمحات بڑے ہی یادگاراور فرحت بخش تھے جب میں جرمن قوم سے عربی میں مخاطب تھا۔ میری گفتگو کا ترجمہ ابو انس جرمن زبان میں کر رہے تھے۔ ان میں 30 نو مسلم بھی تھے۔ ایک دو فیملیاں پاکستانی الاصل بھی تھیں۔ میں نے انہیں سلام پیش کرنے کے بعد حج کی مبارک باد پیش کی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان کے حج کو حج مبرور بنائے۔ ان کے گناہوں کی مغفرت کرے اور اس کوشش کی اللہ تعالیٰ قدر فرمائے۔ تمام حجاج خوشی سے آمین کہہ رہے تھے۔ ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔
     جرمن حجاج سے مدینۃ الرسول میں خطاب کرنے کا موقع میری زندگی کے یادگارواقعات میں سے تھا۔ میں نے گفتگو ختم کی تو نو مسلم حضرات نے آگے بڑھ بڑھ کر سلام پیش کیا۔ کتنے ہی ایسے تھے جنہوں نے گلے لگا کر اپنی محبتوں کا اظہار کیا۔ وقت بڑا مختصر تھا۔ سامنے بسیں اپنے مسافروں کا انتظار کر رہی تھیں۔ ابو انس جیسے نوجوان اسلام کا اور کسی بھی قوم کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔ مجھے ابو انس نے بتایا کہ وہ 5,4زبانوں میں بڑی اچھی تقریر کر لیتا ہے۔ دعوتی کاموں کیلئے مختلف ملکوں میں جاتا رہتا ہے۔
     قارئین کی دلچسپی کے لئے بتا دوں کہ وہ جارجیا کے ملک میں بھی دعوت کے کام کے لئے جاتا ہے۔ اسے ان کی مادری زبان پر عبور ہے۔ مجھے ایک مدت تک تجسس رہا کہ مسلمانوں نے جن عیسائیوں کے ساتھ کئی صدیوں تک جنگیں لڑیں وہ سلطان محمد بن فاتح کے استنبول کو فتح کرنے کے بعد کہاں چلے گئے، آیا انہوں نے اسلام قبول کر لیا؟ یہ درست ہے کہ ان کی اکثریت ماری گئی، مگر باقی کدھر گئے؟ خاصی جستجو کے بعد مجھے جواب ملا کہ وہ لوگ شکست سے دوچار ہونے کے بعد جارجیا منتقل ہو گئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
    ویسے جارجیا کی حدود ترکی کے ساتھ لگتی ہیں۔ ابو انس کے ساتھ طے ہو گیا کہ میں اکتوبر میں ان شا ء اللہ استنبول میں اس سے ملاقات کروں گا۔ابو انس سے الوداعی معانقہ کر کے ہوٹل سے باہر نکلا تو بہاولپور کے ایک صاحب مل گئے۔ خوش ہو کر بتانے لگے: میں نے آپ کا پروگرام پیغام ٹی وی پر دیکھا ہے۔ وہ بھی حج کے لئے آئے ہوئے تھے۔ منیب کبریا اپنی گاڑی لئے ہوٹل کی نکڑ پر کھڑے تھے۔
    اللہ کے رسولکی حدیث ہے کہ جو شخص اپنے گھر سے باوضو ہو کر مسجد قباء میں جائے تو اسے ایک عمرہ کا پورا ثواب ملتا ہے۔ اب مدینہ جائیں اور اس سعادت سے بہرہ ور نہ ہوں تو اسے بد قسمتی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔
    در اصل اللہ تعالیٰ بندوں کو معاف کرنے کے بہانے بناتے ہیں۔ بعض نیکیاں بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں‘ مگر ان کا اجرو ثواب بہت زیادہ ملتا ہے۔مسجد قبا مسجد نبوی شریف سے زیادہ دور نہیں ، یہی کوئی 15منٹ لگ جاتے ہوں گے۔ ہم مسجد میں پہنچے تو غیر معمولی رش نظر آیا۔ مسجد قبا میں چونکہ ہر شخص کو انفرادی نوافل پڑھنا ہوتے ہیں‘ اس لئے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ مسجد کا اگلا حصہ حجاج کرام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہم نے قدرے پیچھے 2نفل ادا کیے‘ دعا کی اور مسجد سے باہر آگئے۔
    میں نے تو ناشتہ کر لیا تھا مگر گھر کے دوسرے افراد تو مسلسل عبادت میں مصروف تھے۔مدینہ منورہ کے ایک محلہ میں ایک خوبصورت پاکستانی ریسٹورنٹ پر لاہوری ناشتہ کیا۔ میں نے مدینۃ الرسول میں ایک ہی رات گزاری تھی مگر وقت بہت بھرپور گزرا۔ ہماری فلائٹ دوپہر ایک بجے کے قریب تھی۔منیب کبریا نے ہمیں ایئر پورٹ اتارااو رہم ریاض کے لئے رواں دواں تھے۔
    جمعہ کے روز ریاض میں میری مصروفیات عام دنوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ میں نے جمعہ کو ان مصروفیات میں وقت گزارا اور ہفتہ کی دوپہر کو پھر اپنی اہلیہ اور بیٹے عبد اللہ کے ساتھ مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوا۔ یہاں پر عمرہ کرنے کے ساتھ حج پر آئے ہوئے رشتہ داروں سے ملاقات بھی کرنا تھی اور بیٹے محمد مجاہد کو دار الحدیث مکہ مکرمہ میں داخل بھی کروانا تھا۔ سعودی عرب میں رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ سال میں کم از کم 5,4مرتبہ عمرہ کرنے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ بہانے بہانے سے ہم لوگ مکہ او رمدینہ شریف جاتے ہیں۔ میرا ایک مصری ٹریول ایجنٹ حمادہ ہے۔ گزشتہ کئی سال سے وہ مکہ مکرمہ میں میرے لئے ہوٹل بک کرواتا ہے۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ مجھے وقف ملک عبد العزیز میں کوئی ہوٹل مل جائے اور اللہ تعالیٰ حمادہ کے ذریعے یہ تمنا پوری کر دیتا ہے۔
    مکہ مکرمہ میں حجاج کا خاصا رش تھا مگر وہ بتدریج کم ہوتا جارہا تھا۔طواف میں خاصارش مگر مسجد حرام کے دیگر حصوںمیں آرام سے نماز کے لئے جگہ مل جاتی ہے۔اپنے عزیزوں سے ملاقات ہوگئی۔ ان کے ساتھ کھانے بھی کھائے،خصوصاً برادر عزیز سیف اللہ شاہد کا تذکرہ ضرورکرنا چاہوں گا۔
    یہ اسلام آباد پی ٹی وی میں بیسویں گریڈ کے آفیسر ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے حج کرواناتھا۔ یہ اپنے بچپن کے ایک کلاس فیلو کے ساتھ وزیر حج سردار محمد یوسف کے پاس گئے اوران سے درخواست کی کہ وہ اس دوست کو حج پر بھجوا دیں۔ یہ آخری ایام تھے بلکہ آخری فلائٹس جارہی تھیں۔حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے ان کے دوست سے تو معذرت کر لی گئی مگر سردار یوسف کہنے لگے: میرے پاس حجاج کی خدمت کے لئے سرکاری ملازمت کرنے والے ایک شخص کی گنجائش ہے۔ اس طرح ہمارے اس عزیز کو سرکاری خرچ پر حج کرنے کا موقع میسر ہوا۔ انہوں نے 40 دن حجاج کرام کی خوب خدمت کی ۔ان کی رہنمائی کی حتیٰ کہ انہیں حکومت کی طرف سے شکریہ کا خط بھی موصول ہوا۔ ان کے ساتھ حرم میں متعدد ملاقاتیں رہیں۔ بہت کام کے آدمی ہیں۔ سوچ بڑی مثبت ہے۔ انہوں نے راولپنڈی کے ایک علاقے میں مسجد بھی بنا رکھی ہے۔
    اس سفر میں ایک بڑا مقصد اپنے بیٹے محمد مجاہد کو دار الحدیث میں داخل کروانا تھا۔ محمد کو ہم نے بچپن ہی سے وقف کیا ہوا ہے کہ یہ اللہ کادین پڑھے اور اس کی خدمت کرے۔یاد رکھیے کہ بہتر ین صدقہ جاریہ اولاد کو دین کا عالم بنانا ہے۔ اگر کسی شخص کی اولاد حافظ قرآن یا عالم دین بن جاتی ہے تو اس سے بڑی خوش قسمتی کوئی ہو نہیں سکتی۔آپ کا بچہ کم از آپ کے دنیا سے جانے کے بعد آپ کے لئے دعائے مغفرت تو کرے گا۔
    اپنے قارئین کو اللہ کے رسول کی ایک حدیث کی یاد دہانی کروانے کے بعد آگے بڑھو ں گا۔ آپ نے فرمایا: انسان جب وفات پا جاتا ہے تو اس کے نیک اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے مگر3 چیزیں ایسی ہیں جو مرنے کے بعد بھی اس کے لئے اجرو ثواب کا ذریعہ بنتی ہیں۔ان میں سے ایک تو صدقہ جاریہ ہے،جیسے کسی انسان نے اپنی زندگی میں کوئی مسجد‘ کنواں ‘ مدرسہ ہسپتال یا کوئی خیراتی ادارہ بنا دیا ہو جو ا س کے مرنے کے بعد بھی باقی رہے اور اللہ کی مخلوق اس سے فائدہ اٹھاتی رہے۔ایسے کام کا اجرو ثواب اسے ہمیشہ کے لئے ملتا رہتا ہے۔دوسری چیز جس کا حدیث میں ذکر ہے وہ اُس علم کے بارے میں ہے جسے کوئی شخص کسی کو سکھا جائے اور لوگ اس کی وفات کے بعد اس علم سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔ یہ بھی اس کے درجات میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔تیسری چیز ایسی اولاد جو مرنے والے کے لئے دعا ئے مغفرت کرتی رہے ۔
    اب اگر اولاد کو نماز جنازہ ہی نہ آتی ہویا اسے نماز ‘ دعائے قنوت‘ آیۃ الکرسی ہی نہ آتی ہو تو اس نے والدین کے لئے دعائیں کیا کرنی ہیں۔مجھے یاد ہے کہ والد محترم اچانک کسی وقت کہتے تھے: عبد المالک! چلو التحیات سناؤ‘ دعائے قنوت سناؤ‘ فلاں سورت سناؤ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی اعلیٰ تربیت کی بدولت ہم کم از کم شرک جیسے کبیرہ گناہوں سے بچے ہوئے ہیں۔میں اپنے قارئین کو بتانا چاہوں گا کہ ہر باپ کی طرح میرے والد مرحوم بھی میرے ساتھ شدید محبت کرتے تھے، مگر نماز کے معاملے میں کبھی چھٹی ملی نہ معافی ملی۔ جس حالت میں بھی ہوں‘ تھکے ہوئے ہوں یا سخت سردی گرمی ہو نماز کے معاملے میں کوئی رخصت نہیں تھی۔وہ گھر میں داخل ہوتے تو والدہ صاحبہ سے پہلا سوال یہی کرتے: لڑکوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ آج جب میں الحمدللہ! نماز میں یہ دعا کرتا ہوں} رَبِّ اغْفِرْلِي وَلِوَالِدَيَّ {تو خوشی سے میرا سینہ بلند ہو جاتا ہے کہ جہاں میں نے اپنی مغفرت کی دعا مانگی ہے‘ وہاں میں نے اپنے والدین کو بھی یاد رکھا ہے اور ان کے لئے بھی دعا مانگی ہے۔
    میں تو اکثر کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو خود غرض بنائیں۔ ایک تو اپنے لئے صدقہ جاریہ ضرور چھوڑیں۔ اپنی اولاد کے لئے جائداد بنائیں‘ مال ومنال چھوڑیں، اس سے کوئی منع نہیں کرتا، مگر یہ ضرور دیکھیں کہ اپنی ذات کے لئے ہم نے کیا چھوڑا ہے؟ قرآن کریم کہتا ہے: قیامت کے روز انسان حسرت کے سمندر میں ڈوب کر کہے گا} یَا لَیْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَیَاتِي{ ’’کاش میں نے آخرت کی زندگی کے لئے کچھ آگے بھیجا ہوتا۔‘‘
    آج سے 87سال پہلے اس وقت کے امام کعبہ شیخ عبدالظاہر ابو سمح نے شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کوایک خط لکھا کہ ہم اس بلد امین میں ایک مدرسہ کھولنا چاہتے ہیں جس کا نام دارالحدیث ہو گا۔ اس مدرسہ میں طلبہ کو حدیث اور دیگر علوم ِدینیہ پڑھائے جائیں گے۔ شاہ عبدالعزیز نے یہ مدرسہ قائم کرنے کی اجازت بخوشی دے دی۔ ہندوستان کے اہل حدیثوں کی خواہش تھی کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں دونوں جگہ دارالحدیث ہوں جہاں پر دیگر علوم کے ساتھ حدیث کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ چونکہ دونوں مقامات مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات ہیں۔ دونوں ہی مہبط الوحی ہیں۔ اسلام کی شعائیں مکہ مکرمہ سے پھوٹیں اور پھر مدینہ طیبہ سے پوری دنیا تک پھیل گئیں۔ دونوں مقامات منارۂ نور ہیں لہٰذا دونوں مقدس شہروں میں دارالحدیث کی بنیادیں رکھی گئیں ۔ سعودی طلبہ کے علاوہ دیگر ممالک کے طلبہ کو بھی داخلے دیے گئے۔ دارالحدیث مدینہ منورہ کے بارے میںکبھی علیحدہ سے تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ لکھوں گا۔ فی الحال میرے سامنے مکہ مکرمہ کا وہ دارالحدیث ہے جس کی تعمیر میں نہ صرف شیخ عبدالظاہر ابو سمح نے حصہ لیا بلکہ ان کے ساتھ شیخ محمد نصیف، شیخ محمدطاہرکردی‘ شیخ محمد عبدالرزاق اور شیخ عبدالوہاب دہلوی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ مختصر سا ذکر شیخ عبدالظاہر ابو سمح کا اور پھر ہم آگے بڑھیں گے۔
(جاری ہے)
   

 

 

 

شیئر: