Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ابھی کچھ لو گ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

قونصلیٹ میں اردو اکیڈمی کا 17ویں جلسہ یوم قومی تعلیم ، قونصل جنرل نور رحمان شیخ، ایڈیٹر انچیف طارق مشخص اور کمیونٹی کی بڑی تعداد کی  شرکت
* * * * * رپورٹ وتصاویر : امین انصاری ۔ جدہ * * * * *
     اردو اکیڈمی جدہ اپنا 17 واں سالانہ جلسہ’’ یوم قومی تعلیم‘‘ بڑے پیمانے پر ہندوستانی قونصلیٹ میں منعقد کررہی تھی ۔اردو کی بقا اور اس کی ترویج کیلئے کام کرنے والی اردو اکیڈمی سے ہمیں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا جسے دیکھ کر ہمارے دل نے سوال کیا کہ اردو کیاہے؟ ذہن نے جواب دیا ’’احساس، رواداری، دل بستگی اور وضعداری ‘‘کے یکجا ہونے کا نام ’’اردو‘‘ ہے ۔
    ساکنانِ مشرق کوباہم شیر وشکر کرنے والاپیام اردو ہے۔ صدیوں قبل برصغیر میں لشکریوں کی اخوت ومودت کا انجام اردو ہے۔ اُس قدیم تہذیب کے اظہار کا اہتمام اردو ہے ۔تصویرِکائنات کے رنگوں کا انصرام اردو ہے۔ انسانیت کیلئے پیا رو محبت کا پیغام اردو ہے۔
    اردو اکیڈمی جدہ وہ خانوادۂ اردو ہے جس نے زبان اردو کی پیدائش کا سبب بننے والی قدیم لشکری تہذیب وثقافت کو آج بھی اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ اردواکیڈمی ہندوستان بھر میں نہ صرف اردو کے پروانوں کیلئے علم و فراست کی شمعیں روشن کر رہی ہے بلکہ نوجوانانِ ہند کو احترام ِانسانیت و احترام آدمیت کی حامل اردو روایات سے آگہی عطا کر رہی ہے ۔اردو اکیڈمی نے یہی عزم کر رکھا ہے کہ:
اردو تری خدمت یونہی ہم کرتے رہیں گے
اونچا تری عظمت کا علَم کرتے رہیں گے
اردو سے محبت تو وراثت میں ملی ہے
’’ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے‘‘
     ہر سال جب 11 نومبرکو اہل علم اور اہل اردو کو وطن سے دور دیار غیر میں تعلیم کے مینارۂ نور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم  مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی ، تعلیمی ، سماجی اور جنگِ آزادی کے کارناموں کو نسلِ نو کی زبانی ہر عام و خاص کے سامنے پیش کرنے کی  17 سال سے اردو اکیڈمی جہد مسلسل کررہی ہے ۔ امسال اکیڈمی نے یوم ِقومی تعلیم کے ساتھ ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی کا صد سالہ جشن بھی منارہی تھی چنانچہ اسٹیج پر جو جاذب النظر وطویل القامت بینر لگایا گیا تھا اس پر حیدرآباد دکن کے فرماں رواں عزت مآب میر عثمان علی بادشاہ کی تصویر دائیں جانب اپنی تمام تر جاہ و ہشم کے ساتھ آویزاں تھی تو دوسری جانب علم و دانش کے علمبردار بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزادکی تصویر دعوت نظارہ دے رہی تھی ۔ درمیان میں گہوارۂ علم آرٹس کالج کی عمارت زبانِ حال سے کہہ رہی تھی کہ میں ہی ہوں جو تشنگانِ علم کی پیاس کو بجھاتی ہوں ، میں ہی وہ عمارت ہوں جس کے سائے میں بیٹھ کر وقت کے بڑے بڑے مورخ ، ادیب ،فلاسفر ، پروفیسر اور معماران قوم وجود میں آتے ہیں ۔میں تمہیں بھی دعوتِ علم دیتی ہوں کہ میرے آغوش میں آجاؤاور اپنی ذہانت سے علم کے چندے آفتاب و چندے مہتاب بن جاؤ ۔
    عثمان علی بادشاہ کی فوٹو دیکھ کر ہمارے دل و دماغ میں ماضی اور حال کی جنگ چھڑ گئی اور بے ساختہ راحت اندوری کا یہ شعر ہماری زباں پر وارد ہوا ۔
               ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پر طنز نہ کر        
     ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
    ہندوستانی قونصلیٹ کا وسیع احاطہ مردو خواتین اور بچوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔اچانک مائیک پر انتہائی شائستہ اور کانوں میں رس گھولتی ایک پُروقار آواز نے ہم سب کو اسٹیج کی طرف متوجہ کیا ۔مائیک پر جدہ کے نامور ناظم واردو اکیڈمی کے پروگرام آرگنائزر محمد فہیم  شرکائے محفل ، اساتذۂ کرام ، طلباء اور طالبات اور ججز کا استقبال کررہے ہیں ۔فہیم صاحب کے اردو بولنے کا انداز ماشاء اللہ اتنانستعلیقی ہوتا ہے کہ سامع کونثرمیں بھی نظم کا مزہ آتا ہے ۔ دوران گفتگو انتہائی معلوماتی اور حسب حال اشعار کا استعمال ان کی نظامت کو چار چاند لگادیتا ہے ۔بچوں کی ایسی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ خود کو اس دن کا سب سے بڑا شریکِ مقابلہ تصور کرتا ہے اور بے باک ہوکر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتاہے اور یہ انداز جلسہ کو بام عروج پر لے جاتا ہے ۔
    ناظم کے اعلان پر ٹیم کے چیف جج عبدالسمیع اور معاون سید ناصر خورشید نے ججز کی ٹیم کے ساتھ اپنی اپنی نشست سنبھا لی ۔ ساتھ ہی وقت کو کنٹرول کرنے والے2 جج ٹی ایم ارشد اور شعیب نے اگلی نشست پر مقررین کو وقت میں قید کرنے کیلئے جگہ سنبھال لی تو جلسہ کا آغاز کرنے کیلئے مجتبیٰ علی مصری نے تلاوت کلام پاک  اور  مدثر امتیاز الدین نے نعت کی سعادت حاصل کی  ۔ ریاست علی تاج کی شاہکار اردو نظم کو کمسن طالبہ آمنہ علی نے بغیر ترنم کے کسی کہنہ مشق شاعر کی طرح کلام  سناکر خوب داد سمیٹی ۔ علی احمد جلیلی کی نظم "جامعہ عثمانیہ"  کو ایک اور طالبہ یسریٰ حنیف نے پورے جوش و ولولے کے ساتھ سناکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور داد حاصل کی ۔
    طلبہ کے انگلش تقریری مقابلوں کے ناظم محمد توصیف خان نے شاندار شروعات کی  ۔ مقررین کو دعوت خطاب دیا ۔ انگلش میں انعامات حاصل کرنے والے بچوں  میں ، اول  محمد حسین، دوم رحمت علی خان ، تیسرے  محمد ریان  اور چوتھے نمبر پر محمد فاضل رہے ۔
     بچوں کی بہترین پرفارمنس کے بعد اردو  تقریری مقابلوں کے ناظم محمد لیاقت علی خان کو مائیک حوالے کیا گیا ۔موصوف نے اپنی گرجدار آواز میں اردو سے محبت اور اس کی اہمیت کو اشعار کے پیراہن میں ڈھال کر کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے شریک مقابلہ کو دعوتِ خطاب دیا اور بہترین نظامت پر سامعین سے داد حاصل کی ۔تقاریر میں اول نمبر پر سید یحیی وقار الدین ، دوم محمد سفیان ،سوم احسان سید اور چوتھے نمبر پر  عبداللہ خان رہے ۔
     لڑکیوں کے تقریری مقابلوں کی نظامت اکیڈمی نے انٹرنیشنل انڈین اسکول کی طالبہ سیدہ خدیجہ خالد مدنی کے سپرد کی ۔ انہوں نے اردو اور انگریزی زبان کی شریک مقابلہ طالبات کی نظامت بہت ہی باوقار انداز میں کی اور اپنی شخصیت کا لوہا منوایا۔ ہر طالب عالم اپنے عنوان پر لفظوں کے موتی بکھیر رہا تھا اور سامع پلک جھپکے بغیر مقرر کے لفظوں کی بندش میں ایسے گھرتے چلا جارہا ہے تھا جیسے وہ زبان دانی کے بھنور سے خود کو نکالنے کی جدوجہد کررہا ہو۔لڑکیوں کے انگلش تقریری مقابلوں میں اول ریدہ خان ، دوم نہلہ جمیل ،سوم ہائلہ شبیر ، اور چوتھے نمبر پر صدف معین نے انعام حاصل کیا ۔ اسی طرح اردو تقاریر میں اول عائشہ خان ، دوم سدرہ شکیل ، سوم دینا رزاق اور چوتھے نمبر پر اسما بانو نے انعام حاصل کیا ۔ ان تمام کامیاب طلباء و طالبات کو قونصل جنرل ہند نور رحمان شیخ کے ہاتھوں توصیفی سند اورشیلڈ دیئے گئے ۔
    اب وقت آگیا تھا کہ اردو اکیڈمی اپنے پروگرام کو تمثیلی مشاعرے سے جوڑ دے ۔اسٹیج سجنے لگا ، مسند لگادی گئی ، شمع رکھدی گئی، لوگ حسن انتظام کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اردو کا ایک اور دلدادہ اسلم افغانی یوں گویا ہوا:
    " خواتین و حضرات! اردو ادب کی نثر ی نشستوں کا اختتام ہوچکا، اب ہم نظم کی طرف آپ کو لے چلتے ہیں "۔
    اور پھر انہو ں نے ہندو پاک کے نامور شعراء اور شاعرات کی تمثیل پیش کرنے کیلئے شہ نشین پر دعوت دی ۔ لباس ، انداز اور گفتگوکا لبادہ اوڑھے یہ طلباء اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔مہمان خصوصی قونصل جنرل ہندنے شمع روشن کی اور پھر ایک کے بعد دیگرے شعراء نے اپنے خوبصورت کلام پیش کرکے محفل کو رونق بخشی ۔بہترین تمیل پیش کرکے کامیاب ہونے والی طلباء اور طالبات کے نام بہ ترتیب اول ، دوم ،سوم اور چہارم یہ ہیں ۔ طالبہ سعدیہ امتل ، آمینہ ارشد، ریدہ خان ، صائمہ بانو۔ طلباء  میں  اسرار حسین ، شعیب رئیس ، حسین قادری اور باسم نجیب۔
    مشاعرے کے ساتھ ہی بچوں کی کارکردگی اختتام کو پہنچی ۔بچوں کی حوصلہ افزائی کیلئے اکیڈمی نے صحرائے عرب سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت جریدہ اردو نیوز کے ایڈیٹر انچیف طارق مشخص کو مہمان اعزازی اور قونصل جنرل ہند نور رحمان شیخ کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا تھا ۔ ان  دونوں کی موجودگی بچوں کی نہ صرف ہمت افزائی تھی بلکہ انکے روشن مستقبل کی ضمانت بھی تھی ۔ اس موقع پر طارق مشخص صاحب نے کہا کہ اردو اکیڈمی کی ترویج و ترقی میں کی جانی والی کوششوں کو سراہا  نونہالان قوم کی صلاحیتوں کا مظاہر دیکھ کر اپنی مسرت کا اظہار بھی کیا ۔
    مہمان خصوصی قونصل جنرل ہند نوررحمان شیخ نے کہا کہ اردو اکیڈمی نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں ،وہ  ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں  ۔ انہوں نے بچوں کی تقاریر کو بہت پسند کیا اور کہا کہ تمثیلی مشاعرے نے مجھے بہت متاثر کیا ۔ میں چاہونگا کہ اس طرح کی تقاریب ہونی چاہئے، اس سے جہاں اردو کو فروغ ملے گا وہیں بچوں میں بھی اردو سے محبت اور کچھ کردکھانے کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ انہوں نے مقررین کے بارے میں کہا کہ انکی شعلہ بیانی ظاہر کرتی ہے کہ یہ مستقبل کے بہترین مقرر بنیں گے ۔انہوں نے جمال اللہ قادری صدر اکیڈمی اور ان کے رفقاء کو دلی مبارکباد دی اور اکیڈمی کے کاموں سے خوشی کا اظہار کیا ۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے صد سالہ جشن کو یوم قومی تعلیم کے ساتھ منانے پر ستائش کی اور مبارکباد بھی دی ۔
    اس موقع پر صدر اکیڈمی سید جمال اللہ قادری کا ریکارڈ خطاب سنایا گیا۔ انہوں نے تمام ذمہ داران ، شرکاء اور اردو کے چاہنے والوں کادلی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ناسازیٔ طبیعت کی بنا وہ شریکِ بزم نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ چمنستانِ اردو اکیڈمی میں ایک سے بڑھ کر ایک نادر اور نایاب گل موجود ہیں جن کی مہک سے اردو کا یہ چمن پوری آب و تاب کے ساتھ مہکتا اور چہکتا رہتا ہے ۔انہوں اپنی تقریر اس مصرعہ پر ختم کرتے ہوئے اہل اردو کو دعوتِ فکر دی کہ :
ابھی کچھ لو گ باقی ہیں جو اردو بولتے ہیں 
    کارگزار صدر شیخ ابراہیم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہم آج سے 19 سال قبل اردو کا ایک ٹمٹاتا ہوا چھوٹا سا چراغ لے کر چلے تھے ۔ اردو کا یہ جادو جو سر چڑھ کر بولتا گیا اور آج یہ چراغ پورے آب و تاب کے ساتھ ایک مشعل بن کر دنیائے ادب میں اردو کی خدمت کا وسیلہ بن چکا ہے ۔
    جنرل سیکریٹری اردو اکیڈمی محمد سلیم احمد فاروقی نے کہا کہ اردو نہ مری ہے نہ مرے گی ۔ یہ زبان اپنی وسعتوں میں روز بروز اضافہ کررہی ہے ۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان کی سرزمین سے وجود میں آنیوالی یہ زبان آج دنیا کے کونے کونے میں بولی جاتی ہے، اس کی زندہ مثال آج کا یہ عظیم الشان جلسہ ہے ۔ اردو اکیڈمی کا مقصد اردو کے سپہ سالاروں کی حوصلہ افزائی اور ان کے کارناموں کو دوسروں تک پہنچانا ہے ۔ انہو ں نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ بھی ادا کیا ۔
    سید محمد خالد حسین مدنی نے اردو اکیڈمی کے اپنے تمام ساتھیوں کو جلسہ کی کامیابی پر مبارکباد دی ۔انہوں نے تمام اسپانسرز اور معاونین کا دلی شکریہ ادا کیا ۔
    ججز کے فرائز انجام دینے والوں میں  پروفیسر محمد امین  بیگ ، ٹی ایم سریندر پال سنگھ ، ڈاکٹر شاہدہ  عزیز خان ،  پروفیسر وزیر اختر، پروفیسر شیخ  فردوس  موجود تھے جبکہ تمثیلی مشاعرہ کے ججز میں  بین نظام آباد ی، الطاف شہر یار ، فرحان عزیز اور منور پاشہ ساحل تما پوری موجود تھے ۔
    جلسہ کو کامیاب بنانے میں محمد یوسف، سمیع فاروقی ، منور خان ، دانش حسین ، سیف قادری، سید شمس الدین مصطفی نے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگادیں ۔
    اس موقع پر " مولانا آزاد سوینیئر " کا اجرا قونصل جنرل ہند کے ہاتھوں عمل میں آیا جسے اکیڈمی کے خازن حافظ محمد عبدالسلام نے  نور رحمان شیخ کے حوالے کیا ۔
* * * * * * *
    اردو اکیڈمی کے  چند اہم کارنامے:
     ٭     12 ہزار سے زائد طلباء وطالبات میں  مفت یونیفارم  کی تقسیم ۔
    ٭   5 ہزار سے زائد طلباء میں اسکول بیگ تقسیم کئے ۔
    ٭    لاکھوں اردو کی نصابی کتب ، پن اور پنسل و کابیوں کی مفت تقسیم ۔
    ٭   20 سے زائد گولڈ میڈل ہر سال   اردو کے ہونہار سپوتوں اور اساتذۂ کرام کو دیا جانا ۔
    ٭   نابینا بچوں کے مدارس میں یونیفارم اور بریل کتابوں کی تقسیم  تاکہ طلباء اردو سے واقف رہیں ۔
    ٭   11 نومبر 2006  ء سے ہندوستان میں نیشنل چھٹی کی منظوری کا حصول ، اکیڈمی کا عظیم کارنامہ ۔
    ٭ 21 کروڑ روپے کا بجٹ  اردو کی ترقی اور ترویج کیلئے سا بقہ ریاست آندھراپردیش  سے منظور کروایا گیا ۔
 

شیئر: