Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

 ہم مغرب کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں، ہمارا معاشرہ مغرب کا فطری غلام بن کر رہ گیا ہے

* * * اللہ بخش فریدی۔فیصل آباد* * *

اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح اور کامرانی کا علمبردار ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کے زرّیں اصولوں میں اخلاق کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ قرآن پورے کا پورا ہے ہی اخلاق پر مبنی۔قرآن میں سب سے زیادہ روز حسن اخلاق پے دیا گیا ہے۔حسن خلق ہی انسانوں کے معاشرہ میں امن، سکون، اطمینان و سلامتی کا ضامن ہے۔ انسانی معاشرہ میں ایک دوسرے کا ادب و احترام، مساوات، رواداری، ایک دوسرے کی ہمدردی، حسن معاملات اخلاق ہی سیکھاتا ہے۔
    دنیا میں انسان کی اولین حیثیت ایک فرد کی سی ہے اور افراد کے مجموعے سے معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔انسانی زندگی میں معاشرے کا قیام اس کی فطرت کا تقاضا ہے یعنی انسان دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور زندگی بسر کرنے پر فطرتاً مجبور ہے۔ اسلام میں اخلاق سے مراد وہ اخلاق حسنہ ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح اور اصلاح کے لئے انسانیت کو عطا کیے گئے تاکہ ان کا آپس میں معاملات کا حسن برقرار رہے، ایک دوسرے کے ساتھ عزت و تکریم پیش آئیں۔ اگر معاشرہ میں موجود تمام انسان اپنی اپنی اصلاح کرلیں،خود کو اسلامی تعلیمات اور قرآنی اخلاقیات سے مزین کر کے اپنی زندگیوں میں اس کا عملی نمونہ پیش کریں تو اجتماعی معاشرہ خود بخود صالح، پاکیزہ و راست باز ہوگا۔جس معاشرہ کا قانون عدل و انصاف، برابری و مساوات پر مبنی ہوگا تو وہ معاشرہ یقینادرست اور صالح ہوگا اور حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی معاشرہ کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام فرد کی اصلاح کے لئے اخلاق حسنہ پر زور دیتا ہے۔قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر اخلاق کا درس دیا گیا ہے جو اس قدر حکیمانہ اور فلسفیانہ ہے جو دنیا کے کسی مذہبی کتاب میں نہیں ملتا۔
    ’’اور لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیر( یعنی انسانی معاشرتی اجتماع سے، لوگوں سے رواداری، حسن معاملات، حسن سلوک، ہمدردی و مساوات سے پیش آ) اور زمین پر اکڑکر نہ چل( غرور و تکبر سے )بے شک اللہ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا اور اپنی چلن میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ، بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہے۔‘‘( لقمان19,18)۔
    قرآن کریم کا حسن اخلاق دیکھئے کہ لوگوں سے اونچا اور منہ پھاڑ کر بولنے سے بھی سختی سے منع فرما دیا اور اونچا بولنے والوں کو گدھے کی طرح برا کہا ۔جس طرح گدھوں کی آواز کو کوئی پسند نہیں کرتااسی طرح اللہ کریم بھی لوگوں سے اونچا بولنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔
    سورہ حجرات ،آیت 11میں اللہ کریم بنی نوح انسانیت کا، قوموں کا تمسخر، طنزو مذاق، طعنہ زنی اور ایک دوسرے کے نام بگاڑ کر لینے سے بھی منع فرما دیا اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو مسلمان نہیں بلکہ فاسق کہا اور اس سے توبہ نہ کرنے والوں کو ظالم کا خطاب دیا۔فرمایا
    ’’اے ایمان والو! قومیں قوموں پر نہ ہنسیں ( یعنی انسانوں اور قوموں کے اجتماعی معاشرہ میں کوئی انسان دوسرے انسان کا، کوئی قوم دوسری قوم کاہنسی مذاق نہ بنائے، امیر غربیوں کی ہنسی نہ بنائیں، نہ عالی نسب ذی نسب کی، نہ تندرست اپاہج کی، نہ آنکھ والا نابینااور کم نظر کی، نہ زبان والا گونگے کی، نہ کان والا بہرے کا تمسخر اڑائے، یہ سب اخلاق سے گری حرکتیں ہیں جن کو اللہ کریم بہت ناپسند فرماتے ہیں) عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہترہوں اور نہ عورتیں، عورتوں پر ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ زنی نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا،اور جو اس سے توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
    سورہ بنی اسرائیل(آیت26تا30) میں اخلاقیات سے بھرا ایک طویل متن جو حسن تربیت و اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
    ’’ اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکینوں اور مسافروں کا بھی (حق ادا کرو:مطلب مسافر سفر میں حاجتمند ہو سکتا ہے تو اس کی حاجت روائی کی جائے) اور فضول خرچی نہ کرو، بیشک فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے، اگر تو ان سے منہ پھیرے اللہ کی رحمت ( یعنی رزق ) کے انتظار میں ، جس کی تجھے اپنے رب کی طرف سے آنے کی امید ہے تو ان سے نرمی سے بات کرو اور نہ ہی اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھ ( یعنی کنجوسی نہ کرو)اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑدو ( کہ فضول اڑانے لگو)اور پھر ملامت زدہ اور عاجز بن کر بیٹھ جائو،  بیشک تیرا رب جس کیلئے چاہے رزق وسیع کرتا ہے اور جس کیلئے چاہے تنگ کرتا ہے، بیشک اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔‘‘
    سورۂ مذکور ہی میں ارشاد ربانی ہے:  
    ’’ اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا مفلسی کے ڈر سے ، ہم انہیں رزق دینے والے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کا قتل کرنا بہت بڑی خطا ہے ،  اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے ، اور بہت ہی بری راہ، اور جس جان کا قتل کرنا اللہ نے حرام کر دیا ہے اُسے ناحق نہ مارو، اور جو ناحق ظلم سے مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے قصاص کا،  تو وہ قصاص میں حد سے نہ بڑھے بیشک وہ فتحیاب ہے (یعنی اسے ہماری مدد حاصل ہے)، اور یتیم کے مال کے پاس تک نہ پھٹکنامگر اس طریق سے کہ نہایت اچھاہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور عہد پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ ‘‘ ( آیت31تا34)۔
    سورہ بنی اسرائیل میں ہی ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    ’’اور ناپ تول پورا پورا کیا کرو اور ترازو برابر رکھ کے تولا کرو، یہ بہت بہتر ہے اور اس کا انجام بھی بہت اچھا، اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے باز پرس ( یعنی سوال) ہونا ہے، اور زمین پر اتراتا ہوا نہ چل، تُو ہر گز زمین چیر تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ جائے گا، یہ جو کچھ بیان ہوا ان میں سے کوئی بھی بری بات ( جو تم میں ہو) تیر ے رب کو بہت ہی ناپسند ہے، یہ سب ان وحیوں میں سے ہے جو تمہارے رب نے تمہاری طرف بھیجیں حکمت کی باتیں اور اے سننے والے !اللہ ساتھ کوئی دوسرا معبودنہ ٹھہرانا، نہ کھڑا کرناکہ تم جہنم میں دھکیل دئیے جاؤ گے راندۂ درگاہ بنا کر، مردود ہو کر۔‘‘(آیت35تا39)۔    سبحان اللہ! حسنِ اخلاق کی کتنی اعلیٰ تربیت ہے اور دنیا کا کوئی دوسرا مذہب ایسی تربیت کی کوئی ادنیٰ سی مثال پیش نہیں کر سکتااور یہاں ایک خاص بات ، ایک خاص نقطہ عرض کروں جو میرے خیال میں آج تک کسی عالم و مفسر نے بیان نہیں کیا ہو گا۔ آپ دیکھیں کہ ان پوری15,10 آیات میں نصیحت و حکمت کی باتیں ہو رہی ہیں اور اخلاق کی تربیت کی جا رہی ہے ، ان کے ساتھ یہ فرمانا کہ میرے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہ ٹھہرا لینا ورنہ مردود ہو کر دھکے کھاتے جہنم برد کر دئیے جاؤ گے۔یہاں اس آیت کا متن ان آیات سے ذرا ہٹ کے ہے جو عام طور پر قرآن مجید میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
     آپ مشاہدہ کر لیں عام طور پر قرآن مجید میں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہ ٹھہرنے کا متن عبادات کے ساتھ ملتا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، یا اس طرح کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔یہاں معاملہ عبادات کا نہیں اخلاقیات کے ساتھ خاص ہے اور اللہ کریم کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بنانے کا نہیں ، نہ لا کھڑا کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر تم میری ان حکمتوں کو نہیں مانتے ، ان پر عمل نہیں کرتے اور ان کو چھوڑ کر کسی اور کے طریق پر چلتے ہو تو گویا تم نے مجھے نہیں اسے خدا سمجھا اور میرے ساتھ لا کھڑا کیاجس کے طریق پر مجھے چھوڑ کر چل رہے ہو۔
    گویا ان حکمتوں پر عمل پیرا نہ ہونا خدا کا انکار اور شرک ہے۔ اگر اس نقطہ کی رو سے دیکھا جائے تو آج ہمارا خدا اَللہ کریم نہیں اہل مغرب ہیں۔ ہم اللہ کریم کو چھوڑ کر ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، ان کی تقلید ہمارے دل و دماغ میں گھر کر چکی ہے۔ ہم مغرب کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ہمارا معاشرہ مغرب کا فطری غلام بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارا کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہیں جس میں ان کی غلامی کا رنگ نہ نظر آتا ہو خواہ وہ معاشی ہو، معاشرتی ہو، حتیٰ کہ ہم ان کے لسانی غلام بھی بن کے رہ گئے ہیں۔ ہمارا پیارا پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں کی قومی زبان اردو ہے۔
    ہماری 20 کروڑ آبادی اردو بولنے اور سمجھنے والی ہے مگر ہماری دفتری اور کاغذی زبان کیا ہے ؟ہمارے دفتری کاغذات میں انگریزی غلامی ہے خواہ وہ دفتر سرکاری ہوں یا نجی، کسی قومی ادارہ کے ہوں یا قومی عدالتوں کے یااسکول و کالج و یونیورسٹی کے۔ ہماری عدالتوں کے فیصلے انگریز کی لسانی غلامی میں دئیے جاتے ہیں، ہمارے حکمران قومی زبان سے زیادہ اپنے آقاؤں کی زبان بولنازیادہ پسند کرتے ہیں کہ اردو بولنے سے انہیں سمجھنے میں دقت ہو گی اس لئے اہم ملکی ایشوز پر انگریزی میں بات کی جاتی ہے کہ ہمارے کسی ہم وطن کو پڑھنا اور سمجھنا آئے یا نہ آئے ہمارے آقاؤں کو سمجھ آنی چاہیے انہیں کوئی دشواری نہ پہنچے۔ انگلش لکھنا پڑھنا نہ آتی ہو تو کوئی ہماری اسمبلیوں کا ممبر نہیں بن سکتا، نہ کوئی اعلیٰ گورنمنٹ کی ملازمت اختیار کر سکتاہے لیکن اگر قرآن پڑھنا نہ آتا ہو تووہ ہر طرح کے سرکاری عہدہ پر براجمان ہو سکتا ہے حتیٰ کہ نماز اور کلمے بھی نہ آتے ہوں پھر بھی وہ وزیر ، مشیر، قانون دان اور ملک کا سربراہ تک بن سکتا ہے۔ انگلش کو ترجیح اس لئے کہ وہ ان کے آقاؤں کی جو زبان ہے اور قرآن اللہ و رسول کا کلام جس کے یہ پہلے سے باغی ہیں۔ ہم ہر لحاظ سے مغرب زدہ اور مغرب کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ۔ ہمارے معاشرہ میں مغربی کلچر و روایات کو صرف پسند ہی نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں دنیا کے لئے مثالی سمجھا جاتاہے۔ ہم مجموعی طور پر مغرب زدہ ہیں اسلام زدہ نہیں۔
     آج ہمارا معاشرہ اور حکمران طبقہ ہر کام میں مغرب کی مثال دیتا ہے اور نمونہ بنا کے پیش کرتا ہے کہ وہاں یہ ہو رہا ہمیں بھی کرنا چاہئے اس میں کامیابی ہے۔ وہ نہ قرآن و سنت کو دیکھتے ہیں،نہ اپنے اسلاف کو ، کہ انہوں نے کیسے کامیابی حاصل کی۔ ہمارے آج کے معاشرہ میں جو کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ مغرب کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ کیسے کامیاب ہوئے۔آج ہمارے معاشرہ نے ترقی کرنی ہوتو مغرب نمونہ، ہنر سیکھنا ہو تو مغرب نمونہ،ارتقاء و تخلیق کے لئے مغرب نمونہ، اعلیٰ تعلیم، علم و حکمت پڑھنا سیکھنا ہو تو مغرب روانہ،ڈاکٹر و حکیم بننا ہو، علوم طب اور حسن معاشرت کے اصول سیکھنا ہوں تو مغرب روانہ، اچھے اخلاق و اطوار سیکھنے ہوںتو مغرب نمونہ، تہذیب و تمدن سیکھنا ہو تو مغرب نمونہ، ادارے بنانا ہوں، محکمے قائم کرنا ہوں، پالیسیاں اور ضابطے ترتیب دینے ہوں تو مغرب نمونہ ہے۔
    ہماری نوجوان نسل کا پسندیدہ لباس مغربی پینٹ شرٹ، پسندیدہ شکل و صورت، واضح قطع مغربی کلین شیو، ہمارا پسندیدہ لائف  اسٹائل مغربی۔میں آج کے اس شرک رسیدہ معاشرہ سے سوال کرتا ہوں کہ خدائے حقیقی کہاں ہے تم میں؟ قرآن و سنت کی تعلیمات کہاں ہیں تم میں؟ رسول اللہ کی اطاعت اورآپ کا اسوہ کہاں ہے تم میں؟تمہارے بزرگوں کے اطوار کہاں ہیں تم میں؟ کیا قرآن و سنت اور تمہارے اسلاف کے کارنامے تمہارے لیے نمونہ نہیں بن سکتے ؟ آج جب ہر طرف مغرب ہی مغرب ہے تو یہ معاشرہ مغرب کے ہی خدا ہونے کا اعلان کیوں نہیں کردیتا؟ حقیقی خدا کو ماننے اور اسکے احکامات و ہدایات پر عمل کرنے کا نام نہاد جھوٹا لیبل کیوں لگا رکھا اپنے اوپر؟
     ہمارے اسلاف بھی تو کامیاب ہوئے اپنے اپنے دور میں۔ انہوں نے تو مغرب کی طرف نہیں دیکھا تھا، بلکہ خدا کی قسم! مغرب ہمارے اسلاف کی طرف دیکھ کر کامیاب ہوا اور ہم نے ذلت و رسوائی، خواری و ناداری دیکھی اور دردر کی ٹھوکریں کھائیں تو صرف ان کے اصولوں سے انحراف کر کے اور ان کے نقش قدم سے ہٹ کر چل کے۔ یہ اس دنیاکی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصدِ زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے ،ا سکے تقاضوںاور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیںکرتی اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر نہیں چلتی، اور ان کی کامیابیوں کے راز نہیں کھنگالتی اور ان کے حصول کیلئے کمربستہ نہیں رہتی، مسلسل جد وجہد اور سعی و حرکت نہیں کرتی تو اس کا صفحۂ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح یقینی ہوتا ہے جس طرح تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کاگل ہوجانا یقینی ہوتا ہے ۔
ہمیں یہ درس دیتا ہے ہمیشہ شام کا سورج
کہ مغرب کی طرف آؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
    آج ہم یقینی طور پر ڈوب رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ ہمارے اسلامی معاشرہ سے ہماری اپنی اسلامی روایات ناپید ہوتی چلی جارہی ہیں اور ہم میں مغربی کلچر و روایات فروغ پا رہی ہیں۔ ہمارے چہرے مغرب زدہ ہیں، ہمارے لباس مغرب زدہ ہیں، ہم مغرب جیسے بننا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے دین اور اسلاف کی روایات کو ترک کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ٹھہر چکی ہے۔

شیئر: