Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی کے سفر میں اپنوں کو پرائے بنتے دیکھا

میرے والد، ان کے والد اور ان کے والد یعنی پردادا تک وکیل تھے پھر میرے والد کے بھائی یعنی چچا بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے،ابا اپنے حلقے میں بہت بااثر تھے
زاہدہ قمر۔ جدہ
قسط نمبر 4
اپنے والد کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے میں ہمیشہ جذباتی ہو جاتی ہوں۔ ان کی مو ت نے شاید ہم سب بہن بھائیوں کو وقت سے پہلے بڑا کر دیا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ خصوصاً رشتے اتنی بے رحمی اور بے شرمی سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔ ایک چھوٹا سا تجربہ آپ لوگوں سے ضرور شیئر کرنا چاہوں گی۔ میرے والد، ان کے والد اور ان کے والد یعنی پردادا تک وکیل تھے پھر میرے والد کے بھائی یعنی چچا بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ انہوں نے وکالت کی تعلیم ملک اور بیرونِ ملک حاصل کی۔ ان کے 8 بھائی تھے۔ سب نے وکالت کو پیشہ نہیں بنایا کسی نے بزنس کیا اور کسی نے ملازمت کی اور اعلیٰ عہدیدار بنے۔ ان ہی اعلیٰ عہدیداروں میں میرے ایک چچا بھی تھے ( جن کا نام میں نہیں لکھ رہی) ان کا اور ان کی بیگم یعنی چچی صاحبہ کا ہمارے گھر زیادہ آنا جانا تھا۔ وہ اور رشتے داروں کی نسبت ہمارے گھر زیادہ آتے تھے کیونکہ چچا کو زیادہ تر اباً سے ہی کام پڑتا تھا ابا اپنے حلقے میں با اثر اور با عزت شحصیت تھے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا با اثر لوگوں میں تھا لہٰذا چچا کا ہر کام با آسانی ہو جایا کرتا تھا۔ ابا اپنے سب بھائیوں کو چاہتے تھے اور ان کے کام آتے تھے۔ مذکورہ چچا اور چچی ہم بہن بھائیوں سے بہت ”پیار“ کرتے۔ جب بھی آتے گھنٹوں بیٹھتے۔ ایک ایک سے تفصیلی بات کرتے، کھاتے پیتے بلکہ دعوتیں اُڑاتے کیونکہ اماں بڑی متواضع خاتون تھیں اور مہمانوں کو بڑے عز ت واکرام سے گھر میں جگہ دیتیں۔ 
قارئین!آپ یقین کریں گے کہ ہم سب اپنی چچی کو چچا سے زیادہ پیار کرتے کیونکہ وہ چچا سے بھی آگے بڑھ کر ہمارا خیال کرتیں۔ مجھ پر ان کی خاص عنایت تھی کیونکہ مجھے وہ بہت چاہتی تھیں کبھی آئسکریم ، کبھی پھل، اور سردیوں میں ڈرائی فروٹ وغیرہ جیسی سوغات سے لدی پھندی آتیں۔ ہم بھی ان سے بڑھ کر ان کا خیال کرتے اماں تو بازار سے موسم کے کپڑوں اورگھریلو اشیاءتک کی خریداری کرتے ہوئے انہیں یاد رکھتیں اور ان کےلئے ضرور کچھ نہ کچھ لیتیں۔ یہ تفصیل اس لئے لکھی کہ آپ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ دوستی کتنی زیادہ تھی تو جناب! پھر منظر بلکہ مناظر بدلتے ہیں۔ 
ابا کو کینسر ہوا پہلے وہ بیمار بیمار اور کمزور سے ہونے لگے اور پھر بستر پر پڑ گئے۔ رشتے دار پریشان ہو کر ان کی مزاج پُرسی کو آنے لگے ہماری پسندیدہ چچی بھی آتیں اور باقاعدہ ابا کی حالت دیکھ کر رو پڑتیں ان سے کھانا نہیں کھایا جاتا ، نوالے حلق میں اٹک اٹک جاتے تو ہم انہیں زبردستی پیک کر کے کھانا دیتے کہ گھر جا کر کھا لیں۔ ابا کی حالت روز بروز بگڑنے لگیں جب تمام ٹیسٹ کرائے گئے تو یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ ابا کو کینسر ہو گیا ہے۔ یہ خبر بجلی بن کر ہم پر گری ۔ یوں لگا کہ زندگی میں شاید کچھ بھی نہیں رہا۔ ہم ابا کی زندگی کے لیے اللہ کے حضور گڑ گڑانے لگے، لوگوں سے التجائیں کرتے کہ وہ بھی ابا کی زندگی کے لئے دُعا کریں اس تمام صورتحال میں حیرت انگیز طور پر دیگر چچاﺅں کے برعکس ”پسندیدہ “ چچی اوران کے شوہر و بچوں یعنی چچا اور ان کے بچوں نے ہمارے گھرآنا بہت کم کر دیا۔ابا کینسر کی تشخیص کے بعد 4 مہینے زندہ رہے اور ان 4 مہینوں میں شاید چچا کی فیملی 3 بار ہی آئی ہو گی۔ 
پسندیدہ چچی جب بھی آتیں لہجہ اُکھڑا ہوا اور چہرے پر بے زاری ہوتی۔ ہم لوگ اپنی پریشانی میں اس بات کو زیادہ محسوس نہ کر سکے ابا کے لئے دُعائیں اور اذکار سے ہی فرصت نہ ملتی تھی۔ آخر ابا کی رُخصت کی گھڑی آ پہنچی ہماری ساری دُعاﺅں کو تحفہ آخرت اور خدمتوں کو ذریعہ نجات بنا کر اس دنیا سے رُخصت ہو گئے۔ یقین نہیں آتا تھا کہ وہ ہم سے جُدا ہو گئے ہیں اور ان کے جانے کے بعد ہم نے پسندیدہ چچی کی فیملی کوکبھی اپنے گھر آتے نہیں دیکھا ۔حتیٰ کہ اپنے والد جیسے محبت کرنے ہمیں پالنے ، پڑھانے لِکھانے اور باپ بن کر دکھانے والے جوان بھائی کی موت پر بھی چچی کی فیملی ہمارے گھر نہ آئی ، اور اب سے 2 سال پہلے اماں کی وفات پر بھی ان کی بے حسی میں فرق نہ آیا۔
مجھے اپنے دیگر رشتے داروں سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ انہوں نے کبھی اسقدر غیر معمولی محبت کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی اسقدر صبح شام کا میل جول بڑھایا اور ایک اور بات کہ اباً سے اتنا زیادہ کام بھی نہیں لیا تھا جس قدر پسندیدہ چچا فیملی نے لیا تھا۔ 
دیگر رشتے داروں نے تھوڑا بہت خیال بھی رکھا اور اس طرح آنکھیں نہیں پھیریں تھیں بڑے سلیقے سے خود کو ہم سے دور کیا تھا۔
قارئین! یہ کوئی ڈرامہ یا افسانہ نہیں زندگی کی تلخ سچائی ہے کہ کچھ لوگ اپنی اصلیت دکھانے کے لئے کسی سلیقے، تمیز اور تہذیب سے کام نہیں لیتے وہ اتنے بے رحم اور بد لحاظ ہوتے ہیں کہ انہیں دین تو بہت آگے کی بات ہے، دنیا داری بھی نبھانے کا خیال نہیں آتا۔
زندگی عجیب چیز ہے۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، نہ ہی ہمیشہ حالات پر ہماری گرفت رہتی ہے، بڑے بھائی نے جنہیں ہم پیار سے بابر بھائی کہتے (حالانکہ ان کا نام اسد علی خان تھا) بہت جلد دوڑ دھوپ کرکے ملازمت کر لی ، ان سے چھوٹے اشرف بھائی بھی توکری ڈھونڈنے لگے۔ تعلیم اور نوکری ایک ساتھ کرنے کے ارادے تھے مگر بابر بھائی نے منع کر دیا۔
ایک سال کے اندر اندر زندگی بالکل تو نہیں مگر تھوڑی بہت معمول پر آگئی۔ میں ، میری بہن شاہدہ اور کامران ہم تو ابا کی زندگی ہی میں کالج پہنچ گئے تھے۔ یہ بھی ابا کی خواہش سے ہوا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنے بچوںکو وقت سے پہلے کالج پہنچا دیں۔ ہم نے ہفتم جماعت میں ساتویں پوزیشن لی تو ابا نے میڈم سے بات کر کے نہم جماعت میں داخل کرا دیا کہ جماعت ہشتم یعنی آٹھویں میں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ساتویں کے تمام سیکشن میں سب سے زیادہ نمبرز لے کر کامیاب ہوئی ہو ۔ میٹرک کے بعد ہم کالج پہنچ گئے مگر جیسا کہ کالج کی زندگی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں آزادی ہوتی ہے ایسا کچھ نہ تھا ۔ہمیں تو یونیفارم اور کتابوں کے فرق کے سوا کچھ بھی فرق معلوم نہیں ہوا۔ گورنمنٹ کالج کی اساتذہ بہت اچھی تھیں۔وہاں ہم نے ہر طرح کی سرگرمی میں حصہ لیا۔بڑی بہن یعنی یاسمین باجی کی شادی ابا کی وفات سے ایک سال پہلے ہوئی تھی ۔تینوں بڑے بھائیوں نے گھر کو سنبھال لیا۔ میرے بچپن میں آپ کو بہت سی باتیں بے ترتیب لگیں گی کچھ واقعات اُلٹ پلٹ ہیں۔ دراصل یہ زندگی کی کہانی ہے اسی لئے مربوط نہیں زندگی میں بھی تو ربط نہیں کبھی آپ ماضی میں پہنچ جاتے ہیں تو کبھی مستقبل میں جیتے ہیں ۔ میں اپنی یادوں کو سمیٹ کر آپ کو زندگی کے البم سے یادگار تصاویر دکھا رہی ہوں ۔ کبھی کوئی تصویر پہلے آجاتی ہے اگر چہ اسے بعد میں آنا ہوتا ہے اور کبھی کوئی بعد میں آ جاتی ہے۔ حالانکہ اسے پہلے آنا چاہیئے ۔ مثلاً روتی ہوئی دھندلی آنکھوں سے صفحے پلٹے تو ایک ہنستی ہوئی تصویر نے توجہ کھینچ لی یہ عیدی کی تصویر ہے معلوم نہیں کہ آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے یا نہیںکہ آپ کی عیدی کے پیسے ہمیشہ اماں نے لے لئے ہوں یہ کہہ کر کہ جمع کرکے تمھیں دے دوں گی میرے پاس رکھو ا دو اور پھر وہ پیسے کبھی دینے کی نوبت نہ آئی حتیٰ کہ دوسری ، تیسری ، دسویں اور بے شمار عیدیںگُزر گئیں مگر وہ رقم جمع نہ ہو سکی۔ اگر ہوئی تو ملی نہیں۔ ہوتا یوں تھا کہ جونہی کوئی رشتے دار ہمارے گھر آتا یا پھر ہم اس کے گھر جاتے وہاں سے عیدی لیتے اور تنہائی پاتے ہی اماں اُچک لیتیں کہ ”اتنے پیسوں کا تم لوگ کیا کرو گے؟؟ارے بازار کی گندی چیزیں کھا کر بیمار پڑ جاﺅ گے کپڑے میں بنوادوں گی، کھلونے میں لے دونگی (بڑا زبردست پیکج ہوتا تھا) تم سے تو پیسے کھو جائیں گے یا پھر کوئی ہاتھ سے چھین لے گا(کوئی ؟؟؟؟)مجھے دے دو میں ڈبل کرکے دوں گی“اور کبھی یہ کہا جاتا کہ ”بھئی ! تم کو عیدی تھوڑی ملی ہے۔ یہ تو ہم کو دی گئی ہے کیونکہ ہم کو بھی تو ان کے بچوں کو دینا ہے۔ اسی میں اور مِلا کر دے دیں گے۔ “ 
جناب ان یادوں میں سے ایک یاد پاکٹ منی یعنی جیب خرچی کی ہے جو کہ شاید ہر بچے کو اس کی خواہش سے کم ملا کرتی ہے اور اس کے دوست یا سہیلیاں اسے چڑاتی ہیں ۔ حالانکہ وہ بھی اپنے جیب خرچ کو کم سمجھ کر خوب خوب چڑتے ہیں ۔والدین سے ضد کرتے ہیں مگر جب اپنے سے کم والے بچے کو احساس کمتری کا شکار دیکھتے ہیں تو فوراً اپنے جیب خرچ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ۔ ہم پانچوں کو بھی ہماری خواہش اور ضروریات سے کم جیب خرچ ملتا ، اب دیکھئے ناں ! اگر روز برگر خریدنے اور کولڈ ڈرنک کے لئے بہت سوچ و بچار کرنی پڑتی،پھر میٹھی املی اور پیسٹری بھی کھانے کو دل کرتا علاوہ ازیں گڑیا کے کپڑے لتوں کا خرچ ، اس کے چھوٹے پلاسٹک کے برتن اور چھوٹی گاڑی ، جس میںگڑیا سما نہیں سکتی تھی (گڑیا اور گاڑی کے سائز میں مطابقت نہ ہونے کے سبب)تو گاڑی ہمیشہ گڑیا کے گھر کے باہر یعنی مچان سے زرا دور ہمیشہ پارکنک کی حالت میں رہتی اور اگر گڑیا یا گڑیا کی فیملی میں سے کسی کو کہیں جانا ہو تا تو گاڑی کی چھت پر بیٹھ کر جاتے ہمارے خرچے کسی صورت پورے نہ ہوتے ، ؛ابا اماں دونوں سے بار بار درخواست کی جاتی ، ابا توخیر کم ہی ملتے مگر اماں ہمہ وقت دستیاب رہتیں اور ہماری ہر درخواست کو کسی سرکاری افسر کے پی اے کی طرح رد کر دیتیں اور پھر وہی وعدے وعید شروع ہو جاتے کہ ہر چیز میں لا کر دونگی۔ تم خریدوگی تو دکاندار خراب اور مہنگی دے گا، اور گڑیا کو ہر وقت کپڑوں اور برتنوں کی کیا ضرورت؟ وہ کونسا کپڑے برتن استعمال کرتی ہے؟؟ اور برگر!! روز برگر، ہائے ہائے کتنا گندا ہوتا ہے باہر کا برگر اور یہ چنا چاٹ ، کتنی مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں اس پر اور یہ ٹھیلے والا میں نے خود آتے جاتے دیکھا ہے ہاتھ تک نہیں دھوتا ناک صاف کر کے تمہیں پتہ ہے کل اس نے کیا کیا ؟ ہوا یوں کہ.... وہ واعظ کئے جاتیں کہ ہماری سات پُشتیں تک توبہ کرتیں۔پتہ نہیں بچوں کے والدین کو ٹھیلے والوں اور پھیری لگانے والوں کی حرکات کس طرح پتہ چلتی ہیں اور تقریباً سب کو ایک ہی طرح کی حرکات و سکنات ایک ہی انداز میں سارے والدین بیان کرتے ہیں اور ان کا لب و لہجہ بھی تقریباً یکساں ہوتا ہے یہ بات ہماری دوستیں بھی بتا تیں جو کہ بہت دور سے آتی تھیں اور ان کے والدین ان کو چھوڑنے یا لینے کبھی اسکول نہ آتے مگر ان کے والدین کو بھی برگر اور آلو چھولے کی چاٹ بنانے والوں کے سب کرتوت ازبر تھے اور قریب رہنے والی دوستوں کے والدین کو بھی۔ یہ بات اب سمجھ میں آتی ہے جبکہ ہم خود والدین کے رتبے پر فائز ہو گئے ہیں ۔
 (باقی آئندہ)

شیئر: