Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

4روزہ ٹیسٹ ،آئی سی سی کی جلد بازی

  لندن:جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے 4روزہ ٹیسٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ بہت شور سنتے تھے پہلے چار روزہ ٹیسٹ میچ کا، لیکن ہوا کیا؟ صرف 907 گیندیں پھینکی گئیں، 3 اننگز ہی کھیلنا پڑیں۔498 رنز بنے اور پانچواں سیشن ختم ہونے سے بھی 15 منٹ پہلے یہ تاریخی میچ ختم ہو چکا تھا۔یہ پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ تھا جس میں صرف پہلے روز ہی لائٹس جلانے کی ضرورت پڑی اور دوبارہ یہ نوبت آنے تک میچ کی بساط ہی لپٹ چکی تھی۔ایسا نہیں کہ کرکٹ جنوبی افریقہ نے اس تاریخی میچ کو کامیاب بنانے کےلئے خاطر خواہ تگ و دو نہیں کی۔ میزبان بورڈ کی طرف سے اہتمام کے ساتھ باکسنگ ڈے کو چنا گیا۔ پہلے پاکستان سے درخواست کی گئی کہ وہ صرف ایک ٹیسٹ کےلئے جنوبی افریقہ کا دورہ کرے لیکن پی سی بی نے اس سال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کر دیا۔پھر ہندوستانی بورڈ سے کہا گیا لیکن وہ بھی قابو نہ آیا تو کرکٹ کیلنڈر پہ بار بار نظر دوڑائی گئی اور بالآخر جب کچھ سجھائی نہ دیا تو زمبابوے کو ہی پہلے چار روزہ ٹیسٹ میچ کےلئے مدعو کر لیا گیا اور یوں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے چار روزہ میچ کا نتیجہ اس کے انعقاد سے بہت پہلے ہی نوشتہ دیوار بن گیا۔تجزنہ نگار نے مزید کہا کہ اس ایونٹ کےلئے ایسی مارکیٹنگ کی گئی کہ نسبتاً کم دلچسپی کا حامل مقابلہ ہونے کے باوجود میچ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہالیکن ڈیل ا سٹین کو کھیلتا دیکھنے کی حسرت پوری نہ ہو سکی۔ اس سے نہ صرف کرکٹ شائقین کو مایوسی ہوئی بلکہ ایک بار پھر آئی سی سی کا ایک اور بے سبب تاریخی تجربہ بے ثمر ثابت ہوا۔ تجزیہ نگار کے مطابق حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کی بقا ءکےلئے ایسی لا پروائی کہ چار روزہ ٹیسٹ کا تجربہ ہی ایسی دو ٹیموں کے درمیان کیا جاتا ہے جن کا چار روزہ کرکٹ تو دور، تین گھنٹے کا جوڑ بھی نہیں بنتا۔ ون ڈے کی ہیئت بدل گئی ہے، ٹی ٹوئنٹی کی ایسی بھرمار ہے کہ کسی چھکے، کسی چوکے کا مفہوم سمجھ نہیں آتا۔یہ بات واضح ہے کہ فی الوقت آئی سی سی کی توجہ کرکٹ کے معیار سے کہیں زیادہ مقدار پہ ہے۔ ہر ایونٹ، ہر میچ، ہر مقابلے کو صرف ریٹنگ کے پیمانے سے ناپا جا رہا ہے۔ آئی سی سی کو فکر لاحق ہے کہ کرکٹ کرہ ارض کے سبھی خطوں میں کیوں نہیں کھیلی جا رہی۔ فٹبال بھی تو ہے جس کے ہاں پیسے کی بارش کبھی تھمتی ہی نہیں۔ کرکٹ ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ یہی وہ سوچ تھی جس کے تحت فیفا کے تجربہ کار ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان کاوشوں میں بنیادی تحریک تو یہی تھی کہ کرکٹ زیادہ سے زیادہ مقبول ہو لیکن اثر مختلف رہا ہے۔ کون کب کہاں کس سے کھیل رہا ہے اور کیوں کھیل رہا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ مسئلہ یہ ہے کہ جیسے فٹبال کے ماڈل کو اپنا کر آئی سی سی ا سپورٹس مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ ماڈل ثمربار ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کرکٹ کا صارف فٹبال کے فین سے یکسر مختلف ہے۔فٹبال کا صرف ایک ہی فارمیٹ ہے جو روز اول سے چلا آ رہا ہے جبکہ کرکٹ ہر چند سال بعد اپنا حلیہ بدل رہی ہے۔ ایسے میں جہاں ایک نیا فارمیٹ کچھ نئی آنکھوں سے داد سمیٹتا ہے، وہیں کئی مداح کرکٹ کے مستقبل سے روٹھنے بھی لگتے ہیں۔اس قضیے میں گو سب توانائیاں ٹیسٹ کرکٹ کو بچانے میں صرف کی جا رہی ہیں مگر عالم یہ ہے کہ ایشز میں بھی شائقین کم ہونے لگے ہیں۔ گلابی گیند سے کچھ سہارا تو ملا ہے مگر ڈے نائٹ میچ بھی ٹیسٹ کرکٹ کو ابھی کچھ زیادہ نہیںدے سکا ۔ اس صورتحال میں ا آئی سی سی کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ تجوریاں بھرنے کا شوق اور کرکٹ اقدار کی علمبرداری ایک ساتھ نہیں چل رہے۔ 

شیئر: