Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بامقصد سوچ کی ترویج کرنے والی افسانہ نگار، ”قمر ا لنساءقمر“

زینت شکیل۔جدہ
مالک حقیقی نے انسان کو ہمہ جہت دماغ عطا فرمایاہے یہی وجہ ہے کہ انسان کی ذہانت کا امتحان ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔علم وادب کا زندگی سے گہرا تعلق ہے ۔ معاشرتی مسائل، جغرافیائی تغیرات زندگی کی بےشمار ضرورتیں،زندگی کی بےشمارلغزشیں، زندگی کی بےشمار تمنائیں، زندگی کے بےشمارحوصلے انسان کا امتحان لیتے ہیں۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی اور اپنے لوگوں کی رہنمائی کا ذمہ لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حالات کوبدلنے کا حو صلہ رکھتے ہیں۔ جن کے قدموں میںفاتح جیسا اعتماد اور جن کی روشن پیشانیوں پر ستارہ¿ اقبال و ہوشمندی ہویدا ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان کے بعد صحت و عافیت بھی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ تدبر کرے ۔شک نہیں کہ اجتماعی زندگی اور مذہب بایں ہمہ یہ دونوں لازم ملزوم ہیں ۔یہ ایک ورق کے دو صفحات ہیں۔ ان کے بغیر ورق کا وجودممکن نہیں ۔انسانی زندگی کے ارتقا ءکے ساتھ ساتھ مذہب کے ارتقاءکی شکلیں بھی نمودار ہوتی گئیں اور اسی اجتماعی زندگی نے آرٹ کو جنم دیا۔
اجتماعی زندگی کا ایک قانون ہوتا ہے اور آرٹ اس قانون کی جمالیاتی تشریح ہے ۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کی فوج1971میںمشرقی پاکستان میں ہاری نہیں تھی بلکہ سیاست کے انتشار اور آپس کی کشمکش نے انہیں پیشقدمی سے روکدیا اور بڑوںکی لڑائی میں عوام کو آزاد ی کی زندگی سے دور کر کے دوبارہ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیاگیا۔ جن لوگوں کی مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آمد ہوئی، ان خاندانوں کو دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل کرنے میں مغربی پاکستان کے دردمندوں نے انکی فوری ضرورتوں کو پورا کرنے میں بھرپور ساتھ دیا۔ قمرالنساءقمر صاحبہ کا نام ان میں بہت آگے ہے جنہوں نے معاشی طور پر مستحکم ہونے میں ان خواتین کی مدد کی۔ پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں اورہر قوم کی زندگی کے لئے وطن کا استحکام ضروری ہے۔
صوبہ بہار کی تاریخ ،ہندوستان میںسب سے قدیم تاریخ ہے ۔اجگیر میںبن گنگانالے سے متصل جس قدیم قلعے کی فصیل کے آثار پائے جاتے ہیں ،ان کے متعلق ڈاکٹر ڈیوڈ نے لکھا ہے کہ سارے ہندوستان میں قدیم ترین سنگین دیواریہی ہے جسکے نشانات باقی ہیں۔
قمرالنساءقمر ہندوستان کی ریاست بھوپال سے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان پہنچیں جن میں والد مولوی نورالدین چشتی، بھائی مولانا وہاج الدین چشتی،معین الدین چشتی،محی الدین چشتی ،بہن زیب النسانزہت، والدہ زبیدہ خاتون، بھابھی حبیبہ اور چار سالہ بھتیجے ظہورالحسن بھوپالی شامل تھے۔ وہ ان سب کے ہمراہ22مئی 1950ءکووزارت خارجہ، حکومت پاکستان کے جاری کردہ پاسپورٹ پر آئیں۔وہ دوسری ہجرت کرنے والوں یعنی مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آنے والوں کیلئے درد کا درماں بن گئیں۔ آپ کے دادا مولوی میر احمد حسین ریاست بھوپال کے پولیٹیکل سیکریٹری تھے۔1973ءمیں قمر النساءنے خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے ”تنظیم فلاح خواتین“ کے نام سے ادارے کی بنیاد رکھی۔ ان کی سماجی”علمی،ادبی، مذہبی اور فلاحی خدمات کی وجہ سے آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ادب اور زندگی ایک دوسرے سے ایسے منسلک ہیں جیسا کہ آواز کا تعلق بیان سے ہوتا ہے۔ اسی لئے قمرالنساءقمر نے معاشرے میں موجود مسائل کی نشاندہی کے ساتھ اسکا حل بھی تلاش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انکا حل تلاش کرنے کی جدوجہدبھی شروع کی۔
قمرالنساءقمر کا افسانوی مجموعہ ”انکشاف“ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے جسے انہوں نے اپنی والدہ زبیدہ خاتون انصاری کے نام کیا ہے۔ یہ تمام افسانے1950ءتا1980ءکے دوران ضبطِ تحریر میں لائے گئے ہیں اور کراچی کے معروف اخبارو جرائد میں شائع ہوکر اہل نقدونظرسے دادو تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
پاکستان کے ایک ممتاز صحافی اورشاعرکا کہنا ہے کہ بیگم قمرالنسا ءقمر اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ سیاست کافہم رکھتی ہیں، ملک کے لئے فکر مند رہتی ہیں ،انسانیت کے وقار کی قائل ہیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود،غریبوں کی غمگساری،ظلم وجبر کی مزاحمت انکی شناخت ہے ۔وہ قومی اسمبلی میں کراچی کے مسائل پر آواز بلند کرتی رہی ہیں۔
کردار نگاری پر انکو کافی عبور حاصل ہے۔ ان کی تحریر شدہ کہانیوں میں وطن عزیز میں گزرنےوالے المیے بھی ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان نے کرداروں کو کیسے متاثر کیا ،درسگاہوں میں سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں نوجوانوں کے ذہنوں کو زخمی کرتی ہیں۔
ممتاز شاعروتنقید نگارپروفیسرجاذب قریشی کا کہنا ہے کہ کوئی 70 برس پہلے لاکھوں انسان اپنے شہر،اپنے قصبات،اپنے دیہات اور گھروں کو چھوڑ کر زندگی کے ایک نئے سفرپر نکلے تھے۔ ان لوگوں نے زمین وآسمان ان موسموںاور اس تاریخی تسلسل کو اپنے وجود سے اتار دیا تھا جس پر انکے آباءواجداد نے اجلے خوابوں کے عکس اور خوبصورت آوازوں کی روشنیاں لکھی تھیں۔
قمرصاحبہ کے سماجی وقومی کاموں کو ہم سب ہی جانتے ہیں ۔ان کے شوق کی خوشبو نے صرف خواتین ہی کو نہیں مہکایا بلکہ ان کے پاکیزہ خیالات،محبت آمیزروئیوں اور خلوص پر مبنی خدمت گزاریوں سے پورے پاکستانی معاشرے نے استفادہ کیا۔قمر صاحبہ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس سفر بھی کئے اور امریکہ،فرانس، برطانیہ کی سیاحت بھی کی جس کے سبب انکے تجربوں میں نئی زندگی کی مثبت ضرورتوں کا احساس شامل ہو گیا ہے۔
قمر صاحبہ پاکستان کی بے لوث ہنر مندیوںکی منفرد پہچان بن گئی ہیں ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات کو دیکھا جائے تو ان میں منگنی، جہیز، غربت وامیری ،شہر ،کالج اور یونیورسٹی کے الیکشن جیسے موضوعات شامل ہیں ۔
محترمہ سعیدہ افضل کا کہنا ہے کہ1968ءسے قمر صاحبہ سے دوستی اور قدردانی کا رشتہ قائم ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی خوبصورت پہلو ہیں۔ وہ نیک طینت،انسان دوست اور بہت پاکیزہ خیال کی حامل شخصیت ہیں۔ وہ ایسی افسانہ نگار ہیںجو بامقصد اور مثبت سوچ کو ترویج دینے کا شعور رکھتی ہیں ۔
ممتاز صحافی وافسانہ نگاررضوان صدیقی کا کہنا ہے کہ بیگم قمر النسا ءقمر ہمارے ملک کی معروف اور محترم سماجی شخصیت ہیں۔ انکی محنت اور توجہ سے ایک مضبوط اورمتحرک ٹیم تیار ہوئی ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں محدود وسائل کے باوجود خدمت خلق میں مصروف ہے ۔
ممتازشاعرو خلائی سائنسدان ڈاکٹر ظفر محمد خان ظفر نے محترمہ قمر کے افسانوں کو نہایت فکر انگیز اور دلچسپ پیرائے میں لکھے گئے افسانے قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان افسانوں کو بہت پر اثر سمجھتے ہیں۔یہ افسانے طویل ہوں ہا مختصر، قاری پر گہرا اثر ثبت کرتے ہیں۔
قمرالنساءصاحبہ نے1979ءمیں بلدیہ عظمیٰ، کراچی کی کونسلر اور1985ءمیں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو کرپارلیمنٹ میں خواتین کے حقوق اور ملک میں خواتین یونیورسٹیوں کے لئے بھر پور آواز بلند کی۔بےشمار ترقیاتی منصوبوں اور تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنایا ۔ 
 

شیئر: