Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وحدت اور ومساوات ، نبی رحمتﷺ کا انقلاب آفریں کارنامہ

 آں حضور نے قبیلوں اورخاندانوں میں منقسم عربوں کو ایسی دعوت دی جس میں رنگ ونسل اور نسب وحسب کے امتیاز کی گنجائش نہیں تھی
   
* * *  مولانا شفیق احمد قاسمی۔ ابوظبی* * *
سرور کائنات، فخرموجودات، رحمت عالم، ہادی اعظم محمد عربی کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مبارکہ کا ایک انقلاب آفریں کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ایمان وتوحید اورآسمانی دستور وقانون کی بنیاد پر قائم ایک ایسا صالح اور جامع معاشرہ تشکیل فرمایا جس کا ہر فرد بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوچکا تھا اور دشمنانِ اسلام کے سامنے اسلامی وحدت ومساوات کی ایک ایسی چٹان کھڑی ہوگئی تھی، جس کے مضبوط پتھروں سے ٹکراکر معاندینِ اسلام پاش پاش ہوتے گئے اور بہت قلیل مدت میں وہ سبھی طاغوتی اور فرعونی طاقتیں جو قصر اسلام کو منہدم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی تھیں، نیست ونابود ہوکر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں اور تاریخ کے اوراق پر صرف ان عبرت ناک انجام کی داستان باقی رہ گئی کہ دنیا میں کبھی روم وفارس کی 2زبردست سلطنتیں پائی جاتی تھیں جن کی قوت وطاقت کے ڈنکے بجتے تھے اور شوکت وسطوت کے پھریرے اڑتے تھے اور اقوامِ عالم ان کے زیر نگیں تھیں۔
          سیرۃ النبی کے اس انقلابی پہلو نے دانشورانِ یورپ وامریکہ اور مفکرانِ ہندوچین کو ششدرکررکھا ہے کہ آخر کیونکر ایک عرب نژاد اُمّی نے عربوں کے متحارب ومتصادم قبائل کو جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہا کرتے تھے اور قبائلی نخوت اور خاندانی تفاخر کو اپنا آبائی ورثہ گمان کرتے تھے ایک پرچم تلے ایک عقیدہ ونظریہ پر متحد کرکے قوت واستقامت کا پیکر بنادیا اور ان کی صدیوں پرانی تقلیدی روایات  قَدْوَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا  کو اسلامی نظریۂ  توحید میں بدل دیا، یہاں تک کہ جو عرب اپنی ذاتی خواہشات، قبائلی روایات اور خاندانی امتیازات کے تابع ہوکر برسوں لڑتے مرتے اور کٹتے رہتے تھے، وہ اللہ کے لیے جینے اور مرنے لگے اور تمام امتیاز وتفاوت کو ترک کرکے انسانی مساوات اور اسلامی وحدت کا اعلیٰ ترین نمونہ بن گئے اور ایک ایسی آندھی بن کر آگے بڑھے کہ اسکے سامنے قیصر وکسریٰ بھی  ہَبَائً مَنْثُوْرًا (بکھرے ذرات) ہوکر اڑگئے اور افریقہ واندلس، چین وسندھ کے دوردراز علاقوں تک اسلامی پرچم لہرانے لگا اور فضائے کائنات میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی ہمہ دم صدائیں گونجنے لگیں۔
    وحدت ومساوات کا پہلا منظر:
          آج ہم کو رسولِ کامل کی سیرتِ مبارکہ کے اسی پہلو پر غور کرنا ہے کہ آپنے مسلمانوں کو شرعی قوانین واحکام کا پابند بنانے سے پہلے ان کے درمیان سب سے پہلے وحدت ومساوات پیدا کرنے پر کیوں اتنا زور دیا، آپ نے کوہِ صفا سے جو اعلا کامیابی وکامرانی نشر فرمایا تھا، اس میں تمام لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: یَاایُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہْ تُفْلِحْوْا ’’اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔
     آپ کاروئے سخن سردارِ قریش کی طرف تھا اور غلامانِ عرب کی جانب بھی آپنے اپنے اعلان میں امیہ بن خلف کو بھی مخاطب کیاتھا اور بلالِ حبشی کو بھی پیغام دیا تھا۔ آپ نے مردوں کو مخاطب فرمایا تھا اور عورتوں کو بھی شامل کیا تھا۔ آپ نے جوانوں کو بھی دعوت دی تھی اور بچوں کو بھی پکارا تھا، یہ پہلا اعلانِ حق جو سرعام کیاگیا تھا رسولِ کائناتکے دعوتی مشن کی ہمہ گیری اورآ پ کی رحمۃ للعالمینی کا اظہار تھا۔
     اسی کے ساتھ اس دعوت کو اول اول جن لوگوں نے قبول کیا اور انسانی مساوات کا پہلا نمونہ دنیا کے سامنے آیا ان افراد میں ابوبکر صدیقؓ  آزاد وسردار تھے، تو حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ آزاد ومالدار تھیں۔حضرت زیدؓ بن حارثہ غلام تھے، تو حضرت علیؓ بن طالب بچے تھے۔اس کے بعد ایک جماعت آئی جن میں یاسروسمیہ اور عمار وخباب بن ارت، بلال حبشی رضی اللہ عنہم جیسے نادار وکمزور اور غلام افراد تھے، تو طلحہ بن عبیداللہ، عثمان بن عفان، ابوعبیدہ بن الجراح، عبدالرحمن بن عوف، حمزہ بن عبدالمطلب، زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے آزاد اصحابِ ثروت اور خوش حال تجار تھے، پھر بہت تیزی سے مکہ کے کمزروں، غلاموں، سنجیدہ وباوقار آزاد لوگوں میں اسلام اپنی جگہ بنانے لگا۔ جو بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا تمام مشرکانہ جاہلی رسومات وعادات کو توڑ کر ملتِ واحدہ کے سمندر کا حصہ بن جاتا تھا۔
    زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ عمر بن خطاب جیسا جری و بے باک نوجوان بھی حلقۂ بگوشانِ اسلام ہوگیا۔ حضرت عمرؓ  کا قبولِ اسلام، ایک نئی طاقت ثابت ہوا۔ ابوجہل کے تمرد وسرکشی اور عناد کا صحیح جواب سیدنا عمرؓ ہی تھے، آپ نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ مسلمانوں کو خوف وہراس کے ماحول سے نکالا۔عرض کیا: یا رسول اللہ !اگر ہم حق پر اور مشرکین باطل پر ہیں تو پھر حق دب کر چھپ کر رہے اور باطل آزاد پھرے، کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم کھلم کھلا حرمِ پاک میں نمازیں ادا کریں گے ۔
    اور اُس وقت مشرکینِ مکہ نے اسلامی وحدت اورانسانی مساوات کا دلآویز نظارہ دیکھا کہ ابوبکر صدیق وعمر فاروق، حمزہ وطلحہ کے قدم بقدم شانہ بشانہ عمار ویاسر اور بلال، صہیب وزید بن حارثہ رضی اللہ عنہم حرم شریف میں داخل ہوتے ہیں، ایک ساتھ ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں، ایک ساتھ رکوع وسجدہ کرتے ہیں ۔یہ رسولِ کائناتکے عالم گیر انقلاب ومساوات کا نقشِ اولیں تھا۔ ابھی اس انقلاب کو وسیع سے وسیع تر ہوکر پوری دنیا میں عام ہونا تھا، مکہ کی سنگلاخ زمین کے سنگ دل باشندوں میں تحریک وحدت ومساوات کی یہ کامیابی ابھی رسول اللہکے بین الاقوامی مشن دعوت وہدایت کی ابتداء تھی۔
    انسانی مساوات کی بنیاد:
          آں حضور نے گروپوں، فرقوں، قبیلوں، خاندانوں میں منقسم عربوں کو ایک ایسی دعوت دی تھی جس میں رنگ ونسل اور نسب وحسب پر تفاخر، اور قبیلہ وخاندان کے امتیاز و تفوق کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ سب کو انسانی مساوات کا درس دیا جارہا تھا کہ تمام لوگ سیدنا آدم  علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرتِ آدم ؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ وپرہیزگاری کے ذریعہ، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: اَلنَّاسُ بَنُوا آدمَ وَآدمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ لاَفَضْلَ لِعَرَبِیٍ عَلیٰ عَجَمِیٍّ الاّ بِالتَّقْویٰ (ترمذی)۔
     ایک دوسری حدیث میں مزید وسعت کے ساتھ فرمایا:
         ’’تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے بنے تھے کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری وفضیلت حاصل نہیں اگر فضیلت ہے تو تقویٰ وپرہیزگاری سے۔‘‘(مشکوٰۃ ، زاد المعاد )۔
    خالقِ کائنات نے اس دنیا کو ایک جان سے آباد کرکے اس کی نسل درنسل اولاد کو ہر جگہ آباد کیا ان میں تعارف وتعاون اور قرابت کے لیے خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا، مختلف خطوں کے افراد واشخاص کے رنگ وروپ میں فرق رکھا ؛ اس لیے کہ ان سب کی حقیقت نسل وتولید کے اعتبار سے اس باپ سے ہے جو مٹی سے بنائے گئے اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو الگ الگ رنگ وخاصیت کا بنایا ہے، کہیں کی مٹی سیاہ ہے تو کسی علاقہ کی مٹی سرخ ہے، کسی مقام کی مٹی زرد ہے، تو کسی جگہ کی مٹی سفیدی مائل ہے، کوئی مٹی سخت ہے تو کوئی بھربھری، ان سب کے مجموعہ اور خمیر سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اس نکتہ وحکمت کو رسولِ حکمت وموعظت، رحمت عالمنے ایک جملہ ’’وَآدمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ‘‘ سے بیان فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
          ’’اے لوگو! تم اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی (حوا) کو پیدا کیا اور ان دونوں (کے اختلاط) سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطہ سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتہ داریوں (کو قطع کرنے) سے ڈرو، بیشک اللہ تم سب پر نگراں ہیں۔‘‘( النساء1)۔
          ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک نر اور مادہ (آدم وحوا علیہم السلام) سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قوموں اور خاندانوں میں بنایا؛ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، یقینا اللہ کے نزدیک تم سب میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔‘‘( الحجرات13)۔
    عہدِفساد میں اعلانِ مساوات:
          رسولِ عربی نبی امی صلوات اللہ علیہ وسلامہ نے فرمایا: الرَّبْ واحدہ والا ب واحدہ کہ پروردگار بھی ایک ہے اور باپ بھی سب کے ایک ہیں) کی بنیاد پر انسانی وحدت ومساوات کا اصول وقاعدہ اس تاریک ترین اور پرآشوب دور میں عطا کیاتھا، جس کو رب العالمین نے عہدِ فساد سے تعبیر فرمایا ہے، اس فسادِ عام کے سبب امنِ عالم مفقود اور انسان امن وانصاف سے محروم تھا، ایک رب کو چھوڑ کر ہزاروں معبود کی پرستش ہونے اور ایک باپ کی حقیقت کو فراموش کرکے مختلف طبقوں میں بٹنے کی وجہ سے اونچ نیچ کا طبقاتی نظام رائج ہوگیا تھا؛ لہٰذا ہر طرف انتشار، بدامنی، انارکی، درندگی پھیلی تھی۔
     حضرت مفتی محمد ظفیرالدین صاحب، سابق مفتی دارالعلوم دیوبند اس تاریک دور پر اس انداز سے روشنی ڈالتے ہیں:
          ’’بعثتِ نبوی سے پہلے دنیا ظلمت وضلالت کے سمندر میں غرق تھی، چھٹی صدی عیسوی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے جس میں انسانیت دم توڑچکی تھی۔ انسانوں کی بستی تھی، مگر انسانی مجدوشرف سے تہی دامن ہوچکی تھی۔ انسان اپنی ہی خود ساختہ غلط بنیادوں پر بے شمار ٹولیوں میں بٹا ہوا تھا، جس طرح سب نے الگ الگ اپنا خدا گھڑ رکھا تھا، اسی طرح ہر ایک نے اپنے اپنے قبیلہ کی حکومت بھی علیحدہ بنارکھی تھی۔ عرب میں لڑائی عموماً قبیلہ کے نام پر ہوا کرتی تھی پھر اس کا سلسلہ برسہا برس چلتا تھا، مختصر یہ کہ پورا ملک خونریزی، غارت گری، سفاکی اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ پھر بیرونِ عرب یہ حقائق تھے کہ آریوں نے طاقت پاکر غیرآریوں کو پامال کیا، برہمنوں اور چھتریوں نے شودروں کو غلام بنایا، رومیوں نے افریقیوں پر غلبہ پاکر ان کو معاف نہیں کیا، یونانیوں نے ایرانیوں کو کمزور پاکر خونریزی کی، گاتھ اور گال نے بھی یہی کیا۔ فرعونِ مصر نے خدائی کا دعویٰ کرکے کونسا ظلم ہے جو نہیں ڈھایا اور آج بھی یورپ نسلی منافرت کے دام میں گھرا ہوا ہے ، کالے گورے کے عفریت وہاں زندہ ہیں۔یہ تاریخی شہادتیں ہیں کہ انسان ان خرافات میں مبتلاء ہوکر امن وامان کھوچکا تھا اورانسانی جان کی قدر وقیمت بھول چکا تھا، اسلام نے ضروری سمجھا کہ ان کے نظریہ میں مکمل انقلاب برپا کیا جائے اور انسانی رشتے مضبوط کیے جائیں؛ تاکہ انسانی خون کی قدر وقیمت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہو۔ انسانی عزت وکرامت اجاگر ہو اور انسانی ملکیت کا احترام دلوں میں قائم ہوجائے۔ ‘‘ (اسلام کا نظامِ امن)۔
          رومیوں کے بارے میں مفکرِ اسلام مولانا علی میاں ندویؒ  ’’انسائیکلوپیڈیا آف برناٹیکا‘‘ کے مصنف کا اقتباس نقل کرتے ہیں:
          ’’روم کی مشرقی ریاست میں اجتماعی بدنظمی انتہا کو پہنچ گئی تھی، باوجود اس کے عام رعایا بے شمار مصائب کا شکار تھی، ٹیکس اورمحصول دوگنے چوگنے بڑھ گئے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ملک کے باشندے حکومت سے نالاں تھے اور اپنے ملک کے حکمرانوں پر بدیسی حکومتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ اجارہ داریاں اور ضبطیاں مصیبت بالائے مصیبت تھیں، ان اسباب کی بنا پر بڑے پیمانہ پر فسادات اور بغاوتیں رونماہوئیں؛ چنانچہ532ھ کے فساد میں30ہزار افراد دارالسلطنت میں ہلاک ہوئے۔‘‘ (مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر )۔
          اور ایران کے حالات کے بارے میں ایران بہ عہد ساسان کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
          ’’اونچ نیچ کا فرق، طبقوں کا تفاوت اور پیشوں کی تقسیم، ایرانی سوسائٹی اور نظامِ زندگی کا اٹل قانون تھا، جس میں ردوبدل ممکن نہیں تھا۔‘‘ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر)۔
          اور ہندوستان کے طبقاتی نظام کے بارے میں مَنوسمرتی کے حوالے سے مورخِ اسلام اکبرشاہ نجیب آبادیؒ ’’نظامِ سلطنت‘‘ میں رقم طراز ہیں:
          ’’دنیا میں برہمن سب سے افضل ہے برہمن دھرم کی مورت، نجات کا مستحق، دھرم کا محافظ ہے دنیا میں جو کچھ ہے برہمنوں کے لیے ہے برہمن کا کام وید پڑھنا، دان لینا، چھتری کا کام رعایا کی حفاظت کرنا، دان دینا، ویش کا کام ہے چوپایوں کی حفاظت کرنا، تجارت وکھیتی کرنا اور شودر کا کام ہے مذکورہ بالا تینوں کی خدمت کرنا۔ برہمن کا حق ہے کہ وہ غلام شودر سے دولت چھین لے اگر کوئی شودر کسی کا نام لے کر بلند آواز سے کہے تو فلاں برہمن سے نیچ ہے، اس کے منھ میں گرم آہنی سیخ ڈال دی جائے۔‘‘
          اس جیسے غیرانسانی وغیر فطری ظالمانہ دستور و قانون کا ملغوبہ ہے منوسمرتی جس کے مصنف منومہاراج ہیں، طبقاتی نظام کے باعث فتنہ وفساد، ظلم و ستم کا ایک تاریک ترین بھیانک دور تھا۔
    اصولِ وحدت ومساوات:
          محمد عربی نے ایسے عہد فساد اور دورفتن میں انسانی مساوات اور وحدت کا جو پیغام نشر کیاتھا، اس کا اصول و دستور انسانی فکر وخیال کو نہیں بنایابلکہ خالقِ کائنات کے عطا کردہ دستور وضابطہ قرآن مجید کو بنایا، اس لیے کہ وہی ایک ایسا اصول وضابطہ ہے جو انسانی فطرت کی مکمل رعایت کرتا ہے، اگر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو اصول مان لیا جائے تو اختلاف فکر کا پایاجانا لازم ہے کیونکہ ہر آدمی کی اپنی سوچ اور فکر ہوتی ہے، نظریات وخیالات میں فرق ہوتا ہے اور اسی سبب سے اختلاف پیدا ہوتا ہے، دنیا میں جو بھی فساد عقیدہ اور فساد اخلاق تھا، انسان کے کسی خودساختہ اصولوں کے باعث تھا۔ مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحیؒ  کتاب کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں:
          ’’یہ سب جانتے ہیں کہ اسلام کا مکمل آئینِ زندگی دنیا میں اس وقت آیا تھا، جب دنیا بربادی کے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکی تھی، انسان اپنی انسانیت کھوچکا تھا اور پوری دنیا سے امن وامان کا نام حرفِ غلط کی طرح مٹ چکا تھا۔پیغمبرِ اسلامنے اس نازک موقع پر انسانوں کی جس طرح رہنمائی کی اور انسانیت کے تنِ مردہ میں جس خوبی سے جان ڈالی وہ تاریخ کا ایک تابناک باب ہے اور یہ کیوں نہ ہوتا؛ جبکہ خود رب العالمین کی نگرانی میں یہ سب کچھ ہورہا تھا، خالق سے بڑھ کو مخلوقات اور کائنات انسانی کا جاننے والا اوراس کی نفسیات سے واقف دوسرا کون ہوسکتا ہے؟ جس کی نگاہ میں پوری کائنات کا ایک ایک ذرہ ہوتا ہے۔ اگر تاریخ کو سامنے رکھ کر تجزیہ کریں گے تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ امن وامان کو جو چیز تباہ کرتی ہے، وہ انسان کی تنگ نظری ہے کوئی مذہب کے نام پر تلوار اٹھاتا ہے، کوئی رنگ ونسل کے نام پر معرکہ آرائی کے لیے میدانِ کارزار گرم کرتا ہے، کوئی وطن اور ملکی حدود کے تعصب میں مبتلاء ہوکر انسانی خون سے ہولی کھیلتا ہے۔
          اس لیے سب کور نگ ونسل وطن وعلاقہ، خاندان وقبیلہ، عرب وعجم، روم وفارس، ہندو چین کے نسلی، خاندانی، علاقائی محدود دائرہ سے نکال کر اخوت و وحدت کی لڑی میں پرونا اور ایک فکر وعقیدہ پر ایک صف میں شانہ بشانہ کھڑا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی شکل میں فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ آسمانی دستور نازل فرمایا اوراس کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا، قرآنی دستور چونکہ خالقِ کائنات کا وضع کردہ ہے؛ اس لیے اس میں کسی قسم کے تغیروتبدل کا امکان نہیں، وہ زمانہ کے گذرنے سے نہ فرسودہ ہوگا، نہ اس کی تازگی اور اثر آفرینی میں مرورِ زمانہ سے فرق آئے گا، اللہ رب العزت نے اسی ابدی دستور کو اساس بناکر مسلمانوں سے ملّی واسلامی اتحاد قائم کرنے اور تفرقہ بازی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، نیز عربوں کی قدیم عداوت ونفرت اور آپسی اختلافات کا تذکرہ فرماکر اپنے انعام واحسان کو یاد دلایا ہے کہ ہم نے تم کو کس طرح ایک اصول وضابطہ کے تحت بھائی بھائی بنادیا۔(اسلام کا نظامِ امن)۔
(جاری ہے)

شیئر: