Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمومی اور خصوصی توفی میں کیا فرق ہے؟

 
مفردات آیت آل عمران یا آیت توفی عیسیٰؑ سے ثابت ہواکہ انکی توفی کے ساتھ توفی اماتہ یعنی موت دینا جمع نہیں ہوسکتے
* *  ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ * *
گزشتہ سے پیوستہ

قارئین کرام!گزشتہ قسط میںسورہ آل عمران، آیت55 میں اللہ تعالیٰ کے خطاب کے ضمن میں 4امور پر بات کی گئی تھی، باقی امور پیش خدمت ہیں:

    خامساً:     آیت توفی عیسیٰؑ میں موت کے کسی قرینے کا ذکر نہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی توفی کو ان کے اماتہ یعنی موت پر حمل کرنا ممکن ہو۔
    سادساً:     حضرت عیسیٰؑ کی توفی کی آیت میں رات اور نیند یا منام وغیرہ کا بھی کوئی قرینہ نہیں کہ ان کی توفی کو انامہ یعنی توفی نوم پر حمل کرنا ممکن ہو۔
    سابعاً:     توفی عیسیٰؑ کیساتھ کسی بھی قرینہ کا ذکر نہ ہونا اِس امر کی پختہ دلیل ہے کہ اسے اسکے معنیٰ وضعی قبض تام پر ہی حمل کیا جائے ۔
    ثامناً:    توفی  عیسیٰؑ کے ساتھ سورہ آل عمران کی مذکورہ آیت میں’’ رافعک ‘‘اور’’ مطہرک‘‘ اور’’ جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا‘‘ آیا ہے ۔ یہ تمام امور توفی عیسیٰؑ  کے ساتھ خاص ہیں۔
    تاسعاً:    توفی عیسیٰؑ  بغیر قرینہ موت اور نوم کے صرف قبض تام کیلئے متعین ہے جو ایک عام مفہوم ہے اور   رافعک   اس کی نوع کو متعین کرتاہے کہ یہ توفی توفئ رفع ہے۔
    اب مجموع کلام کا معنیٰ یہ ہوا کہ : اے عیسیٰ! اللہ تعالیٰ تمہارا قبض تام فرمانے والا ہے، ساتھ ہی تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہے، …یہ اس لئے کہ تمہاری حفاظت ہو اور تمہاری تمہارے دشمنوں سے خلاصی ہو اور جنہوں نے تیرے ساتھ مکر کیا کہ تمہیں قتل اور صلب کرنا چاہتے تھے ، ان سے تمہاری حفاظت فرماکر اللہ تعالیٰ جو خیر الماکرین ہے تمہاری ان سے تطہیر کرنے والا ہے ۔ اور باری تعالیٰ کا یہ ارشاد(وما قتلوہ وما صلبوہ ) اور یہ ارشاد (بل رفعہ اللہ الیہ)نے اس امر کی تصریح فرمادی کہ وہ انہیں نہ قتل کرسکے نہ سولی پر چڑھاسکے  بلکہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا اور یہی خیر الماکرین کی قدرت کا بہترین مظہر ہے ۔
    نوٹ: سلف میں جس نے بھی آیت آل عمران میں توفی عیسیٰؑ کو اماتہ پر حمل کیا اور ’’متوفیک‘‘ کامعنیٰ  ’’ ممیتک‘‘ کیا ہے ۔انہوں نے قرینۂ موت کو مقدر مانا ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے آپؑ کو اتارنے اور اجل آنے کے بعد یہ ہوگا ،تو یوں رفع عیسیٰؑ ،حیات عیسیٰؑ اور نزول عیسیٰؑ سبھی ثابت ہوگئے اور جس نے توفی عیسیٰؑ کو’’ انامہ‘‘ پر حمل کیا ہے اس نے’’ حالۃ الرفع الی السماء‘ ‘کی قید لگائی کہ ان کے رفع سماوی کے اللہ تعالیٰ نے انہیں سلادیا ، تاکہ وہ راستے کے خطرات کو نہ دیکھ سکیں ۔ تو یوں حضرت عیسیٰؑ کا رفع اور حیات ہر دو قرآن کریم سے ثابت ہوگئے۔
    آیت آل عمران اور توفی عیسیٰؑ میں وارد کلمات مندرجہ ذیل ہیں:    «  ’’یاعیسیٰ ‘‘۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے خطاب خاص ہے۔
    «  ’’انی‘‘۔ متکلم اللہ تعالیٰ ہیں۔
    «   ’’متوفٍ‘‘۔ اس کا معنیٰ ہے بتمام قبضے میں لینے والا۔
    «   ’’ک‘‘۔ اے عیسیٰ !تم علی وجہ التمام مقبوض ہو (صرف روح نہیں )۔
    «   ’’رافع‘‘۔نیچے سے اوپر اٹھانے والا۔
    «  ’’ک‘‘۔ اے عیسیٰ تم مرفوع ہو ( صرف روح نہیں )۔
    «  ’’مطہر‘‘۔  تطہیر کرنے والا۔
    «  ’’ک‘‘۔اے عیسیٰ تم مطہر ہو (صرف روح نہیں)۔
    «  ’’من الذین کفروا‘‘۔ تمہاری کفار سے تطہیر کرنے والا ہوں (ان کی تہمتوں سے نہیں)۔
    مجموعہ کلام اس امر پر دال ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ خبر دے رہے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتمام قبضہ کرنے والے ہیں اور مقبوض بتمام قبضہ میں آنے والا  مخاطب شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں (محض ان کی روح نہیں ) اور اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھانے والا ہے ۔تو مرفوع حضرت عیسیٰؑ ہیں اور اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تطہیر کرنے والے ہیں اور مطہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
    اس ارشاد ربانی  کے مطابق مخاطب، حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ مقبوض اور مرفوع اور مطہر ہیں کفار سے ۔
    آیت آل عمران اپنے ظاہری معنیٰ میں ان امور پر نص ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے توفی ، رفع اور تطہیر کو جمع فرمایا ہے لہذا آیت مبارکہ میں وارد ان مفردات وتراکیب کی روشنی میں ہم کہتے ہیں :
    اولاً :    یہ لازمی امر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی جو ان کیلئے مخصوص خطاب میں مذکور ہے ، اسے عام بشریت کی توفی  سے غیر پر ہی حمل کیا جائے۔
    ثانیاً:    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی صرف انہی کے ساتھ خاص ہو ،عمومی بشر کو عام نہ ہو۔تو اُن کی توفی ، اللہ تعالیٰ کا ان کو بتمام قبضہ میں لینا، انہیں اپنی طرف اٹھانا اور ان کی ان کے منکرین سے تطہیر  ہے ۔توفی کی اس قسم کو’’ توفی رفع‘‘ کہتے ہیں۔
    ثالثاً:    اس توفی کو ان کے مارنے پر حمل کرنا جبکہ ان کے دشمن بھی انہیں مارنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ انہیںبچانا چاہتے تھے۔ عقلاً ونقلاً درست نہیں کہ وہاں پر قرآن میں نہ تو’’ حین الموت‘‘ ہے نہ امساک ہے ۔ پھراس ماحول میں خیر الماکرین کی توفی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے دشمنوں سے خلاصی دلانا اور انہیں بچانا ہے اور وہ ان کا رفع ہی ہوسکتی ہے (ہاں ان کے نزول کے بعد ان کی اجل کے وقت کی اور توفی ہوگی، پھر کلام میں تقدیم وتاخیر ہوگی)۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی ان کا انامہ(سلانا) نہیں کہ اس کیلئے قرینہ لیل ونوم ذکر نہیں ، نہ فی المنام ہے نہ  یُرسل ہے ۔تو یہ’’ توفی نوم‘‘ بھی نہیں ہوسکتی۔
    رابعاً:    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو ان کے روحانی رفع پر حمل کرنا دو  وجہ سے درست نہیں : اولاً: رفع کو اصل  وضعی معنیٰ سے پھیرنے کا قرینہ نہیں ہے۔ثانیاً: رفع تو اس شخص کا ہوا  جو بتمام مقبوض ہوا ۔ اور رفع روحی رفع جزئی ہوتاہے رفع بتمام  جزئی رفع نہیں ہوتا ۔اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا روحانی طورپر رفع کہیں گے تو یہ جزئی رفع ہوگا ،مرفوع اور مقبوض (بتمام قبضہ میں ) نہ ہوا۔
    خامساً:    جزوی رفع (روحانی رفع) حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کے خواص میں سے نہیں یہ تمام انبیاء  اور صالحین کے ارواح کو عام ہیں ،ان تمام حضرات کی روحیں مرفوع ہوتی ہیں ۔تو یہ خصوصی خطاب ربانی  (معاذ اللہ ) لغو ہوگا اور اس کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔
    سادساً:    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تطہیر روحی ان کے دشمنوں کی تہمتوں سے ۔یہ بھی دو  وجہ سے باطل ہے ۔اولاً: تطہیر من الاعداء کو تطہیر تہم کی طرف صرف کرنے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ثانیا: تطہیر روحانی جزوی طورپر تطہیر ہوتی ہے اور قرآن کریم میں مطہر بتمام مقبوض ہے  اور تہمتوں سے مطہر جزوی طورپر مطہر ہوتاہے اور وہ بتمام مقبوض ومطہر نہ ہوگا۔
    سابعاً:    جزوی مطہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کی خصوصیت نہ رہے گی کہ انبیاء کی ارواح مطہر ہوتی ہیں ۔تو قرآنی خطاب خاص(معاذ اللہ) لغو ٹھہرے گا اور اس کی کوئی قیمت نہ رہے گی۔
    ثامناً:    قرآنی کلمہ (توفی) (رفع) اور(تطہیر) ہر دو کو جزوی رفع اور جزوی تطہیر پر حمل کرنے سے مانع ہے۔
    آیت آل عمران اور زمر میں مذکور توفیوں میں وجوہ جمع:
    آیت آل عمران جس میں حضرت عیسیٰؑ کی خاص توفی کا ذکر ہے اور آیت زمر جس میں عموم بشر کی توفی کا ذکر ہے ۔ یہ دونوں توفیاں کن مقامات پر جمع ہوسکتی ہیں اور کن میں مختلف ہیں؟سورہ زمر میں باری تعالیٰ نے عمومی بشر کی توفی کی 2قسم کو بیان فرمایا ہے، اور وہ ہیں:
    1۔توفی اماتہ:   متوفی کو مارنا۔  2۔توفی انامہ:   متوفی کو سلادینا۔
    اور ہر ایک کو اس کے قرائن کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔
    سورہ آل عمران میں جس توفی کا ذکر ہے اس میں نہ موت کا قرینہ پایا جاتاہے اور نہ نیند کا مگر حرف عطف کے ساتھ قطعی طورپر 3 امور کے جمع ہونے کا ذکر موجود ہے ،اور وہ ہیں :
     1۔توفی۔2۔رفع۔3۔تطہیر۔
    ہم اب تأمل کرتے ہیں کہ ہر دو نوع والی عموم بشر کی توفی ،’’اماتہ‘‘ اور’’ انامہ‘‘ آل عمران کی خصوصی عیسوی توفی کے ساتھ کہاں کہاں جمع نہیں ہوسکتیں اور کہاں کہاں جمع ہوسکتی ہیں ؟
    حقیقت صاف طورپر نظر آرہی ہے کہ سورہ زمر والی آیت میں مذکور توفی موت ، آل عمران میں مذکور توفی عیسوی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی کیونکہ عیسوی توفی میں وارد آیت قرآنی میں:  *عیسیٰ متوفی بھی ہے*  مرفوع بھی ہے*  اور مطہر بھی ہے ۔
    نص قرآنی پکار رہی ہے کہ عیسوی توفی کے 3 خصائص ہیں : وہ متوفی ہے۔وہ مرفوع ہے ۔وہ مطہر ہے۔
    اگر عیسیٰؑ زندہ نہ ہوتے ( جسکا مطلب ہے کہ انکی روح جسد سے جدا ہو) تو فقط روحانی رفع والا بتمام مقبوض نہیں ہوتا ۔ ایسے ہی صر  ف تہمتوں سے پاک ہونیوالا بتمام مقبوض نہیںہوتا لہذا عیسوی توفی میں وارد لفظ متوفی (بتمام قبضہ میں لینے والا) اس امر کا تقاضا کرتاہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روح انکے جسد سے جدا نہ ہو، تاکہ مرفوع اور مطہر بتمام مقبوض ہو اور انکی یہ خبر جھوٹی نہیں ہوسکتی ۔ جب قرآن نے انہیں بتما م مقبوض فرمایا ہے تو ان کا کامل رفع اور کامل تطہیر کا معنیٰ ہے کہ انکا جسم سمیت رفع ہوا ، انکی کفار سے جسم وروح سمیت تطہیر بھی ہوئی ہے۔
    لہذا ہم کہتے ہیں :آل عمران والی عیسوی توفی میں’’ متوفی‘‘ کیلئے اس کا رفع اور اس کی تطہیر جمع کی گئی ہے جو اس امر کو مانع ہے کہ اس’’ متوفی‘‘ کی مکر یہود کے وقت موت واقع ہوکیونکہ فقط روحانی مرفوع  یا فقط تہمتوں سے پاک پورے طورپر قبضہ میں نہیں ہوتا ۔
    الحاصل سورہ زمر سے توفی اماتہ (متوفی کو ماردینا ) یہ مکر یہود کے زمانہ میں توفی عیسوی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی کیونکہ مکر کے وقت کی توفی تخلیص اور تطہیر والی توفی ہے جس میں عیسیٰ علیہ السلام کی حیات بھی ثابت ہو،ہاں البتہ توفی انامہ کے ساتھ توفی عیسیٰ جمع ہوسکتی ہے اور وہ اس طرح کہ مرفوع حالت ِ نیند میں ہو اور وہ زندہ بھی ہو اور وہ بتمامہ مقبوض بھی ہو، یعنی اپنے جسم اور روح دونوں کے ساتھ۔اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام  نیند کی حالت میں مرفوع بھی ہیں اور مطہر بھی ہیں اور متوفی بھی۔
    ہم اپنی بات کو اس امر پرختم کرتے ہیں کہ توفی عیسیٰ والی آیت کے مفردات کی رو سے  اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتمام قبضہ میں لیا جیساکہ ان کی شان کے لائق ہے اور انہیں اپنی قدرت سے اپنے آسمان کی طرف اٹھالیا اور انہیں ان کے دشمنوں سے پاک کردیا کہ انہیں وہاں پہنچادیا جہاں ان کی دشمنوں کی رسائی ممکن نہیں ۔
    یہ ہے توفی عیسوی قرآن کے بیان کی رُو سے اور مسلم امت کے اس عقیدہ کی رُو سے جو قرآن کریم کے مفردات کے ظاہر سے ثابت ہے۔
    متوفیک کو ممیتک پر حمل کرنے کا مخرج اور اس کا افصاح وبیان:
    یہود کے حضرت عیسیٰؑ کے صلب وقتل کی تدبیر کرتے وقت عیسوی توفی کو’’ اماتہ‘‘  انہیں دینے پر حمل کرنا مستحیل ہے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ کی خیر الماکرین ہونے اور حضرت عیسیٰؑ کے متوفی کے ساتھ ساتھ مرفوع ومطہر ہونے کے بھی خلاف ہے ۔جن اہل تفسیر نے توفی عیسیٰ والی آیت میں متوفیک کو ممیتک پر حمل کیا ہے ۔ان کا کیا جواز ہے؟اور یہ تفسیر کیسے صحیح ہوگی کہ عیسوی توفی میں وارد متوفیک ، ممیتک کے معنیٰ میں ہو؟
    ہم کہتے ہیں کہ جس مسلم مفسرنے ’’متوفیک‘‘ کو’’ ممیتک‘‘ کے معنیٰ میں لیا ہے ،اس نے اس قیدسے لیا اور قرینہ موت کو مقدرمانا ہے ۔(ای بعد انزالی ایاک من السماء) یعنی تجھے آسمان سے اتارنے کے بعداور تیری اجل کے آنے پر تجھے میں ہی ماروں گا ۔یہ یہود کچھ نہیں کرسکتے اورر ہا اب ؟ تو اب تجھے اپنی طرف اٹھانیوالا ہوں۔اور یوں ’’متوفیک‘‘ نے ’’ممیتک‘‘ پر دلالت قرینہ موت سے کی ہے۔
    اس تفسیر کو کلام میں تقدیم وتاخیر مستلزم ہے یعنی جو بعد میں ہونے والا ہے اس کا ذکر پہلے کردیا ۔یعنی تجھے میں نے ہی نزول کے بعد اجل پر موت دینی ہے ،یہ یہود کچھ نہیں کرسکتے۔
    اور جو پہلے ہونے والا ہے یعنی ’’رفع‘‘ اس کا ذکر بعد میں کیا تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی ہوجائے کہ ان کی وفات اللہ تعالیٰ بعد میں فرمائیں گے اور اُس وقت وہ اُن کو ان کے دشمنوں کے نرغے سے بچائیں گے اور اٹھالیں گے ۔
    اس تفسیر سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ان کا رفع اور ان کا نزول مسلم امت کے عقیدہ کے مطابق ثابت ہوگیا اور یہ متوفیک کو ممیتک پر حمل کرنے کا انتہائی خوبصورت مخرج ہے۔
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کب ہوگی؟:
    قرآن کریم نے اس بارے میں یوں تصریح فرمائی ہے (وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ۔۔۔الخ) اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ رہے گا مگر وہ ان پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائے گا۔
    تو جس نے ’’متوفیک‘‘ کو’’ ممیتک‘‘ پر حمل کیا ہے اس نے بھی یہی تفسیر کی کہ یہ ان کے نزول کے بعد اور تمام اہل کتاب کے دائرہ اسلام میں داخلہ کے بعد ہوگا ۔تو جب تک ایسا نہیں ہوتا ان کی موت واقع نہیں ہوگی، تو جب حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کا آسمان سے نزول نہیں ہوا اور جب تمام اہل کتاب دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تو ان کی موت بھی واقع نہیں ہوئی اور وہ بلا شک وشبہ اس جگہ پر زندہ ہیں جہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان کا رفع فرمایا ہے ۔ان کی موت اس لئے ثابت نہ ہوگی کہ اس کی شرط ہی نہیں پائی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی نہیں فرماتے اور جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کو’’انامہ‘‘(سلانا)پر حمل کیا ہے اس نے بھی ان کی رفع جسمانی کی حالت کی رعایت رکھی کہ حالت رفع میں انہیں اللہ تعالیٰ نے سلادیا کہ راستے کے مخاطر کا مشاہدہ نہ کریں اور نہ گھبرائیں اور سونے والا بھی  تو زندہ ہی ہوتاہے مرا ہوا نہیں ہوتا۔وہ بتمام مقبوض ہوتاہے اپنی روح وجسم کے سمیت۔
    تویوں مفردات آیت آل عمران یا آیت توفی عیسیٰؑ سے ثابت ہواکہ انکی توفی کے ساتھ توفی اماتہ یعنی موت دینا جمع نہیں ہوسکتا (کیونکہ جس تفسیر کے مطابق متوفیک کا ممیتک پر حمل ہوگا، وہ ان کے نزول کے بعد والی موت ہے )البتہ ان کی توفی کے ساتھ توفی ’’انامہ‘‘ محتمل اور ممکن ہے ،یعنی ان کی توفی، حالت نوم میں کی گئی ہو اور بوقت رفع وہ نیند میں ہوںکیونکہ سونے والا مرا ہوا نہیں ہوتا بلکہ زندہ ہوتاہے۔اسی طرح کسی مفسر کی تفسیر کی رُو سے توفی کو ان کی اس وقت کی موت پر حمل کرنا درست نہیں ۔اس تفسیر کے مخرج کو ہم اوپر تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔
    توفی عیسوی والی آیت آل عمران میں موجود مفردات ان امور میں صریح ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بتمام مقبوض ہوئے،ان کا رفع ہوا، ان کی ان کے منکرین سے تطہیر ہوئی کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے وہاں پہنچادیا جہاں ان کی دشمنوں کی پہنچ نہ ہوسکتی تھی ۔تو دونوں مخرجوں سے امت مسلمہ کا عقیدہ در حیات عیسیٰ رفع عیسیٰ ونزول وعیسیٰ ثابت ہوا۔
    فللہ الحمد والمنۃ۔
 

شیئر: