Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیت المقدس،یونہی غاصبوں کے نرغے میں رہے گا ؟

 
 آج اگر امت مرکزی قضیہ سے دستبردار ہوگئی تو کل اسے کشمیر سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا، بابری مسجد سے بھی ہاتھ دھونے ہوں گے
 
عبد الستارخان
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرکے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ اس اقدام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ٹرمپ نے اپنے متنازعہ بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ بیت المقدس اسرائیل کا تاریخی دار الحکومت رہا ہے ۔ ان عزائم کا کھلے بندوں اظہار کے بعد امریکہ کی حیثیت جو پہلے بھی مشکوک تھی، اب قابل اعتبار نہیں رہی۔ اب آئندہ یہ توقع کرنا کہ خطے کے امن واستحکام اور قضیہ فلسطین کے حل کے لئے امریکہ غیر جانبداری سے کام لے گا عبث ہی نہیں بلکہ نادانی ہے۔
عیسائی دنیاکے دانشور، مفکر، مقتدر طبقہ، دینی فکر کے حامل لوگ،ہل چلانے والے حتیٰ کہ نیویارک کی سڑکوں میں آوارہ،بدچلن اور جسم فروشی کرنے والی کو بھی یقین کی حد تک علم ہے کہ مسلم امہ ان کی دوست نہیں بلکہ  ابدی دشمن ہے۔ان کے بچے بچے کو  رٹا دیا جاتا ہے کہ اسلامی تہذیب ان کے لئے زہر قاتل ہے۔ پوری  مغربی اقوام کو  معلوم ہے کہ  اسلام اور مسلمان کے خلاف ان کی ایک فیصلہ کن جنگ ہونی ہے جس میں  وہ بقول ان کے انجیل کے غالب ہوکر رہیں گے  اور شر(اشارہ اسلام کی طرف ہے)  مغلوب ہوکر ختم ہوجائے گا۔ یہ  ان کا تاریخی معرکہ ہوگا جسے  وہ ’’ہر مجّدون‘‘ کا  نام دیتے ہیں۔ ان کی تحریف شدہ انجیل کی مبینہ  بشارت کے  مطابق’’ ہرمجدون‘‘کے مقام پر ایک تاریخی معرکہ ہوگا جس  میں ان کا ’’مسیح  منتظر‘‘ آکر مسلمانوں کو قتل کرے گا اور یہودیوں کا   بول بالا ہوگا۔ ان کی انجیل کے  مطابق یہ معرکہ فلسطین کے مجدو  نامی پہاڑ کے قریب واقع ہوگا۔عبرانی زبان میں ’’ہر ‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں جس کا نام ’’مجدو‘‘ ہے۔اس مبینہ معرکہ میں وہ لوگ بیت المقدس کو مسلمانوں سے ’’پاک ‘‘ کریں گے۔ان کا مسیح منتظر دنیا سے ہر اس شخص کا خاتمہ کرے گا جو اسرائیلی ریاست کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کرے گا۔ان کا مسیح منتظر یروشلم کو  دنیا کا دار السلام بنائے گا جہاںمبینہ طور پرچہار سو امن و آشتی کا  دور دورہ ہوگا۔
مزید پڑھیں:نصف صدی گزارنے والے تارکین کی واپسی
دنیا کے مسیحی، یہود کو  اپنا   مذہبی امام اور  پیشوا   مانتے ہیں۔ان کے  نزدیک اسرائیل کی  سرحدیں تحریف شدہ  تورات کے  مطابق بنانا ان میں سے  ہر ایک کا دینی فریضہ ہے  جسے ادا کرنے کے لئے طویل مدت سے  تیاری ہورہی ہے۔تحریف شدہ تورات میں اسرائیل کی سرحدیں فرات سے لے کر نیل تک پھیلی ہوئی ہیں۔ہر مجدون کا  مبینہ تاریخی معرکہ تحریف شدہ انجیل کی پیش گوئی کے مطابق اس  وقت ہوگا جب فلسطین میں مسیحی اور  یہود  دونوں مل کر مسلمانوں کا قتل عام کریں گے ۔ جب لاکھوں مسلمانوں کا  خون بہے گا   تب جاکر ان کے  مبینہ مسیح منتظر کا   ظہور ہوگا  جو  زمین سے ’’شر ‘‘ کا  خاتمہ کرے گا۔
یہ باتیں محض کتابوں میں تحریر نہیں بلکہ مسیحی اور یہودی بچے بچے کو ازبر ہیں۔ اس تاریخی  معرکہ کی تیاری کے لئے ان میں سے ہر ایک اپنی بساط بھر کوشش کررہا ہے۔یہی وہ عقیدہ ہے جو عیسائی دنیا کے بچے بچے کو ازبر ہے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر سیموئل ہنٹگنٹن تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ کو رواج دیتا ہے ۔
یہ بات بہت سے مسلمانوں کو شاید معلوم نہیں کہ بیت المقدس محض فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں نہ ہی یہ عربوں کا مسئلہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس مسلم امہ کا قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے۔ اس اعتبار سے وہ حرم مکی شریف اور مسجد نبوی شریف کی طرح مقدس اور محترم ہے۔ یہ امت کا نہ صرف مشترکہ مسئلہ ہے بلکہ امت کے تمام قضیوں کی بنیاد  اور اساس ہے۔  بیت المقدس کو اسرائیل کا  دار الحکومت تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اس  قضیہ سے دستبردار ہو جائیںیا انہیں  وقت کے  ساتھ دستبردار ہونے پر مجبور کیا جائے۔ آج اگر  امت اپنے مرکزی  قضیہ سے  دستبردار ہوگئی  تو کل اسے کشمیر سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔  پھر بابری مسجد سے بھی  ہاتھ دھونے ہوں گے۔  اس کے بعد دینی مدارس سے  اعلان برأت کرنا پڑے گا۔   پھر آہستہ آہستہ قرآن میں  وہ آیتیں بھی نکالنی ہوں گی جو  عیسائی دنیا کو  کھٹک رہی ہیں۔ پھر مسلمان کا ایمان اور عقیدہ بھی نشانے پر ہوگا۔  پھر آخر کار مسلمانوں کی ایسی نسل تیار ہوگی جن کا دین سے  رشتہ محض رسمی ہوکر  رہ جائے گا۔ یہ  وہ سازش ہے  جو امت کے  خلاف تیار کی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں: ضابطوں سے عاری اختلاف ، تلخیوں کا سبب
اس وقت پوری دنیا میں مسلمان ٹرمپ کے فیصلے کو  مسترد کرچکے ہیں۔ خبر رساں  اداروں کے  مطابق تمام مسلم ممالک کے  علاوہ غیر مسلم ممالک میں بھی  احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور آئندہ دنوں میں  مزید ہوں گے۔  ٹرمپ اور اسرائیلی انتظامیہ کا  خیال ہے کہ مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہرے فیصلے کا  طبعی رد عمل  ہے۔  اس فیصلے کے بعد لوگوںکا سڑکوں پر نکل آنا فطری تھا مگر  وہ  یہ صدمہ آہستہ آہستہ  جذب کرلیں گے۔پھر حالات معمول کے مطابق آجائیں گے ۔  ٹرمپ اور اسرائیلی   انتظامیہ کا گمان سچ  ثابت ہو ا تو مسلم امہ اپنے  ہر قضیہ سے دستبرداری کے لئے تیار ہوجائے۔  امت کے  مرکزی قضیہ پر کاری ضرب کا  صدمہ کو  جذب ہونے کے منتظر اس کے  بعد خاموش نہیں رہیں گے۔ پھر ایک دن اسی طرح کا ایک اور اعلان ہوگا کہ اسرائیل اپنے مبینہ دار الحکومت میں مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کر رہا ہے۔ مسلم امہ کا جذبوں میںاس  قدر شرمناک جمود نہیں  ہوسکتا۔ شر کے  بطن سے خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے۔  یہ امت  مرحومہ ہے جو  قیامت تک موجود   رہے گی اور جسے  دنیا کی حکمرانی کر نی ہے۔  ٹرمپ انتظامیہ کا ہر گمان  جھوٹا ثابت ہوگا کہ  سڑکوں میں  احتجاجی جلوس  نکالنے والے مسلمانوں کا جذبہ  سرد نہیں پڑے گا۔ یہ  ریلیاں سیلاب ثابت ہوں گی اور امت کے خلاف سازشیں بننے والوں کو بہالے جائیں گی۔ ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ کا گمان ہے اور  دوسری طرف امت کے خیر خواہوں کا گمان، اب  وقت ہی بتائے گا کہ امت کس کے گمان پر پورا اترتی ہے۔
مزید پڑھیں:غیرملکیوں پر ماہانہ فیس کانفاذ ، مثبت اور منفی پہلوکیا ہیں؟
 
 
 

شیئر: