Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انگلینڈ:آپ مذہب اور کھیل کو ساتھ چلا سکتے ہیں

لندن: انگلینڈ کی ٹیم نے نومبر 2016 ءمیں انوکھی تاریخ رقم کی جب ہندکے شہر راجکوٹ میں ہنداور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلے میچ میں کرکٹ کی 139 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ انگلینڈ کی ٹیم میں ایک ہی وقت پر 4 جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی مسلمان کھلاڑی شامل تھے لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم میں برطانوی مسلمان کھلاڑیوں کو جگہ ملی ہو۔ ناصر حسین نہ صرف 90 کی دہائی سے ٹیم کا حصہ رہے بلکہ انھیں اپنے انگلینڈ کی کپتانی کا بھی اعزاز ملا۔ناصر حسین کے علاوہ اویس شاہ، ساجد محمود، کبیر علی بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو اس درجے کی کامیابی نہیں ملی جو ناصر حسین کو ملی ۔راجکوٹ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں شامل ان چار کھلاڑیوں میں سے ایک، ظفر انصاری نے محض 25 برس کی عمر میں تین ٹیسٹ کھیلنے کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا جبکہ 19 سال میں ڈیبو کرنے والے حسیب حمید انجری کے باعث ایک سال سے کرکٹ نہیں کھیل سکے۔ معین علی نے اس سال 8ٹیسٹ میچوں میں 361 رنز بنائے اور 30 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ لیگ اسپنر عادل راشد بھی ٹیم کا مستقل حصہ رہے۔عادل راشد اور بالخصوص معین علی کی واضح کامیابی کے باوجود انگلینڈ کرکٹ چلانے والوں کو اس بات کا احساس ہے کہ جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی نوجوان کرکٹ کھیلتے ضرور ہیں لیکن وہ بنیادی درجے تک محدود رہتے ہیں اور بہت کم تعداد میں کھلاڑی کرکٹ کو بطور پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ معین علی، عادل راشد، حسیب حمید اور ظفر انصاری سے اس حوالے سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ مسلم برادری کے کرکٹز کی حوصلہ افزائی کیسے کی جا رہی ہے اور یہ چاروں کھلاڑی کس طرح نئے کھلاڑیوں کےلئے رول ماڈل بن سکتے ہیں۔ برمنگھم میں مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے معین علی نے بتایا کہ انھیں بچپن سے ہی کرکٹ کا شوق تھا جسے دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انھیں کرکٹ پر توجہ دینے کی ترغیب دی۔میرے والد نے مجھ سے کہا کہ 13 سے 15 کی عمر میں تم کرکٹ پر توجہ دو اور اس کے بعد جو دل چاہے کرو۔یارکشائر سے تعلق رکھنے والے لیگ اسپنر اور معین علی کے قریبی دوست عادل راشد نے بتایا کہ انھیں بھی کرکٹ کھیلنے کےلئے گھر والوں کی حمایت ملی۔ عادل راشد نے بتایا کہ میرے والد رات بھر ٹیکسی چلاتے تھے لیکن صبح7بجے گھر آنے کے بعد وہ مجھے9بجے کرکٹ کھیلنے کےلئے میدان میں لے جاتے تھے اور پورا پورا دن میرے ساتھ رہتے۔ انھوں نے میرے لیے اپنا بہت وقت قربان کیا۔ عادل راشدماضی کو نہیں بھولے اور نئے کھلاڑیوں کی آسانی کےلئے کرکٹ اکیڈمی قائم کی تاکہ جنوبی ایشیائی نژاد کرکٹر وہاں کھیل سکیں۔معین اور عادل کی طرح چھوٹی عمر سے کرکٹ کھیلنے والے حسیب حمید نے 19 برس کی عمر میںپہلے میچ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ معین علی اور عادل راشد کے ساتھ کھیلنے سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان تینوں کے برعکس ظفر انصاری نے صرف 3 میچوں میں شرکت کے بعد 25 برس کی عمر میں کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔کیمبرج یونیورسٹی سے پڑھائی مکمل کرنے والے ظفر انصاری نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے کرکٹ چھوڑنے کا سوچ رہے تھے اور انھیں اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کرکٹ کےلئے وقف نہیں کر سکتے۔ ظفر انصاری اس لحاظ سے باقی 3 کھلاڑیوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے والد پاکستانی اور والدہ انگریز ہیں اور وہ دونوں تعلیمی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔تحقیق کے مطابق برطانیہ میں تفریحی کرکٹ کھیلنے والے 40 فیصد بچے ایشیائی نژاد ہیں لیکن ان میں سے صرف 4 فیصد ہیں جو کرکٹ کو پیشہ ورانہ اختیار کرتے ہیں۔معین علی نے اس بارے میں بتایاکہ وہ بحیثیت ایشیائی برطانوی مسلمان ان بچوں کی رہنمائی میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر بدلنا چاہتے ہیں اور کھیل اور کردار سے دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ مذہب اور کھیل دونوں ساتھ چلا سکتے ہیں۔
 

شیئر: