Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علی عبداللہ صالح کو کب ، کہاں اور کیسے قتل کیا گیا، متضاد دعوے

ریاض.... سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کو کب، کہاں اور کیسے قتل کیا گیا۔ اس حوالے سے متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔ یمنی وزیردفاع کے مشیربریگیڈیئر یحییٰ ابو حاتم نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر علی صالح کو پیر کے دن نہیں بلکہ اتوار کو ان کے گھر پرقطری ، صہیونی اور ایرانی سازش کے تحت قتل کیا گیا۔صالح بڑے جہاندیدہ اور تجربہ کار رہنما تھے۔ حوثیوں نے ان کے ایک رشتہ دار میجرجنرل عبدالملک السیانی کے توسط سے رسائی حاصل کی تھی۔ السیانی ان کے وزیردفاع بھی رہ چکے تھے۔ نسب کے لحاظ سے حوثیوں کی ہاشمی شاخ سے تھے۔ السیانی قطر کے توسط سے صالح سے رابطے میں تھے۔ انہو ںنے صنعاءمیں گرما گرمی ختم کرانے کیلئے قطر کا ایک پیغام صالح تک پہنچانے کا بہانہ کیا تھا۔ اصل ہدف سابق یمنی صدر کی پناہ گاہ کی نشاندہی کرنا تھا۔ اس طرح بالواسطہ طریقے سے قطر ان کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ صالح گرما گرمی کو ٹھنڈا کرنے کی بابت سوچنے لگے تھے۔ حوثیوں نے انہیں ان کے گھر میں قتل کر کے رائے عامہ پر یہ ظاہر کیا کہ وہ آخری وقت میں اپنے حامیوں کو مشکل میں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ ابوحاتم کا کہنا ہے کہ تمام شواہد یہی بتا رہے ہیں کہ علی صالح کو گھر ہی میں قتل کیا گیا۔ جاری شدہ تصاویر میں ان کی نعش پر کہیں خون کے آثار نظر نہیں آئے۔ چہرے سے بھی یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ انہیں ویڈیو بنانے سے ایک دن پہلے قتل کیا گیا ہو گا۔ شناختی کارڈ گھر پر تھا ، سڑک پر نہیں۔ صالح کو دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہلاک کیا گیا۔ اس دعوے کی تاکید ان کے بیٹے احمد نے بھی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو گھر پر ہی ہلاک کیا گیا۔ دوسری روایت میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے سابق یمنی صدر علی صالح کو صنعاءسے سنجان جاتے ہوئے ناکہ بندی کرکے ہلاک کیا۔ ان کے ہمراہ نیشنل پیپلز کانگریس کے معاون سیکریٹری جنرل عارف الزوکا ، جماعتی رہنما یاسر العواضی ، میجر جنرل عبداللہ القوسی،صاحبزادہ کرنل خالد علی عبداللہ تھے۔ علی صالح کے قتل کا حکم حوثی باغیو ںکے رہنما عبدالمالک الحوثی نے جاری کیاتھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جیسے ہی علی صالح کا کاررواں الستین سے سنجان کی طرف پہنچا حوثیوں کی 20 فوجی گاڑیوںنے انکا تعاقب شروع کردیا۔ الجحشی قریہ کے قریب پہنچنے پر حوثیوں نے علی صالح اور انکی پارٹی کے رہنماﺅں کی گاڑیوں پر فائرنگ کی۔ حوثیوں نے علی صالح کو انکی گاڑی سے اتارا ا ور پھر مشین گن سے انہیں قتل کردیا۔ عارف الزوکا کو بھی قتل کردیا گیا۔ علی صالح کے بیٹے کرنل خالد کو گرفتار کرلیا گیا۔ وہ جھڑپ کے دوران زخمی ہوگئے تھے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہناہے کہ علی صالح کے کاررواں کی حفاظت کیلئے تمام انتظامات مکمل تھے۔ قبائلی جنگجو ابو شوارد اور جلیدان کے علاوہ کئی دفاعی لائنیں بھی قائم تھیں۔ علی صالح کے گھر میں مغرب تک مسلسل5گھنٹوں تک جھڑپیں ہوتی رہی تھیں۔ اچانک جلیدان اور ابو شوارد کے ماتحت اگلی دفاعی لائنوں کے لوگ کسی جواز کے بغیر پسپائی اختیار کر گئے تھے اور گھر کے اندر موجود محافظوں کو نازک پوزیشن میں چھوڑ کر نکل گئے تھے ۔ اسکے بعد حوثیوں نے مختلف قسم کے ہتھیار زبردست طریقے سے استعمال کئے۔ گھر پر گولوں کی بارش کردی۔ علی صالح کے حامیوں نے گھر کی حفاظت کیلئے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ انہوں نے گھر سے علی صالح کو گرفتار کرنے کی ہر کوشش ناکام بنادی۔ رات کے آخری پہر علی صالح اپنے محافظو ںکے ہمراہ گھر سے نکلے۔ صالح نے اپنے محافظوں کو گھر چھوڑ نے سے مطلع کردیا تھا۔ پیر کی صبح محافظوں نے علی صالح کاگھر حوثیوں کے حوالے کیا۔ سبق ویب سائٹ نے یمن کے سرگرم عناصر کی مدد سے حاصل ریکارڈنگ کے حوالے سے بتایا کہ حوثیوں نے علی صالح کو اُس قت ہلاک کیا جب وہ خودکو انکے حوالے کرچکے تھے۔ علی صالح نے حوثیوں کے قبضے سے نکل کر فرار کی کوشش کی تھی تاہم انہوں نے زیادہ دیر تک راہ فرار اختیار نہ کرسکنے پرخود کو حوثیوں کے حوالے کردیا تھا۔تیسری روایت پوسٹ مارٹم کرنے والے یمنی ڈاکٹر کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صدر صالح کی جاری کردہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں تصاویر لینے سے کم از کم 5گھنٹے پہلے قتل کیا گیا ہو گا۔ لا ش پر خون کے نشانات کا نظر نہ آنا ،جسم پر موجود خون کا خشک ہوجانا،لاش کی چادر سے دماغ کا کسی خون کے نشان کے بغیر چپکا ہوا ہونا یہی بتا رہا ہے۔ 

شیئر: