Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک

 رسول اللہ نے اپنے موئے مبارک تقسیم فرمائے تھے، حضراتِ صحابۂ کرام ؓنے انہیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے
* * *  مفتی عمر فاروق لوہاروی۔لندن* * *

    آج کل بعض اشخاص کا کہنا ہے کہ رسول اللہ کے بطورِ تبرک جو موئے مبارک ان کے پاس ہیں، وہ بڑھتے اور زیادہ ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں زیر نظر مضمون تحریر کیاگیاہے۔
     رسول اللہ  نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوم النحر میں منیٰ میں تشریف لاکر جمرئہ عقبہ کی رمی کے بعد اونٹوں کی قربانی کی، اس کے بعد مشہور اور صحیح قول کے مطابق معمربن عبداللہ العدوی رضی اللہ عنہ سے اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، پھر موئے مبارک تقسیم فرمائے، ’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ میں ہے:
     حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے منیٰ آمد کے بعد جمرہ کے پاس تشریف لاکر، اس کی رمی کی، پھر منیٰ میں اپنی اقامت گاہ تشریف لائے اور قربانی کی، پھر حلاق سے فرمایا: لو، اور اپنے سرمبارک کی دائیں جانب اشارہ فرمایا، پھر (اسی طرح) بائیں جانب، پھر وہ موئے مبارک (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے) لوگوں کو دینے لگے۔(صحیح مسلم بشرح النووی،کتاب الحج)۔
ً    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے جمرئہ عقبہ کی رمی کی، پھر اونٹوں کی طرف تشریف لے گئے اور ان کا نحرکیا، حجام صحابی بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنے دستِ مبارک سے سر (کی دائیں جانب حلق) کے لیے اشارہ فرمایا تو انھوں نے آپ کے سرِمبارک کی دائیں جانب حلق کیا، آپ نے ان بالوں کو اپنے قریب لوگوں میں (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے) تقسیم فرمایا، پھر حجام صحابی سے فرمایا: دوسری جانب حلق کرو (انھوں نے بائیں جانب حلق کیا) پھر آپ نے دریافت فرمایا: ابوطلحہ کہاں ہیں؟ (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے) پس آپ نے وہ موئے مبارک ان کو دئیے۔(صحیح مسلم بشرح النووی،کتاب الحج)۔
    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے جب اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے موئے مبارک لینے والوں میں اوّل تھے۔(صحیح بخاری:کتاب الوضوء، باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان)۔
    اس امر میں روایات مختلف ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ نے سرِمبارک کی دائیں جانب کے موئے مبارک دئیے تھے یا بائیں جانب کے؟ شیخ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں اس پر قدرے تفصیل کے ساتھ کلام کیاہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے دونوں جانبوں کے بال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دئیے تھے، پھر دائیں جانب کے بال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے حکم سے لوگوں میں تقسیم کردئیے تھے اور بائیں جانب کے بال آپ  ہی کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت ام سُلیم رضی اللہ عنہا کو دے دئیے تھے۔
     حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’الاصابۃ‘‘ میں ’’حضرت جُعشم الخیر رضی اللہ عنہ‘‘ کے تعارف میں فرماتے ہیں:
     ’’حضرت جُعشم الخیر رضی اللہ عنہ نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے (رسول اللہکے دست مبارک پر) بیعت کی اور نبی نے ان کو اپنا کرتا مبارک، نعلینِ مبارک اور اپنے کچھ موئے مبارک عنایت فرمائے تھے۔‘‘(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ)۔
     رسول اللہ کا موئے مبارک تقسیم فرمانے کا راز:
     رسول اللہ نے اپنے موئے مبارک حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں کیوں تقسیم فرمائے تھے؟اس سلسلہ میں علامہ زرقانی     رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
     ’’رسول اللہنے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں اس لیے تقسیم فرمائے تاکہ وہ ان میں بطور برکت اور یادگار رہیں اور اسی سے گویا آپ نے قربِ وصال کی طرف اشارہ فرمادیا۔‘‘(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ)۔
     حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:
     حضور کا اپنا بالِ مبارک تقسیم کرنا، اپنی تعظیم وعبادت کے لیے نہ تھابلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت پر نظر کرتے ہوئے ان کے نزاع وقتال کے رفع دفع کرنے کے لیے تھا، اگر آپ   اپنے بالوں کو دفن کراتے، تو یقینا  صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین زمین سے ان کو نکالنے کی کوشش کرتے اور عجب نہیں کہ قتال کی نوبت آجاتی ۔(ملفوظات حکیم الامت)۔
          موئے مبارک کیساتھ صحابہ کرامؓ کا معاملہ:
     حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حجۃ الوداع یا کسی عمرہ میں حلق کے موقع پر یا عام حالات میں بال تراشنے کے موقع پر رسول اللہ کے موئے مبارک حاصل ہوئے تو انھوں نے ان کو بحفاظت رکھا، اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے۔
     حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے عمرہ کے موقع پر رسول اللہ کے حاصل ہونے والے موئے مبارک اپنی ٹوپی میں سی کر رکھ دئیے تھے، ان کی برکت سے جنگ میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی، علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
     ’’کئی حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہکے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے، اسی وجہ سے حضرت خالدؓ  جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے، اْنھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔‘‘(عمدۃ القاری)۔
     ’’مجمع الزوائد‘‘ میں ہے:جعفر بن عبداللہ بن الحکم سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی، اْنھوں نے لوگوں سے فرمایا: اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پرنہیں پائی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا، اب کی بار لوگوں نے پالی، لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے(اس کے باوجود جس اہتمام سے اسے تلاش کیا، کروایا، اس پر لوگوں کو تعجب ہوا، تو ان کے تعجب وحیرت کو ختم کرنے کے لیے) حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ نے عمرہ ادا فرمایا، اس کے بعد اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا تو لوگ آپ کے سرمبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے، پس میں نے آپ کے سرمبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیے، اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا، اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔
     قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ’’الشفاء ‘‘میں فرماتے ہیں:
  ’’حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ ایک جنگ میں آ پ کی ٹوپی گرگئی، تو اس کے لیے انھوں نے سخت حملہ کیا، (جو) نبی کے اصحاب (کو غیرمعمولی معلوم ہوا، اس لیے انھوں) نے ان پر نکیر کی کیونکہ اس حملہ میں بہت آدمی قتل ہوئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ حملہ ٹوپی کی وجہ سے نہیں کیابلکہ اس میں رسول اللہ کے موئے مبارک تھے، ان کی وجہ سے کیاتھا کہ مبادا کہیں میں ان کی برکت سے محروم نہ ہوجاؤں اور یہ مبارک بال مشرکین کے ہاتھ میں پہنچ جائیں۔‘‘(الشفاء مع شرحہ نسیم)۔
     حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ آپ نے مرضِ وفات میں اپنے بیٹے یزید کو بلایا اور فرمایا:
     ’’اے بیٹے! میں ایک مرتبہ رسول اللہ کے ہمراہ تھا، آپحاجت کے لیے نکلے، میں چھاگل لے کر آپ  کے پیچھے گیا(اور وضو کرایا) تو آپ  نے زیب تن کیے ہوئے دوکپڑوں میں سے ایک کپڑا مجھے عنایت فرمایا، وہ میں نے اس دن کے لیے چھپا رکھا تھا۔ (اسی طرح) رسول اللہ نے ایک دن اپنے ناخن اور بال مبارک کاٹے تو میں نے انھیں لے لیا تھا اور اس دن کے لیے حفاظت سے رکھ لیا تھاتو تم اس قمیص کو میرے کفن کے نیچے میرے بدن سے متصل رکھ دینا اور وہ بال اور ناخنِ مبارک لے کر میرے منہ میں اور میری آنکھوں اور سجدہ کی جگہوں پر رکھ دینا۔‘‘(الاستیعاب)۔
    حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ کی جانب سے موئے مبارک حاصل ہوئے تھے، انھوں نے بھی ان کو بحفاظت رکھا تھا، چنانچہ ’’مسند احمد‘‘ میں ہے:
     ’’محمد بن عبد اللہ بن زید سے مروی ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منحرکے پاس نبی کے قریب موجود تھے، دراں حالیکہ آپ  قربانی کے جانور تقسیم فرمارہے تھے، ان کو اور ان کے ساتھی کو کوئی جانور نہیں ملا، رسول اللہنے اپنے سرِمبارک کا حلق اس طرح کرایا کہ موئے مبارک آپ  کے کپڑے میں گریں، آپ  نے انھیں موئے مبارک عنایت فرمائے اور کچھ موئے مبارک دوسرے لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ آپ  نے اپنے ناخنِ مبارک تراشے، وہ ان کے ساتھی کو دیے۔ راوی فرماتے ہیں: وہ یعنی موئے مبارک ہمارے پاس ہیں، جو حناء اور ایک خاص قسم کے پودے کے رنگ سے رنگین ہیں۔‘‘(مسند احمد)۔
     ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ کے موئے مبارک محفوظ تھے۔کسی کو نظر بدلگتی، یاکوئی بیمار ہوتا، تو پانی بھیجتے، موئے مبارک اس میں ڈال دئیے جاتے، لوگ وہ پانی استعمال کرتے تو ان کی برکت سے شفاء مل جاتی چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے:
     ’’امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ ہم سے مالک بن اسماعیل نے، ان سے اسرائیل نے روایت بیان کی، وہ عثمان بن عبداللہ بن موہب سے نقل کرتے ہیںکہ میرے گھروالوں نے مجھے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا (اور اسرائیل نے 3 انگلیاں سکیڑیں) بالوں کے گچھے کی وجہ سے چاندی کے اس پیالہ کی وجہ سے، جس میں نبی کے موئے مبارک تھے۔
    جب کسی انسان کو نظرِ بدلگتی، یا کوئی اور عارض وبیماری پیش آتی، تو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے ٹب کو بھیجتا، عثمان بن عبداللہ فرماتے ہیں: میں نے ڈبیہ میں جھانکاتو میں نے سرخ موئے مبارک دیکھے۔‘‘(صحیح بخاری:کتاب اللباس )۔
     رسول اللہ کے موئے مبارک حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بعد والوں کو حاصل ہوئے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے:
     ’’حضرت محمد ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ میں نے عبیدہ (سلمانی) سے کہا: ہمارے پاس بنی کے چند موئے مبارک ہیں، جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، یا کہاکہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کے خاندان کی جانب سے حاصل ہوئے ہیں۔ عبیدہ سلمانی نے کہا: میرے پاس آپ  کا ایک موئے مبارک ہونا مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ پسند ہوتا۔‘‘(بخاری:کتاب الوضوء، باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان)۔
     حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’خلق قرآن‘‘ کے مسئلہ میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے کہ معتصم کی خلقِ قرآن کی بات نہ ماننے پر اس نے کہا:
     ’’ان کو پکڑو اور کھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑدو، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے پکڑکر کھینچا گیا اور میرے ہاتھ اکھیڑے گئے اور میری نظروں کے سامنے تازیانے لگانے کے لیے دو لکڑیاں اور کوڑے لائے گئے۔ میرے ساتھ نبی اکرمکے چند موئے مبارک تھے، جو میرے کپڑے میں بندھے (رکھے) ہوئے تھے، انھوں نے وہ کپڑا میرے بدن سے اتارلیا اور میں دو لکڑیوں کے درمیان (معلق)ہوگیا۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ )۔
     حافظ شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:
     ’’امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک مجھے حاصل ہوئے تھے، جو میرے کْرتے کی آستین میں تھے۔اسحاق بن ابراہیم میرے پاس آکر کہنے لگا: یہ بندھی (رکھی) ہوئی چیز کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ کے چند موئے مبارک ہیں، خلیفہ کے آدمیوں میں سے ایک میرا کْرتا پھاڑنے کے لیے لپکا تو معتصم نے کہا: اس کو مت پھاڑو، پس کرتا اتارلیاگیا، میرے گمان میں موئے مبارک کی برکت کی وجہ سے کرتا پھاڑے جانے سے محفوظ رہا۔‘‘(سیر اعلام النبلاء)۔
     موجودہ زمانے میں رسول اللہ کے موئے مبارک کا وجود:
    مذکورہ بالا روایات وعباراتِ کتب سے معلوم ہواکہ رسول اللہ نے اپنے موئے مبارک تقسیم فرمائے تھے، حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے انھیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے، پھر انہی سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئے، ممکن ہے کہ اسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے میں کسی کے پاس پہنچے ہوں، اور وہ اس کے پاس موجود ہوں۔
     ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر ٹاپ کاپی سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے مشہور سفرنامہ ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
 ً    ’’یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت کی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں لیکن مشہور یہ ہے کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں، ان میں سرورِ دوعالم   کا جبۂ مبارک، آپ کی دوتلواریں، آپ کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ غزوئہ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقس شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتوبِ گرامی اور آپکی مہرِ مبارک شامل ہیں۔‘‘
     حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
     ’’ٹاپ کاپی  کے میوزیم میں کئی ہال ہیں، ایک ہال میں حضور کی تلواریں چاندی کے ایک صندوق میں رکھی ہوئی ہیں، یہیں سونے کے صندوق ہیں، ایک میں حضور کا موئے مبارک اور مہر ہے، جو عقیق کو تراش کر بنائی گئی ہے، مہر گلابی رنگ کے عقیق کی ہے اور بیضوی شکل کی ہے…‘‘ (مقالاتِ حکیم الاسلام )۔
     حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:
     حجۃ الوداع میں حضورنے اپنے سر کے موئے مبارک اتار کر تقسیم فرمائے ہیں، ظاہر ہے، کہ بال سرپر ہزاروں ہوتے ہیں، وہ کتنوں کے پاس پہنچے ہوں گے اور اس میں ایک ایک بال کے کتنے حصے کرکے ایک ایک نے آپس میں تقسیم کیے ہوں گے، اور کتنے حفاظت سے رکھے ہوں گے، اس لیے اگر کسی جگہ موئے مبارک کا پتہ چلے، تواس کی جلدی تکذیب نہ کرنا چاہیے ۔(ملفوظات حکیم الامت )۔

(جاری ہے)
 

شیئر: