Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھَتّو بھائی:اس وقت ہم بے انتہابچے تھے

شہزاد اعظم
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ہم ’’بے انتہابچے‘‘ تھے،اتنے بچے کہ ابھی انگوٹھا چوسنا بھی مکمل طور پر ترک نہیں کیا تھا۔ہم ایک چھوٹے سے نیم آباد قصبے کی جھونپڑ پٹی میں ابتدائی ایامِ حیات گھسیٹ رہے تھے ۔ ہماری جھونپڑی سے چند ’’اقدام‘‘ کے فاصلے پر ایک محل نما حویلی تھی جس میںمحلے کی سب سے امیر کبیر ہستی لمحاتِ حیات سے مکمل لطف اندوز ہونے کے لئے اپنی 4بیویوںاور 19بچوں کے ساتھ مقیم تھی۔ اس محل نما حویلی کے باہر اصطبل تھا جس میں 6ابلق گھوڑے رہائش پذیر تھے۔ ان کی خدمت پر 20سائیس مامور تھے۔ سفید ابلق اس محل کے مالک کا تھااور باقی 5گھوڑے سیاہ رنگ کے تھے۔ وہ ہفتے میں کبھی ایک اور کبھی 2مرتبہ غروبِ آفتاب کے بعد کام کاج کے لئے نکلتے تو خود سفید ابلق پر سوار ہوتے جبکہ 5’’محکوم ‘‘سیاہ گھوڑوں پر انکے ساتھ ہوتے۔وہ صبح کے دھندلکے میں گھر واپس لوٹتے تو 19بچے بچیوں سمیت گھر میں موجود 23کے23افرادان کا پرجوش استقبال کرتے۔ حویلی میں جشن کا سماں ہوتا۔ اس کے بعد کئی روز تک موصوف کی تمام بیگمات سج دھج کر محل سے برآمد ہوتی اور واپس گھستی نظر آتیں۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ ان کے ہاں متنجن، مرغ مسلّم یا دمپخت زیادہ پک جاتا تو وہ جھونپڑپٹی والوں کے ہاں بھیج دیتے۔ یوںہم جیسے خاک نشینوںکے ہاں بھی کچھ دیر کے لئے ماحول ’’شادیانہ‘‘ ہو جاتا۔جب ہم شعور کی عمر کو پہنچے اور میٹرک کر لیا تو ہمیں خیال آیا کہ ابو کی معاشی مشکلات میں کمی کے لئے جزوقتی ملازمت کر لی جائے۔ اس کے لئے ہم نے حویلی کا رخ کیا اور محل کے مالک سے ملاقات کی اور ان سے اپنا مدعا کہہ سنایا۔ انہوں نے نہایت خلوص و شفقت کے ساتھ فرمایا کہ ٹھیک ہے، میں کل ہی ایک سیاہ ابلق خرید لیتا ہوں، آپ کو گھڑ سواری کی 15روزہ تربیت دی جائے گی۔ ہم نے کہا کرنا کیا ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہی جو ہم کرتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہم ڈاکے مارتے ہیں اور اگر کوئی ہمارے راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے توہم ڈاکا چھوڑ کر پہلے کاکا مارتے ہیں۔ کاکیوں کوہم کچھ نہیں کہتے ، یہ ہماری ’’تہذیب، روایات و اقدار‘‘ کے صریحاً خلاف ہے۔ہم نے ڈاکو انکل سے کہا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو کچھ عرض کریں۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ہمسائے ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے اور شریف آدمی ہیں، آپ کوکھل کھلا کر بولنے کی اجازت ہے، آپ فرمائیں، میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ ہم نے موقع غنیمت جان کر کہا کہ اگریہی بات ہے توبرائے مہربانی یہ ڈاکا واکا چھوڑدیں۔ لوگوں کو اس طرح دہلانا درست نہیں، آپ کی ان بھبکیوں سے نجانے کتنے معصوم خوفزدہ ہو گئے ہوں گے، ان کی نفسیات خراب ہو چکی ہوگی اور وہ آئندہ زندگی میں بھی آپ جیسے لوگوں سے خائف رہیں گے۔
ڈاکو صاحب ہماری تمام باتیں سر جھکا کر سن رہے تھے ، ہم نے صورتحال کا فائدہ اٹھایا اوراپنا لہجہ تحکمانہ کرتے ہوئے ’’فرمایا‘‘ کہ آپ کو شرم آنی چاہئے، لوگ نجانے کتنی محنت سے خون پسینہ بہا کر بچوں کے لئے رزق کماتے ہیں اوراس رزق پر دھاوا بولتے ہیںاور بندوق کے زور پر سارے صندوق لوٹ لیتے ہیں، ایسے کرتوت کر کے آپ بیویوں کا’’ چوکا ‘‘اور 19بچوں کی ٹیم پال رہے ہیں۔ہماری اس پند کو سن کر ڈاکو صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور پھر انہوں نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا، ہمارے پاؤں پکڑے اور وعدہ کیا کہ آج کے بعد سے وہ کوئی ڈاکا شاکا نہیں ماریں گے۔ انہوں نے ہمارے سامنے بیانِ حلفی دیا اور ہم مطمئن ہو کر اپنی جھونپڑی میں واپس جا گھسے۔اگلے ہی روز اس حویلی سے گھوڑوں کے 20کے 20سائیسوں کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ وہ بیروزگار ہوگئے۔تمام کالے گھوڑے بھی فروخت کر دیئے گئے، ان کے 5سوار بھی بیروزگار ہوگئے۔ وہ روتے دھوتے ،ہمیں بددعائیں دیتے قصبہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ ایک بے راہ اور گمراہ ڈاکو نے ہماری بات کا اپنے دل پر کتنا اثر لیا، اس نے اپنی زندگی کی نہج ہی بدل ڈالی۔ڈاکو صاحب نے چونکہ ’’پروفیشن چینج‘‘ کر لیا تھااس لئے ان کی زندگی میںبھی خاصی ’’چینج‘‘ آئی۔اکثر شام کے وقت بڑی اور قیمتی کاریں ان کی حویلی کی طرف آتی اور جاتی دکھائی دیتی تھیں۔ 
6ماہ کا عرصہ یوں ہی گزر گیا۔ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ ڈاکو بھائی نے ڈاکے مارنے چھوڑ دیئے ہیں اورانکی کایا پلٹ گئی ہے تو ہم نے ان کی حوصلہ افزائی کا منصوبہ بنایااور ان سے ملاقات کے لئے وقت مانگا۔ انہوں نے فرمایا ’’جب چاہیں، تشریف لے آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ ہیں۔‘‘ہم بے حد خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ کتنی بڑی بات ہے کہ زندگی کے ابتدائی دور میں ہی ہم نے ایک ٹیڑھے شخص کو سیدھا راستہ اختیار کرنے پر مائل کر دیا۔ہم اگلے ہی روز ’’سابق ڈاکوبھائی‘‘کی حویلی کے مہمان ہوگئے۔ ہم نے ڈکیتیاں ترک کرنے پر ان کی تعریف کی اور بعدازاں دریافت کیا کہ آپ کی کمائی میں کمی ہونے سے گھریلو سکون برباد ہو گیا ہوگا کیونکہ چاروں بیویاں خزچہ مانگتی ہوں گی۔ موصوف نے جواب دیا کہ ایسا تو کچھ نہیں ہوا کیونکہ میری کمائی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ میں نے ڈاکے چھوڑ کر بھتہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اب میںامیرکبیر ہستیوں کوموبائل فون پر’’تڑی‘‘ دیتا ہوں ، وہ خودمیری حویلی آ کر مجھے ’’منہ مانگی رقم‘‘ دے جاتے ہیں۔ میری بیویاں بھی خوش ہیںکیونکہ پہلے جب میں ڈاکا مارنے جاتا تھا تو ا نہیں دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں وہ چاروں کی چاروں بیک وقت بیوہ نہ ہوجائیں۔ چند ہفتوں سے تو میں نے بھتہ وصولی کا سارا طریق کار’’ اپ ڈیٹ‘‘ کیا ہے، اس ’’نئے ورژن ‘‘ کے تحت بھتے کی ادائیگی کے لئے آنے والوں سے میں ملاقات نہیں کرتا بلکہ میری بیگمات ہی ان سے بھتہ لے کر رکھ لیتی ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جو ہستی ایک مرتبہ بھتہ دینے آجائے وہ بار بارآنے کی خواہش دل میں لے کر جاتی ہے ۔ یہی نہیں وہ جاتے ہوئے میزبانوں سے دریافت بھی کرتے ہیں کہ ہمیں بتا دیجئے، آئندہ کب آئیں؟ہم ان کی یہ باتیں سن کر مایوس ہوئے کیونکہ ہمارے سمجھانے سے فرق صرف اتنا پڑا تھا کہ پہلے انہیں’’ڈکیتی پروفیشن‘‘ کے حوالے سے ’’ڈاکو بھائی‘‘ کہا جاتا تھا اور اب انہیں’’بھتہ پروفیشن‘‘ کے تناظر میں’’بھَتّوبھائی‘‘ کہا جانے لگا تھا۔
آج کئی دہائیوں کے بعد ہمیں یہ ’’حقیقہ‘‘ فقط اس لئے یاد آیا کیونکہ ہماری نظراردو نیوز میں شائع شدہ تصویر پر پڑ گئی تھی جس میں چندکم سن خواتین ’’ڈکیتی چھوڑ کر بھتہ وصولی کی عادت اپنانے ‘‘ کے مصداق پلے کارڈز کے توسط سے قوم کے مردوں لڑکوں، عورتوں لڑکیوں، بچوں اور بچیوں کو سبق دے رہی ہیں کہ ’’سگریٹ نوشی چھوڑ کر موسیقی کو گلے لگالیجئے۔ ‘‘اب ا غیار کے جوتوں میں اپنے پاؤں رکھنے والی ان ’’کٹھ پتلیوں‘‘کو کون سمجھائے کہ سگریٹ کی لت سے اگر پھیپھڑے تباہ ہونے کا خدشہ ہے تو موسیقی کی لت سے عاقبت برباد ہونے کا ڈر ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ سبق بھی وہ ہستیاں دے رہی ہیں جنہیں خود یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس صنف سے تعلق رکھتی ہیں جسے مستور رہنے کا حکم فرمایا گیا ہے،وہ ربِ کائنات کی ایسی تخلیق ہیں جنہیں زینت عطا فرمائی گئی ہے اور خالق و مالک نے اس زینت کو چھپا کر رکھنے کا حکم فرمایاہے۔
 

شیئر: