Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسرالیوں نے طعنے نہ چھوڑے، بہو نے دنیا چھوڑ دی

ساس کو اپنے بیٹے کے لئے دلہن کی فکر ہو گئی پھر نکاح کی خبر ملی 
 تسنیم امجد ۔ریا ض
ہر انسان کی دلی خوا ہش ہو تی ہے کہ اس کی شخصیت نما یا ں ہو ۔اس جذ بے کی تسکین کے لئے وہ بڑے بڑے کام کر گزر تا ہے ۔اس پر اگر حو صلہ افزائی ہو جائے تو وہ خوب سے خوب تر کی جا نب گامزن ہونے لگتا ہے ۔حو صلہ افزا ئی غلطیو ں کی ا صلاح کرتی ہے ۔
ہم سنتے آ ئے ہیں کہ عزت کرو اور عزت کراﺅ ۔کسی کی غلطی احسن طور پر بتا ئی جا سکتی ہے ۔اس طر ح دو سرے کو زیادہ بہتر طور پراحساس ہو جا ئے گا ۔مشہور ہے کہ ایک قطرہ شہد سے جتنی مکھیا ں پکڑی جا سکتی ہیں، اتنی ایک گیلن سرکے سے ہاتھ نہیںآسکتیں ۔کسی بھی صورت ا خلا ق کا دامن ہا تھ سے نہیں چھو ٹنا چا ہئے۔ہم آئے دن نت نئے تجربات سے گزرتے ہیں ۔کبھی کبھی کو ئی ایک تجر بہ دل میںیوں گھر کر جاتا ہے کہ بھلائے نہیں بھو لتا ۔آئیے !کتابِ ما ضی کے ایک اور ورق کی خوگاندگی کرتے ہیں۔
اس حقیقت سے سبھی وا قف ہیں کہ مو سم گرما کی تعطیلات پر دیسیوں کے لئے جہا ں خو شیو ں کا پیغام بن کر آتی ہیں، وہیں کچھ تفکرات بھی اپنے ہمراہ لا تی ہیں ۔خصو سی طور پر ان کے لئے جنہو ں نے چھٹی پرجا نا ہو تا ہے ۔جون کے آ خری عشرے میں فو زیہ جنید ہمارے ہا ں ڈے اسپنڈ کرنے آئیں۔ہم چھ سہیلیا ں اتفاق سے کالج کے وقت سے ایک ساتھ ہی یو نیور سٹی گئیں۔ما سٹرز کرنے کے بعد شادی ہوئی اورپھر 2 امریکہ چلی گئیںاور2مملکت آ گئیں۔ہم دو نوں اکثر ایک دوسرے کے ہا ں کا فی دیر تک رہتے۔ایسا محسوس ہوتاکہ ہم سہیلیاں نہیں بلکہ ایک دوسرے کا میکا ہیں ۔
مزید پڑھیں:زندگی ہارتے اتنے قریب سے کبھی نہیں دیکھا تھا
فو زیہ کاسسرال کا فی بڑا تھا ۔اس لئے وہ اکثر مجھ سے کہتی کہ ان کے لئے تحائف کیا لے کر جاﺅں؟اسے اس بات کی خاصی فکر ہوتی تھی ۔ ایک مرتبہ وہ کہنے لگی کہ اگلے چند روز میں جا نا ہے لیکن ابھی تک شا پنگ نہیں کر سکی ۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ شو ہر کو تنخواہ نہیں ملی ۔دوسری یہ کہ ابھی تک یہ ہی نہیں سوچ پائی کہ کس کس کے لئے کیا لینا ہے ۔ہر سال ہی ہماری سوچ کی سو ئی یہا ں اٹک جاتی ہے ۔فکر تو یہ ہے کہ جتنا بھی لے جاﺅ کو ئی خوش نہیں ہو تا ۔نہ لے جا ﺅ تو پھر بھی مشکل ۔خیر ہم دو نو ں نے لسٹ تیار کی اور شا پنگ کے لئے نکل کھڑے ہو ئے ۔دو دن میں سب تیاری مکمل ہو گئی۔وہ بہت خوش تھی کہ میرے تعاون سے سب کچھ جلدی ہو گیا ۔
اسے وطن گئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھاکہ صبح صبح فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے آواز آئی کہ فو زیہ جنید آئی سی یو میں ہیں۔دعا کریں۔میں ان کی بھا بی بول رہی ہو ں۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کسی ٹینشن کی وجہ سے بےہو شی ہے ،برین ہیمرج کا خطرہ ہے ۔شام تک فون پر ان کی خیریت دریافت کرتے رہے، آ خر رات ایک بجے خبر ملی کہ فو زیہ ہم سب کو چھوڑ کر ہر ٹینشن سے آزاد ہو کر اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئی ہے۔
فوزیہ کی بھا بی رو رو کر تفصیل بتانے لگیں۔بو لیں کہ جس دن سے وہ یہا ں آئی تھیں کچھ عجیب ٹینشن میں تھیں۔ہمارے پو چھنے پر ان کی آ نکھیں بھرآتیں۔بتا تیں کچھ نہیں تھیں۔ہم ابھی ادھر جا رہے ہیں،دیکھو کیا معلوم ہو تا ہے ؟
کچھ دن تو بات نہ ہوئی پھر ایک دن فون آیا کہ اسکائیپ پر بات کرتے ہیں ۔اس کی بھا بی بو لیں کہ آخر سسرال والوں کی جلی کٹی نے ان کی جان لے لی ۔پہلے ہی دن انہیں سننا پڑا کہ آپ کو ابھی تک ہماری پسند معلوم نہیں ہوسکی ۔ہمیں کو نسے رنگ پسند ہیں ۔دل سے کیا کریں شاپنگ ۔پھر ان کے ہاتھ میں ایک لمبی فہرست تھماتے ہوئے کہا کہ گھر میں یہ سب کچھ تبدیل ہونے والا ہے جس میں فر نیچر کے علاوہ پینٹ بھی شامل تھا ۔بھابی ایک تو اس ما یو سی میں تھیں کہ وہ کسی کو خوش نہیں کر سکیں اور دوسرا کام کا بوجھ اور وقت کم ۔ایک ماہ تو ویسے ہی گزر جاتاہے ۔انہو ں نے آخری بار فون پر یہ کہا تھا ۔
مزید پڑھیں:سوکن، ایسی ہستیاں جو 2سے کم نہیں ہو سکتیں
فو زیہ چلی گئی ۔چند دن بعد گھر کے حا لات نارمل ہو گئے۔جنید صا حب کو بچوں کی فکر ہو ئی کہ اب ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ساس نندو ں کو بیٹے ،بھائی کی فکر ہوئی کہ اس کا خیال کون رکھے گا۔واپسی سے پہلے ان کے لئے دلہن کی فکر ہو گئی ۔پھر نکاح کی خبر ملی اور ہمیں یو ں لگاکہ :
وہ منزلیں بھی کھو گئیں 
وہ راستے بھی کھو گئے 
جو آشنا سے لوگ تھے 
وہ اجنبی سے ہو گئے 
چراغ تھے کہ بجھ گئے
نصیب تھے کہ سو گئے 
یہ پو چھتے ہیں را ستے 
رکے ہو کس کے وا سطے
اکثر گھرانے کم و بیش ایسے ہی حالات سے دو چار ہیں۔نکتہ چینی سے کسی پر کیا گزرتی ہے ،یہ کو ئی نہیں سو چتا ۔خود غر ضی نے سو چو ں کے دا ئرے تنگ کر دئیے ہیں جس سے خا ندانی رنجشو ں میں ا ضا فہ اور تو ڑ پھو ڑ ،جینا مشکل کر دیتی ہے ۔کاش ہم دوسروں کو تکلیف دیتے ہوئے یہ احساس کر یں کہ نکتہ چینی ایک ایسی چنگا ری ہے جو اندر ہی اندر سب کچھ راکھ کر ڈالتی ہے ۔دوسروں کی محبت اور لگن کو اشیاءو پیسے سے نہیں تو لنا چاہئے۔بد قسمتی سے خوا تین عیب تلاش کرنے میں مہا رت رکھتی ہیں۔نفسیات محبت کی متقا ضی ہے ۔ہر انسان اندرسے بالکل بچے کی مانند ہو تا ہے جیسے وہ ذرا سی چو ٹ بار بار دکھا کر تو جہ چا ہتا ہے ۔ہمارے ہا ں لین دین کی بڑ ھتی خواہشو ں سے جان چھڑانا ضروری ہے ۔ہم خود کو جدید دنیا کے باسی ثابت کرنے میں ایڑ ی چو ٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن ہماری سوچ کی سو ئی وہیں اٹکی ہوئی ہے۔خا ندا نی استحکام میں خواتین کی ذمہ داریا ں زیا دہ ہیں ۔بد قسمتی سے ہم بظاہر تو بد لے نظر آتے ہیں لیکن بر سو ں قبل کے ما حول کی چھاپ کو بدل نہیں سکے۔ وہی لین دین ،ساس بہو ،جہیز اور معا شرتی تفریق ہمارے دل و دماغ پر سوار ہے ۔کاش کسی کی بیٹی کو بھی وہی مقام دیا جائے جس کی وہ حقدارہے ۔اسے اس احساس سے نکا لا جائے کہ اس کا ” بہتے پا نی پہ مکان ہے۔“
 

شیئر: