Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

و ہ محلے دار اس کا شریک حیات بنایا جا رہا تھا

سہیلی نے کہا مجھے معلوم نہیں تھا تمہارے والدین فوراًتمہاری رخصتی کردیں گے
 زینت شکیل ۔جدہ
  وہ سر جھکائے دستخط کر رہی تھی۔ و ہ محلے دار اس کا شریک حیات بنایا جا رہا تھا۔ اسکے دونوں بھائی شہر سے آپہنچے تھے اور اب اتنی جلدی رخصتی پر والد ین کے سامنے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی کیا مشکل ہے کہ آپ لوگ اتنی کم عمری میں اسکی شادی کر رہے ہیں۔
انکی ماں نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہاکہ کم عمری کی شادی اچھی ہوتی ہے۔ بڑابیٹا حیرت کے کہنے لگا ،اس میں کون سی عقلمندی کی بات آپ کو سمجھ آتی ہے جبکہ ابھی کچھ پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی۔ انکے والد نے جواب دیا کہ تم لوگ فکر مت کرو، وہ شہر جاکر اور آگے پڑھے گا اور ہماری بیٹی بھی جہاں تک چاہے گی، اپنی تعلیم جاری رکھے گی۔ بڑے صاحب زادے نے کہا کہ اکثر لوگ رشتے ناتے کے وقت یوںہی کہہ دیتے ہیں کہ بہو اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہے لیکن بعد میں انکا نیا بیان سامنے آجاتا ہے کہ گھر کی ذمہ داریوں میں کہاں اتنا وقت ملتا ہے کہ انسان اتنی مشکل پڑھائی بھی کرے اور اس کی ضرورت بھی کیا ہے ۔کیا ہمیں نوکری کرانی ہے؟ چلئے قصہ ہی ختم ہوگیا۔
والد صاحب نے کہاکہ دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے چھوٹے شہروں کے بڑے خاندانوں میں آج بھی اپنی کہی ہوئی بات کو عہد سمجھ کر پورا کرتے ہیں ۔اس لئے اچھی امید رکھنی چاہئے ۔ماں نے کہا کہ اب اتنے دنوں میں کیا تیاری ہوسکتی ہے۔ تم دونوں نے صرف ایک ہی ہفتے میں واپسی کا ارادہ کرلیا۔ انکے دوسرے بیٹے نے فوراً بات بنائی اور کہا کہ ہمارے کالج کی پڑھائی تو پورے سمسٹر ہی ہوتی رہتی ہے ہمیں اتنی چٹھی کہاں مل سکتی ہے؟
مزید پڑھئے: ہمت ، محبت اور قربانی کی منہ بولتی تصویر
اسی دوران دوسرے شہر سے آنے والی سہیلی وہاں میرٹ پر داخلہ حاصل کرنے والوں کی فہرست ہاتھ میں لئے پہنچی ۔ کہنے لگی کہ فہرست میں سب سے پہلا نام تمہارا ہے ۔تم یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈٹیکنالوجی میں میرٹ پر داخلہ لینے میں کامیاب ہو چکی ہو ۔ اس نے تو کوئی جواب نہ دیا مگر اس کی والدہ نے کہاکہ یہ سب نصیب کی بات ہے۔ موقع ہوا تو اس شہر میں جا کر پڑھ لے گی ورنہ جو کالج کی پڑھائی اس کے شہر میں ممکن ہو گی، ضرور پڑھے گی۔ وہ چپکے سے اپنی سہیلی سے پوچھ رہی تھی’ ’کیا تم ایڈمیشن لو گی؟“
اس کی سہیلی حیرت سے سوال کے جواب میں سوال پوچھ رہی تھی کہ کیا کوئی اتنی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل جانے پر وہاں کی ڈگری حاصل نہیں کرے گاجبکہ اس کے لئے 12 سال تعلیمی جدوجہد کی ہو۔ میں تو وہاں اپنے ساتھ تمہارے لئے بھی ہاسٹل میں کمرے کا کہہ کر آئی ہوں ۔مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ ابھی بات چیت شروع ہوئی ہے تو فوراً تمہارے والدین تمہاری رخصتی بھی کردیں گے ۔ وہ کہنے لگی، بڑوں کی بات ماننااچھا ہے ، اس سے مالک حقیقی خوش ہوتا ہے ۔یقینامیرے لئے اس میں ہی بہتری ہوگی ۔
وہ انجینیئرنگ پروگرام مکمل کرچکی تھی اور اسی تعلیمی شعبے میں بطور معلمہ تعینات ہو چکی تھی اورمزید پڑھائی کرنے کا ارادہ بھی رکھتی تھی۔ اس کے بھائی نے اپنے اعلیٰ تعلیم ہافتہ کزن سے اس کا رشتہ طے کردیا اور اسے بھی اسی شہر میں جاب مل گئی جہاں وہ معلمہ کے فرائض ادا کررہی تھی۔
مزیدپڑھئے:پولیس کا نام اوروردی بدلتی ہے، کام اور کارکردگی نہیں
بھائی نے کہا کہ تم اپنی سہیلیوں میں سے جس کا چاہو، کارڈز پر نام لکھ دو، ہم ان لوگوں تک پہنچادیں گے۔ اس نے بھائی سے کہاکہ میری بچپن کی تو ایک ہی دوست ہے اور وہ عورتوں کی تعلیم کی غرض سے نجانے کہاں کہاںایک ایک مہینے کے لئے اپنے شوہر کے ساتھ سفر کرتی ہے ۔اگر ملک میں موجود ہو گی تو ضرور ہمارے گھر آپہنچے گی اور وہ اپنی بہترین سہیلی کی شادی کا سن کر اپنا دورہ مختصر کرکے دو دن پہلے ہی اس کے پاس پہنچ گئی۔
وہ ان دو دنوں میں اپنی، جہاں بھر کی باتیں کرتی رہیں اور آخر کار وہ سوال بھی اس کی زبان پر آگیا کہ کیا تمہیں افسوس ہوتا ہے کہ اتنی اچھی یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ ہوجانے پر تم وہاں نہیں پڑھ سکیں جبکہ اس جگہ داخلہ کی خواہش اکثر طالبات کو ہوتی ہے؟ اس نے جواب دیاکہ ”سچ تو یہ ہے کہ میں مسلسل کئی دن تک نفل نماز میں دعا مانگتی رہی کہ مالک حقیقی !میرے لئے وہ فیصلہ فرما دے جو میرے لئے بہترین ہو،اور پھر راستہ کھلتا گیا ۔اتنی جلدی ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں جا کر بسنا ہوا اور پھر سات بچوں کی ذمہ داری بھی مل گئی اور قدرت نے جو کام لینا تھا اس کا سلسلہ بنتا گیا ۔آج7ممالک میں ہمارے شوہر کے قائم کردہ نصف درجن تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جہاں تعلیم سے زیادہ تربیت پر توجہ دی جاتی ہے اور یہی بات لوگوں کو متوجہ کرتی ہے کہ آج کی تعلیم نے لوگوں کو بڑی بڑی ڈگریاں تو دے دی ہیں لیکن انسانیت کاسبق دینا بھول گئے اور اس کی کمی پورے معاشرے میں نظر آتی ہے۔ آدمی کا احترام سب سے اہم ہے ۔اسی سے آپکی شخصیت اجاگر ہوتی ہے۔ 
بیرون ملک رہنے والے اس کے دونوں بھائی بہت فخر سے اپنے بہنوئی کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کا ذکر اپنے احباب کے درمیان بیٹھ کرکرتے ہیں اور اس میں خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن دل میں وہ بھی یاد کرتے ہیں کہ وہ اس شادی کے کتنے خلاف تھے اور اب اسی رشتے کا بصد فخرذکر کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ ان سے سفارش کراتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کا داخلہ وہیں کرانا چاہتے ہیں لیکن سیٹ نہیں مل سکی۔ آپ ذرا کہہ دیں کہ کوئی گنجائش پیدا کیں تو بڑی مہر بانی ہوگی۔ وہ قسمت کے عجیب کھیل کودیکھ رہے تھے اور جان چکے تھے کہ بزرگوں کے فیصلے بہترین ہوتے ہیں ۔جاننا چاہئے کہ دعائیں ہر ایک کی قبول ہوتی ہیں۔
 

شیئر: