Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذہبی فرائض کی ادائیگی او رروح کو تازگی کیسے؟ سعودی کالم

پیر 20نومبر2017ءکو سعودی اخبارات المدینہ اور عکاظ میں شائع ہونے والے کالم کاترجمہ نذر قارئین ہے۔
یوٹیوب پناہ گاہ ثابت ہوسکتی ہے!!
طلال القشقری۔ المدینہ
مذہبی فرائض کی ادائیگی میں جوش و خروش سرد پڑ جانے والی شخصیت کو سب سے عمدہ جومشورہ دیا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ آپ یو ٹیوب دیکھنے کو اپنا معمول بنالیں۔ نومسلموں کے حلقہ بگوش اسلام ہونے والی وڈیو کلپ دیکھ کر آپ کے اندر پیدا ہونے والی سرد مہری خود بخود ختم ہوجائیگی اور آپ کے جسم اور آپ کی روح کو تازگی حاصل ہوجائیگی۔
غیر مسلموں کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے واقعات دیکھنے سے سرد مہری کے شکار لوگوں کو تحریک ملتی ہے۔ یہ فطری امر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب انسان ایسے لوگوں کے مناظر دیکھتا ہے جو پیدائشی مسلمان نہ ہوں۔ جنہیں اسلامی ماحول میں رہنا نصیب نہ ہوا ہو۔ جو قرآن کریم میں تدبر و تفکر حاصل کرنے کیلئے عربی زبان سے نا واقف ہوں۔ جنہیں حرمین شریفین کی ہمسائیگی نصیب نہ ہوئی ہو اسکے باوجود وہ اسلام قبول کررہے ہوں اور اسلام پر انکا عقیدہ اور عمل عمدہ درجے کا ہو اور وہ اپنے مذہبی فرائض کسی تکلف اور سرد مہری کے بغیر انتہائی جوش و خروش سے انجام دے رہے ہوں۔ یہ سارے مناظر اانسان کے اندر تازگی پیدا کرنے کا باعث یقینا بنیں گے۔
جو غیر مسلم بھی حلقہ بگوش اسلام ہوتاہے اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ یہ کہانی اسلام کی عظت کا آئینہ ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان فطری طور پر اسلام پسند پیدا ہوتا ہے۔ آگے چل کر اسکے ماں باپ اسے یہودی، یا نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں۔ جب بھی اسے صحیح مذہب اسلام نظر آتا ہے وہ اپنی فطرت کی طرف لوٹ آتا ہے۔
میں اپنے قارئین کو یہی مشورہ دونگا کہ آپ لوگ نومسلموں کے وڈیو کلپ دیکھیں۔ آپ کو قول و عمل میں صداقت کے ایمان افروز مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔
اسلام قبول کرنے کے اسباب مختلف ہوتے ہیں جوجس تہذیب سے جڑا ہوتا ہے اسی تہذیب کے تناظر میں وہ اسلام کی طرف مائل ہوتا ہے۔قدر مشتر ک اسلام سے پسندیدگی ہوتی ہے۔
عصر حاضر کے مسلمانوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کیلئے کسی جنگ کی ضرورت نہیں۔ اسلامی تعلیمات سے متعلق تمام اسباق تیار ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی شخص معلم کا کردارادا کرکے اسلامی دعوت غیر مسلموں تک باآسانی پہنچا سکتا ہے۔ ضرورت اسلامی پیغام کو سمجھنے اور اخلاص کیساتھ دوسروں تک پہنچانے کی ہے۔ اگر مسلمان اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کا باآسانی عملی نمونہ بنالیں تو پوری دنیا کسی مشقت اور زحمت کے بغیر حلقہ بگوش اسلام ہوجائیگی۔ غالباً دنیا کا کوئی بھی شخص اسلام قبول کئے بناءنہ رہ سکے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
سعودی عرب میں عیسائی!
محمد الساعد۔ عکاظ
میرے خیال میں لبنانی گرجاگھر کے سربراہِ اعلیٰ بشارةبطرس الراعی سعودی عرب آنے والے کلیسا کے سب سے بڑے مذہبی رہنما ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نجران کے عیسائیوںکے دورہ مدینہ منورہ کے بعد یہ عیسائی مذہبی پیشوا کا پہلا دورہ ہے۔ بشارة بطرس انطاکیہ اور مشرقی مارونیوں کے سربراہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس دورے کا سعودی عرب یا مشرقی دنیا کے عیسائیوں پر کیا اثرپڑیگا۔ یہ سوال اس تناظر میں بھی کیا جارہا ہے کہ قطراسلام کے نام نہاد گروپوں کی سرپرستی کررہا ہے جنہوں نے شام، عراق اور مصر میں عیسائیوں کی خونریزی کرکے انہیں نقل مکانی پر مجبور کیا۔صحیح معنوںمیں عیسائیت کا وجود مٹتا جارہا ہے۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ عیسائیت پر سے روایتی نسبت رکھنے والوں کا اعتقاد اٹھ رہا ہے بلکہ گزشتہ 10برسوں کے دوران سیاسی اور مذہبی خطرات بھی اس کا باعث بنے ہیں۔عیسائیوں کو خانہ جنگی اور عرب دنیا کی تباہی کیلئے استعمال کیا گیا۔
عیسائی جزیرہ عرب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد سے ہیں بلکہ جزیرہ عرب میں یہودی مذہب کے پہلو بہ پہلو عیسائی مذہب اولیں مذاہب میں سے ایک ہے۔ بعض شہروں اور علاقو ںمیں قدیم گرجا گھروں کے کھنڈر ملتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے والی صدی میں مشرکانہ رسوم نے عیسائیت کا قلع قمع کردیا تھا۔ اسلام آیا تو اس نے عیسائی عرب قبائل کو دعوت کے ذریعے اپنے سائبان تلے جمع کرلیا۔ اس سے قبل عیسائی شام اور مصر تک جزیرہ عرب میں آسمانی پیغام کا پرچار کرتے رہے تھے۔
نجران اور جزیرہ عرب کے جنوب میں عراق اور شام تک عیسائیت کے ماننے والے موجود تھے۔ سب کے سب خود کو عرب سمجھتے تھے اوربیشتر مقامی مسائل میں اپنی قیادت اور برادرانِ وطن کےساتھ ہوا کرتے تھے۔سب سے زیادہ برا المیہ عرب عیسائیوں کیساتھ عراق، لبنان اور فلسطین میں پیش آیا۔ بعض تکفیری جماعتوں اور ریاستوں نے سیاسی مفادات کے چکر میں انہیں موثر ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ القاعدہ، داعش اور النصرہ محاذوں نے فلسطینیوںکو عرب ممالک چھوڑ کر مغربی ممالک نقل مکانی پر مجبور کیا۔ مغربی دنیا کے انتہا پسندو ں کو عرب دنیا کے خلاف اقدامات کا جواز پیش کردیا۔
سعودی عرب مشرقی دنیا کے عیسائیوں کے آلام و مصائب سے غافل نہیں تھا۔ سعودی عرب اسلامی دنیا کے رہنما اور مذاہب کے درمیان مکالمے اور امن و امان کے قافلہ سالار کے طور پر عیسائی اقلیتوںکے تئیںاپنا فرض ادا کرتا رہا ہے اور اب بھی کررہا ہے۔ مسلمان عیسائیوں کے پشت پناہ کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ یہ مشرق عربی کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ تھا، ہے اور رہیگا۔سعودی عرب نے مشرقی اور مغربی گرجا گھرو ںخصوصاً لبنان کیساتھ تعلقات کافی پہلے سے قائم کررکھے ہیں۔ طائف سمجھوتہ اسکی ایک مثال ہے۔
سعودی عرب ویٹیکن سے ربط و ضبط پیدا کرنے والے عرب ممالک میں پیش پیش رہا ہے۔1974ءمیں سعودی عرب کے سابق وزیر انصاف شیخ محمد الحرکان کو اعلیٰ سطحی علماءکے وفد کا قائد بناکر ویٹیکن کے پوپ سے ملاقات کیلئے بھیجا گیا تھا۔ سعودی وفد نے ظہر کی نماز ویٹیکن میں پڑھی تھی۔ مملکت اور ویٹیکن نے ملکر امن و امان سے متعلق پہلی گائیڈ جاری کی تھی۔ مذکورہ ملاقات کے نتائج انتہائی اہم تھے۔ اگر انہیں بنیاد بناکر آگے بڑھا جاتا تو مشرق و مغرب کے درمیان الزامات کا سلسلہ منقطع ہوجاتا اور شکوک و شبہات کی فضا ختم ہوجاتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: