Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دارالمدینہ میوزیم میں شہر مبارک کی مجسم عکاسی

دار المدینہ میوزیم میں رکھا گیا عہد نبوی ﷺ کے شہر کا سب سے بڑا مجسم ماڈل
امہات المئومینین کے حجروں کے ماڈلز جسے اسی دور کی عکاسی کرتے ہوئے بنایا گیا
ہجرت نبوی کے موقع پر انصار مدینہ کا نبی اکرم ﷺ کے استقبال کے منظر کی مجسم عکاسی
غزوہ خندق کے موقع پر کھودی جانے والی خندق کا مجسم ماڈل
عہد نبوی میں استعمال ہونے والے قدیم سکے جو یکم سال ہجری سے 11 سنہ ہجری تک مستعمل رہے
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ شہر کا مجسم ماڈل
مسجد نبوی ﷺ کا بیرونی منظر جس میں گنبد خضراء بھی نمایاں ہے ۔
عہد نبوی ﷺ میں مسجد نبوی الشریف کا مجسم ماڈل اس وقت کھجور کے تنوں کو ستون کی جبگہ استعمال کیا جاتا تھا
روضہ نبی اکرم ﷺ کا مجسم ماڈل
 
مجسم نمونے دیکھ کر انسان چند لمحات کیلئے خود کو اس دور میں محسوس کرنے لگتا ہے ، 25سال کی تحقیق کے بعد نمونے تیار کئے گئے ، میوزیم کے قیام کا مقصد طالبعلموں اور تاریخ کے شائقین کو شہر مقدس میں ہونیوالی مرحلہ وار تبدیلی سے آگاہ کرنا بھی ہے ، ڈائریکٹر میوزیم حسان طاہر کی اردونیوز سے گفتگو
 
مدینہ منورہ کے مختلف ادوار کی عکاسی کرنیوالا ماڈل سب سے بڑا ہے جسکی تیاری میں 4ہزار ہنر مندوں نے حصہ لیا ، 8برس کام جاری رہا ، عمرانی تبدیلیوں سے واقف شہر کے 400 مستند قدیم باشدنوں سے بھی مشاورت کی گئی ۔
 
شہر نبی سے ہر مسلمان بے پناہ عقیدت رکھتا ہے ۔ اس شہر مبارک سے عقیدت و محبت کیوں نہ ہو کہ یہ وہ شہر ہے جس سے نور توحید نے پوری دنیا کو منور کیا اور غلامی و جبر کے نظام میں پسے ہوئے انسانوں کو اٹھایا اور انہیں مساوی حقوق عطا کروائے ۔ مدینہ منورہ میں اس شہر مبارک کی مرحلہ وار تاریخ کو اجاگر کرنے کیلئے ـ" دار المدینہ میوزیم " قائم کیا گیا ۔ یوں تو مدینہ منورہ کی تاریخ کے حوالے سے متعدد مجسم نمائشی سینٹر ز بنائے گئے ہیں جہاں مدینہ منورہ کی مجسم عکاسی کی گئی ہے مگر " دار المدینہ میوزیم " اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ وہاں رکھے گئے مجسم نمونوں کی تیاری کے مراحل انتہائی باریک بینی اور برسوں کی تحقیق کا نچوڑ ہیں کہ انہیں دیکھ کر چند لمحات کیلئے انسان خود کو ان ہی ادوار میں محسوس کرنے لگتا ہے ۔دار المدینہ میوزیم جسے عربی میں " متحف دار المدینہ " کہا جاتا ہے کو جانے کیلئے مسجد نبوی الشریف کے جنوبی سمت میں ائر پورٹ روڈ پر کوئی 3 کلومیٹر دور جہاں نیا ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا گیا ہے کے دائیں سمت ایک وسیع و کشادہ ہال میں قائم کیا گیا ہے ۔ سینٹر کے اوقات عام دنوں میں صبح 9 سے دوپہر تک اور شام 5 سے رات 10 بجے تک ہوتے ہیں ۔ رمضان المبارک میں میوزیم کے اوقات مختلف ہیں۔ دوپہر 2 بجے سے شام 4 تک اور رات کو 10:30 سے 2:00 بجے تک زائرین کیلئے کھولا جاتا ہے ۔ دار المدینہ میوزیم جس خوبصورت انداز میں تیار کیا گیا ہے وہ واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جسے مثالی کہا جائے تو بے جانہ ہو گا ۔ اردو نیوز نے شہر نبی کے حوالے سے پہلے بھی مجسم میوزیم کے حوالے سے مختصر رپورٹ شائع کی تھی مگر اب " دار المدینہ میوزیم "کے بارے میں تفصیلات دی جارہی ہیں ۔ میوزیم دیکھنے کیلئے کافی دن انتظار کرنا پڑا کیونکہ میوزیم کے ڈائریکٹر استاد حسان طاہر موجود نہیں تھے ان سے رابطہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ میوزیم کے بارے میں مختلف اہم معلومات کا حصول ان ہی سے ممکن تھا ۔
 
ارسلان ہاشمی ۔ مدینہ منورہ
متحف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی میوزیم کے ہیں جہاں قدیم اشیاء محفوظ کی جاتی ہیں اور عوام کی دلچسپی کیلئے انہیں جمع کر کے پیش کیا جاتا ہے ۔ متحف دار المدینہ کے بارے میں کافی عرصے سے سنا تھا کہ شہر نبی میں ایک ایسا میوزیم تیار کیا جارہا ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔ میوزیم انتہائی وسیع و عریض اور خوبصورت ہال میں قائم کیا گیا ہے ۔ انتظامیہ نے اس حوالے سے اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ میوزیم میں آنے والے غیر ملکی زائرین کو مکمل معلومات فراہم کرنے کیلئے مترجمین کی خدمات بھی فراہم کی جائیں۔ اس حوالے سے اردو ، انڈونیشی ، ترکی ،فارسی اور انگلش زبانوں کے ماہرین وہاں موجود ہوتے ہیں جو آنے والے ہر زائر کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے انہیں میوزیم میں رکھے گئے مجسم ماڈلز کے بارے میں مفصل طورپر بتاتے ہیں ۔ میوزیم کے ڈائریکٹر استاد حسان طاہر نے میوزیم کی تیاری کے حوالے سے کہا کہ ڈاکٹر عبدالعزیز کعکی نے اس کا آعاز کیا۔ اس مثالی میوزیم کے قیام میں انکی خدمات مثالی ہیں جن کی خواہش تھی کہ تعمیراتی تبدیلیوں کی وجہ سے شہر مقدس کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو رہا ہے جبکہ دنیا بھر سے ہر برس لاکھوں کی تعداد میں آنے والے زائرین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان مقامات کو دیکھیں جہاں سے اسلام کا ابتدائی دور وابستہ ہے ۔ حسان طاہر نے مزید کہا کہ اسی فکر کو لیکر ڈاکٹر کعکی نے جو آج کل مدینہ منورہ ترقیاتی بورڈ کے مشیر بھی ہیں ۔ میوزیم کے قیام کی بنیاد ڈالی ۔ انہو ںنے اس دور کو مجسم انداز میں پیش کرنے کیلئے مختلف ماہرین کو جمع کیا۔ اس سے اہم مرحلہ ان تاریخی کتب کو جمع کرنے کا تھا جن سے ان مقامات کی نشاندہی ہوتی تھی ۔ میوزیم کا باقاعدہ افتتاح 2011میں کیا گیا تھا تاہم میوزیم میں اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کیلئے انتظامیہ کوشاں ہے ۔
میوزیم تاریخ کے طالب علموں کے علاوہ ان لوگوں کیلئے بھی جو شہر مقدس سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں بے حد اہم ہے ۔ استاد حسان کا کہنا تھا کہ میوزیم کے قیام کے مقاصد میں جہاں طالب علموں کو اس شہر مقدس میں ہونے والی مرحلہ وار تبدیلی کے بارے میں آگاہ کرنا ہے وہاں سیرت النبوی کے بارے میں بھی لوگوں کو معلومات مہیا کرنی ہیں ۔ میوزیم کے مجسم ماڈلز ہال میں داخل ہوتے ہیں آپکا سامنا اہل مدینہ کے قدیم روایتی لباس پہنے کا رکن سے ہو تا ہے جو آپکا استقبال کرتا ہے۔ اس نے کندھے پر روایتی مشکیزہ اٹھایا ہوا ہے ۔ ملازم مسکراہٹ کے ساتھ مشکیزہ کے شربت سے آپکی تواضع کرتا ہے ساتھ ہی میز پر مدینہ منورہ کی کھجوریں اور عربی قہوہ بھی ر کھا ہے ۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی ہال کے درمیان میں مدینہ منورہ کا سب سے بڑا مجسم ماڈل رکھا گیا ہے جو تقریبا 500 میٹر ہے ۔ مجسم ماڈل میں زمانہ قدیم کے" یثرب" کی عکاسی کی گئی ہے جس میں جابجا نحلستان لگائے گئے ہیں جنہو ںنے اس وادی نما شہر کو گھیرے رکھا ہے ۔ ایک جانب جبل احد کی فلک بوس چوٹیاں مدینہ منورہ کا احاطہ کئے ہوئے ہیں دوسری جانب نخلستان ہیں جو مدینہ منورہ کی خاصیت شمار ہوتے ہیں ۔ انتطامیہ نے میوزیم کو 4 شعبوں میں تقسیم کیا ہے جن میں پہلا حصہ سیرت النبی کا ہے جس میں مکہ مکرمہ کی تاریخ سے لیکر نبی اکرم کی ہجرت تک کے حالات کو مجسم انداز میں بتایا گیا ہے ۔مکہ مکرمہ کی تاریخ کے حوالے سے بھی انتظامیہ نے بہترین کاوش کی ہے ۔ مکہ مکرمہ کے اولین دور جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہو کر ہجرت نبوی پر ختم ہوتا ہے ۔ کسوہ (غلاف کعبہ ) کے تاریخی مراحل کی عکاسی بھی میوزیم میں کی گئی ہے ۔
مکہ مکرمہ کی تاریخ کے حوالے سے شعب ابی طالب کا بھی ذکر ہے جہاں بنی اکرم نے ابتدائی ماہ و سال گزارے ۔ غار حرا جہا ں وحی الہی کا پہلی بار نزول ہوا کا ماڈل بھی وہاں رکھا گیا ہے ۔ مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت جب قریش مکہ نے شیطان کی چالوں میں آکر نبی آخر الزماںکو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے رفقاء کے ساتھ ہجرت کر جائیں تو وہ راستہ جو نبی اکرم نے یثرب جانے کے لئے اپنایا اورجس پر موجودہ زمانہ میں شاہراہ ہجرہ قائم ہے کی مجسم عکاسی کیلئے انتظامیہ نے بہت بڑے ماڈل کا اہتمام کیا ہے ۔ اس راستے کو اجاگر کرنے کیلئے طریق ہجرہ کو مختلف باریک بلبوں سے نمایاں کیا گیا ہے جسے وہاں موجود گائیڈ زائرین کو مفصل انداز میں بتاتا ہے کہ نبی آخر الزمان اور انکے رفیق خاص ابو بکر صدیق ؓ کس طرح ان راستوں سے گزرتے ہوئے اور کن مصائب کا سامنا کرتے ہوئے منزل تک پہنچے ۔ ہجرہ روڈ پر ام العبد کے مقام کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اس کے علاوہ راستے میں آنے والے ان آتش فشاں مقامات کی نشاندہی خصوصی چٹانوں کو بنا کر کی گئی ہے ۔ یہ چٹانیں مدینہ منورہ کے مشرقی سمت میں واقع ہیں ۔ ہجرت کے راستے میں ان مختلف مقامات کی بھی نشاہدہی کی گئی ہے جہاں نبی اکرم نے آرام کی غرض سے پڑائو کیا۔ اس میں ام العبد اور دیگر مقامات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔ مدینہ منورہ کے ترقیاتی ادوار یہ مجسماتی خاکہ سب سے بڑا ہے جو ہال کے وسط میں رکھا گیا ہے ۔اس ماڈل میں مدینہ منورہ کے مختلف ادوار کی عکاسی کی گئی ہے۔ زمانہ قدیم میں شہر نبی کس طرح کا ہوتا ہو گا ، کہا ں اور کن مقامات پر نخلستان ہوتے ہونگے ، کہاں اس دور کا بازار ہوتا ہو گا کے علاوہ مدینہ منورہ کے اہم مقامات کی بھی عکاسی کی گئی ہے ۔ استاد حسان طاہر نے بتایا کہ اس مجسم ماڈل کی تیاری کیلئے 4 ہزار سے زائد ہنرمندوں نے شرکت کی جبکہ اس کی تیاری میں 8 برس کا عرصہ لگا ۔دسیوں کتب کا مطالعہ کیا گیا اس کے علاوہ جب یہ ماڈل مرتب کیا جا رہا تھا تو اہل مدینہ کے 400 سے زائدایسے مستند قدیم باشندوں سے استفادہ کیا جنہیں شہر کی عمرانی تبدیلیوں سے واقفیت تھی ۔ مجسم ماڈل کی تیاری کے مراحل کے دوران ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے تھے جنہیں دیکھ کر کام کرنے والوں کی آنکھیں بھی اشکبار ہونے لگتی تھی ۔
میوزیم کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ ہم شہرکے اس ماڈل پر کام کررہے تھے اسی دوران ایک معمر شخص کو لایا گیا جو مدینہ منورہ کا انتہائی قدیم باشندہ تھا۔ اس شخص کو جب یہ ماڈل دکھایا گیا تو وہ ماڈل دیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ساتھ ہی وہ کہہ رہا تھا آپ لوگو ں نے مجھے ماضی کے حسین ایام میں پہنچا دیا۔ یہ کہتے ہو ئے اس نے مختلف مقامات کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہا ں ہمارا گھر تھا اور اس راستے سے گزر کر ہم مسجد نبوی الشریف جایا کرتے تھے ۔ استاد حسان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے متعدد مناظر ہمیں دیکھنے کو ملے ۔ یہ شہرنبوی کا سب سے بڑا مجسم ماڈل ہے جس کی تیاری میں انتہائی باریک بینی سے کام لیاگیا ہے تاکہ معلومات میں کہیں کو ئی کمی نہ رہے ۔ مدینہ منورہ کے مختلف ادوار کی نشاندہی کرنے کے علاوہ ا س شہر کا یثرب سے " مدینہ النبی ـ" کے سفر کا مکمل احوال مرحلہ وار پیش کیا گیا ہے۔ یثرب کے علاقے بنو عدی اور بنو النجار جو اس وقت شہر کے مرکزی علاقے میں شمار کیا جاتا تھا میں نبی اکرم کی ؤآمد کے موقع پر انصار کا پرجوش استقبال( اس علاقے میں آپ نے مسجد نبوی تعمیر کروائی اور بقیع الغرقد اور اہل مدینہ کے لئے بازار بھی یہاں بنایا گیا) ۔ نبی اکرم کی اونٹنی قصویٰ کا اس مقام پر بیٹھ جانا جو حضرت ایوب الانصاری کا تھا جہاں آپ نے قیام کیا اور اسکے بعد اس مقام کی نشاندہی جہاں مسجد نبوی قائم کی گئی ۔ اس وقت مسجد نبوی کس طرح کی رہی ہوگی کو بھی مٹی اور گارے سے اس کے ماڈلز تیار کئے گئے جو مرحلہ وار توسیع کی عکاسی کرتے ہیں ۔
ہجرت کے سال اول بروز جمعہ ربیع الاول کی 12 تاریخ بمطابق 24 ستمبر 622 عیسوی کو نبی اکرم سالم بن عوف کی بستی میں تھے ۔ جو کہ وادی الرانوناء کے وسط میں واقع تھی۔ اسی دوران جمعہ کی فرضیت کے بارے میں حکم نازل ہوا تو نبی اکرم نے اسی بستی میں پہلی نماز جمعہ ادا کی جس مقام پر نماز جمعہ ادا کی گئی وہاں آج بھی باقاعدہ مسجد قائم ہے جسے مسجد جمعہ کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد قباء کے قریب ہے۔میوزیم کے مجسم ماڈل میں مسجد جمعہ کے ماڈل کے ساتھ ہی اس مسجد کے بارے میں بھی مختصرتحریری نوٹ لگایا گیا ہے علاوہ ازیں اردو زبان میں گائیڈ بھی بہترین اندازمیں وہاں موجود اشیاء کے بارے میں مسلسل معلومات فراہم کر رہا تھا ۔ میوزیم میں غزوہ خندق کے حوالے سے ماڈل کو بہت خوبصورتی سے بنایا گیا تھا ۔ ماڈل میں خندق کھودنے کے مراحل کی بھی مجسم عکاسی کی گئی تھی ۔ آج اس مقام کا شمار جہاں اس وقت غزوہ خندق ہوئی تھی شہر کے وسطی علاقے میں ہوتا ہے ۔ خندق تو زمانہ ہو ا ختم ہو چکی مگر وہ علاقہ سبعہ مساجد یعنی 7 مسجدوں کے نام سے معروف ہے ۔ 25 برس قبل تک یہ علاقہ اتنا آباد نہیں تھا جب یہاں جاتے تھے تو آبادی سے کافی دور نکل کر جانا پڑتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دوسرے شہر کو جارہے ہیں ۔ اب معاشرتی ترقی نے تمام آثار قدیمہ مٹا دیئے ۔
تاریخی کتب کے حوالے سے میوزیم کی انتظامیہ کی جانب سے خندق کے بارے میں لکھے گئے نوٹ پر خندق کی لمبائی 1425 میٹر کے قریب بتائی گئی ہے جبکہ اس کی گہرائی 7 گزاور چوڑائی 9 گز بتائی ہے ۔ واضح رہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ اپنے زمانے کے عسکری ماہر تصور کئے جاتے تھے انہوں نے اسلام کے بارے میں سنا تو وہ حجاز آئے اور راہ حق کو اختیار کیا ۔ انہوں نے اپنی عسکری فراست اور مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے خندق کھودنے کا مشورہ دیا جسے نبی اکر م نے پسند فرمایا ۔ خندق کھودنے کا مقام مقرر کر کے صحابہ کرام کا م میں مصروف ہو گئے یہاں تک کہ نبی آخر الزماں بھی بہ نفس نفیس خندق کھودنے میں مصروف رہے ۔ اسی طرح غزوہ احد کے مقام کی بھی مجسم عکاسی کی گئی ہے جس میں وہ پہاڑی بھی دکھائی گئی ہے جہاں نبی آخر الزمان نے تیر اندام صحابہ کو متعین کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ کسی بھی حالت میں یہاں سے نہیں ہلیں گے۔ ساتھ ہی احد کا میدان اور احد پہاڑ کی بھی مجسم عکاسی کی گئی ہے جس کے بارے میں حدیث شریف ہے جس کے معنی اس طرح ہے " احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم احد سے ـ" ۔ مسجد نبوی اور روضہ شریف متحف دار المدینہ میں مسجد نبوی الشریف کے ابتدائی دور سے لیکر عصر حاضرتک کی مجسم عکاسی انتہائی دلکش انداز میں کی گئی ہے ۔
عہد النبوی الشریف میں مسجد نبوی الشریف کس طرح گارے ،درخت کی چھالوں اور تنو ں سے تعمیر کی گئی تھی بعدازاں توسیع کے مختلف مراحل کو اسی انداز میں پیش کیا گیاہے کہ مشاہدین چند لمحات کیلئے خود کو اسی دور میںمحسوس کر نے لگتا ہے ۔ نقشوں اور رنگوںکی مدد سے مسجد نبوی الشریف میں ہونے والی مرحلہ وار توسیع کی نشاندہی بھی بہترین انداز کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس دور میں کتنی توسیع کی گئی ۔ مسجد نبو ی الشریف سے ملحق بنی اکرم کے مکانات کی بھی عکاسی کی گئی ہے ۔ ان حجروں کو مٹی اور گارے سے بنایا گیا ہے جو اس دور میں رائج تھے ۔مسجد نبوی الشریف کا ابتدائی دور جب مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس ہوا کرتا تھا کی بھی مجسم عکاسی کی گئی ہے بعدازاں جب تحویل قبلہ کا حکم ملا تو دوسری تعمیر کا مجسم بھی ساتھ ہی موجود ہے جسے دیکھ کر قبلہ کے رخ کی تبدیلی کا انداز ہ ہوتا ہے ۔ مسجد نبوی کے اندر روضہ النبوی الشریف کو بہت واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے جسے دیکھ کر فی زمانہ ان افکار کی تردید ہو تی ہے کہ رسول اکرم کی قبر کھلی جگہ پر ہے( جیسا کہ پاک و ہند میں رسول اکرم کی قبر مبارک کے نام پر تصاویر عام دکھائی دیتی ہیں جو غلط ہیں کیونکہ رسول اکرم کے روضہ کے اطراف میں دیواریں ہیں جن میں داخلی دروازہ کوئی نہیں ) ۔ایک اور مجسم جو خلیفہ الولید بن عبدالملک کے عہد خلافت یعنی 706 عیسوی (87ھ) کو ظاہر کرتے ہوئے بنایا گیا ہے جب عمر بن عبدالعزیز ؒ ( عمر ثانی ) مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ان کے دور میں ام المئومین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کے حجرے کی چھت گر گئی تھی جسے اس دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ۔ مجسم میں اس دور کے اس سانحہ کی عکاسی کرتے ہوئے اسے بھی واضح کیا گیا ہے جبکہ تاریخ کی کتب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ678 ھ ( 1279 عیسوی) میں سلطان محمد بن قلاوون الصالحی کے دور میں روضہ اقدس پر پہلی بار لکڑی کا گنبد تعمیر کیا گیا جس میں بعد میں آگ لگ گئی تھی ۔ میوزیم میں اس دور کی بھی مجسم عکاسی کرتے ہوئے ایسے ماڈلز بنائے گئے ہیں جن میں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کون کون سے مقامات آتشزدگی سے متاثر ہوئے تھے ۔
میوزیم کے ڈائریکٹر اور بانی ڈاکٹر عبدالعزیز کعکی کو انکی بہترین کاوش پر شاہ فیصل بین االاقوامی ایوارڈ دیا گیا ۔ میوزیم کے حوالے سے جب ان سے دریافت کیا گیا تو انہو ںنے کہا کہ دنیا تیزی سے تعمیراتی و تمدنی تغیرات سے گزر رہی ہے ایسے میں کوئی چیز ایسی ہونی چاہئے جو ہمیں اپنے ماضی کی یادد لائے اور تاریخ سے جو ڑے رکھے ۔ مدینہ منورہ کی جو اہمیت ہے اس سے کسی کو انکار ہے اور نہ اس میں کوئی دو رائے ۔
شہر مقدس کی تاریخ اور عمرانی ترقی کے مختلف ادوار کی عکاسی کرنے کے اس خیال کو عملی شکل دینے کی کوشش ہے جو سب کیلئے حاضرہے ۔ انہو ں نے بتایا کہ میوزیم میں رکھے گئے نمونوں کی تیاری میں ہمیں 25 برس سے زیادہ کا عرصہ لگا ۔ اس حوالے سے پہلے ہم نے مستند کتب سے استفادہ کیا جس میں شہر نبی کے بارے میں تفصیلات درج تھیں جن میں ایام رفتہ میں شہر مبارک کا نقشہ اس کی حدود ، مکانات ، مساجد ، نخلستان ، بازار ، اور قرب و جوار کے علاقے شامل تھے ۔ جب تمام معلومات یک جا ہو گئیں تو ہم نے اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے کا م کا آغاز کیا ۔ میوزیم کا مقصد مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو اس شہر مقدس کے مختلف ادوار کے بارے میں بتانا ہے ۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ ذہن انسانی مشاہدے کو جلد محفوظ کر لیتا ہے اور اس کے نقوش ذہن پر تادیر قائم رہتے ہیں ۔ مدینہ میوزیم میں جہاں پرانے ادوار کی بے شمار نشانیاں رکھی ہیں وہاں رسول اکر م کے دور کے سکے بھی رکھے ہیں ۔قدیم سکو ں کو باقاعدہ فریم کرکے رکھا گیا ہے جن پر انکے اجراء کی تاریخ بھی درج ہے ۔ نبی اکرم کے دور کے سکے بھی رکھے ہیں جو یکم ہجری سے لیکر 11 ہجری کے درمیان ہیں ۔
سکوں پر درج تاریخ کے مطابق ساسانی دور کے درہم جو 489 عیسوی سے لیکر 521 عیسوی تک کے ہیں کے علاوہ دیگر قدیم نوادار ت بھی موجود ہیں ۔ میوزیم میں خلافت عثمانیہ میں غلاف کعبہ اورہجرہ نبوی کیلئے بھیجا جانے والا غلاف جس مخملی بکس میں لپیٹ کر مکہ مکرمہ پہنچایا جاتا تھا وہ بھی اصل صورت میں رکھا گیا ہے ۔ یہ غلاف سلطان سلیم بن مصطفی کے دور یعنی 1204 ھ کا ہے۔ میوزیم کی انتطامیہ نے عہد نبوی میں استعمال ہونے والے اوزان کے نمونے بھی نمائش میں رکھے ہیں ۔
متحف دار المدینہ کے بانی ڈاکٹر عبدالعزیز کعکی
متحف دار المدینہ کے بانی ڈاکٹر عبدالعزیز کعکی 14/10/1376 ھ ( 1956 ) میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدینہ منورہ میں ہی حاصل کی۔ شاہ سعود یونیورسٹی کے شعبہ انجینیئرنگ سے 1403 ھ میںگریجویشن کی ۔ 1997میں جامعہ الازہر کی فیکلٹی آف انجئینرنگ سے ماسٹر ڈگری حاصل کی ۔ برطانیہ کیherriot watt یونیورسٹی کے edinbourgh college of art سے 2002 میں عمرانی پلاننگ اور منصوبہ بندی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ شاہ سعودیونیورسٹی اور مدینہ منورہ کی بلدیہ کے شعبہ شہری ترقی اور منصوبہ بندی میں مختلف خدمات انجام دیں ۔ مدینہ منورہ ترقیاتی بورڈ میں مشیر کے طور پر تا حال خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر کعکی کو انکی مثالی خدمات پر مختلف اعزازات سے نواز گیا جن میں 1436ھ میں اسلامک اسڈیز کے شعبہ مدینہ منورہ کی ثقافت پر ـ"شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ " دیا گیا ۔ولی عہد ( موجودہ شاہ ) سلمان بن عبدالعزیز ایوراڈ برائے تاریخ اور جزیرہ عرب 1435 ھ میں دیا گیا ۔ شہزادہ سلطان بن سلمان ایوارڈ برائے عمرانی ترقی اور تحقیق ۔1427 ھ،مدینہ منورہ ایوارڈ برائے تحقیق اور عمرانی ترقی 1428 ھ

شیئر: