Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی نیا تصور اور فلسفہ متعارف نہ کرواسکی

بڑی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود زوال کا شکار ہے،  سیاست" شہیدوں" کے گرد گہوم رہی ہے، پی ٹی آئی سے قربت کا امکان نہیں،  سیاست میں پنجاب کی اہمیت فیصلہ کن بن چکی ہے
 ****حمید گورایا۔ لاہور****
2018 کے قومی انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے عوام رابطہ مہم کا آغاز کر دیا ۔اس سلسلے میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن جس کی قیادت کو نیب کیسوں کا بھی سامنا ہے اس کے سربراہ میاں نواز شریف نے بھی عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے جلسوں کا آغاز کر دیا ہے ۔اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی جو پہلے ہی عوام رابطہ مہم شروع کرچکی ہے 30 نومبر کو اپنی پچاسویں سالگرہ منارہی ہے اور اس سلسلے میں اسلام آباد میں پانچ دسمبر کو بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے ۔پیپلزپارٹی جسے پنجاب میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اس کے باوجود سیاسی حلقوں میں وہ آج بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے ۔جماعت اسلامی کو چہوڑ کر تمام سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں نئی ہیں ۔
پیپلزپارٹی پچاس سال پہلے ،، جمہوریت ہماری سیاست ہے ، اسلام ہمارا مذہب ہے۔سوشلزم ہماری معیشت اور قوت کا سرچشمہ عوام ہیں  کا نعرہ لیکرمیدان میں آئی۔یہ چار نکات بہت زیادہ مشہور ہوئے ۔اپنے قیام کے تین سال بعد 70 ء کے قومی انتخابات میں الیکشن سے قبل پیپلزپارٹی نے پورے ملک میں ہلچل پیدا کر دی تھی ۔1970ء کے انتخابات میں 138 میں سے 81 سیٹیں جیت کر اپنی مقبولیت ثابت کر دی ۔اس کے مقابلے میں دائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہوئیں  لیکن ایک بڑا عرصہ اقتدار میں رہنے اور عوام میں مقبول رہنے والی اس سیاسی جماعت کی اہم شخصیات دیگر جماعتوں کا رخ کر رہی ہیں ۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی دو  شخصیات کی وجہ سے یہ جماعت عوام کے دلوں میں راج کرتی رہی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعدبینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں اورعوام میں مقبول ہوئیں ۔بینظیر بھٹو کے قتل  کے بعد اب سیاسی شخصیات اور عوام کو اس پارٹی میں کچھ نظر نہیں آتا ۔پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت  ماضی کی دونوں شخصیات کے نام کیش کرا رہی ہیں اور  پارٹی کی سیاست پارٹی کے "شہداء"کے ارد گرد گھوم رہی ہے ۔بینظیر بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کوئی نیا تصور اور نیا فلسفہ متعارف نہیں کروا سکی ۔پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کو موجودہ قیادت سے کوئی امید نہیں ہے ۔بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری بار بار پنجاب کا رخ کرتے ہیں اور انہوں نے بلاول ہاؤس لاہور میں اپنا قیام بڑھا لیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ کارکنوں اور اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھ کر پنجاب کے عوام کو جگانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے لیکن اس میں کامیابی نظر نہیں آ رہی یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کی اہم شخصیات کا پاکستان تحریک انصاف میں جانے کا سلسلہ بھی نہ رک پایا ۔پیپلزپارٹی کے حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ علاقائی اور سیاسی شخصیات تیزی سے پیپلزپارٹی سے تحریک انصاف کا رخ کر رہی ہیں ۔سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ لوگ زرداری خاندان کو بھٹو خاندان کا جانشین ماننے کو تیار نہیں ۔   2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور اس کی حکومت نے  5سال مکمل کئے مگر ان 5سالوں میں حکومت کی کارکردگی کوئی قابل تعریف نہیں رہی ۔بینظیر بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت عملًا آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی اب بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود زوال کا شکار ہو چکی ہے ۔
اسی تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت چوہدری اعتزاز احسن کریں تو بات ہو سکتی ہے ، آصف علی زرداری کے ہوتے ہوئے پیپلزپارٹی سے اتحاد ممکن نہیں ہے ۔عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاول ابھی بچہ ہے جسے آصف زرداری کنٹرول کرتا ہے اصل طاقت آصف زرداری کے پاس ہے جو پیپلزپارٹی کو استعمال کر ہے ہیں اگر پیپلزپارٹی صحیح معنوں میں جمہوری جماعت بن جائے تو اس سے ہمیشہ بات ہو سکتی ہے ۔عمران خان کے اس بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مستقبل قریب میں پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف میں قربت کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعداسلام آباد حکومت کے لئے پنجاب کی اہمیت فیصلہ کن ہو گئی جو ابھی تک ہے ۔5جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھی کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل ضیاء الحق نے90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا اعلان کیا ۔جو پیپلزپارٹی کی پنجاب اور سندھ میں مقبولیت کی وجہ سے ملتوی کر دیئے گئے ۔پھر ایک متنازعہ مقدمہ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بھٹو کو پھانسی ہوئی اور  17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کریش ہو گیا ۔بھٹو کے بعد پنجاب کی سیاست کا محور شریف خاندان ہے ۔ 1990ء کی دہائی میں پنجاب میں ایک نیا ووٹ  بینک وجود میں آیا اس کا نام نواز شریف ووٹ بنک ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں پنجاب میںاصل مقابلہ نواز اور نواز مخالف ووٹ میں ہو گا ۔پنجاب مسلم لیگ ن کا انتہائی مضبوط انتخابی حلقہ ہے جس میں وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن جب نواز شریف کے بعد پارٹی قیادت کی بات کی جاتی ہے تو مسلم لیگ ن کے حلقوں میں مریم نواز کا نام نمایاں نظر آتا ہے ۔اس کی ایک بڑی وجہ شرح خواندگی اور دیہی کلچر ہے ۔موروثی  لیڈر شپ اور حکمرانی لوگوں کے ایک طبقے میں صرف قابل قبول نہیں بلکہ پسندیدہ ہے ۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں انتہائی قابل اور باصلاحیت لوگوں کی موجودگی میں بینظیر بھٹو کے بعد بلاول بھٹو  اور نواز شریف کے بعد مریم نواز کا نام آ رہا ہے ۔پاکستان کے ماضی کو دیکھا جائے تو موروثی لیڈر شپ والی جماعتیں زیادہ مستحکم اور مقبول رہی ہیں جبکہ غیر موروثی سیاسی جماعتیں مقبول نہ ہو سکیں یا اپنی مقبولیت کو زیادہ عرصہ برقرار نہ رکھ سکیں ۔
جہاں تک لاہور میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں اعلٰی سطح اجلاس کا تعلق ہے اس اجلاس میں پارٹی کو متحرک اور فعال شکل میں الیکشن 2018 ء میں اتارنے کی بات کی گئی اور پارٹی کی تنظیم کو مضبوط کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔الیکشن سے قبل ملک کے چاروں صوبوں میں عوام رابطہ مہم چلانے کے ساتھ ساتھ ن لیگ کے بیس کیمپ پنجاب خصوصی توجہ کا  حامل ہو گا ۔اجلاس میں یہ سوچ واضح سامنے آئی کہ مسلم لیگ ن کی جان میاں نواز شریف ہے ، مائینس نواز شریف مسلم لیگ ن کی خواہش کرنے والوں اپنی اس غیر حقیقی خواہش  کوختم کرنا ہو گا ۔
 
 

شیئر: