Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”بھوتوں“ کے بسیرے کی کہانی ،آنکھیں پھاڑ پھاڑکر بیان کی جاتیں

ہمیشہ اس بات پر فخر کرونگی کہ میں نے پاکستان ائیر فورس اور بحریہ کے کالجز میں پڑھایا، مجھے شروع سے ہی فورسز کے اداروں میں پڑھانے کا شوق تھا، وہاں سے اساتذہ اعلیٰ درجے کی پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل ہیں 
زاہدہ قمر،جدہ
پانچویں قسط
اب قارئین خود سمجھدار ہیں اس تھوڑے کو سمجھ جائیں گے ۔ گویا کوزے میں سے دریا کو پالیں گے۔ ایک بات یہ بھی اسکول لائف میں مشترک ہوتی ہے کہ تقریباً سب اسکولوں میں بھوتوں کا بسیرا ہوتا ہے جو کہ رات کو اسکول کے پاس سے گُزرنے والوں کو نظر آتے ہیں صبح بریک یا فری پیریڈ میں دوستوں کی چوپال نما بیٹھک میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چہرہ بھوتوں سے بھی زیادہ خوفناک بنا کر لرزتی آواز میں مختلف جگہوں پر بھوتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور خوفزدہ ہو کر چاروں طرف دیکھا جاتا ہے پھر یہ بات بھی طے تھی کہ خود کسی نے بھی بہ نفس نفیس بھوتوں کو کبھی نہیں دیکھا ہوتا تھا ۔ کسی کے ماموں کے سالے کے بیٹے کے دوست نے اور کسی کے چچا کے پھوپھا کے بھانجے کے خالو نے دیکھا ہوتا تھا۔اس کے بعد ہر سنسان او ر ویران جگہ پر جاتے ہوئے خوفزدہ ہوتے ہیں ۔خوفزدہ ہونے میں بھی ایک الگ مزہ اور تھرل (سنسنی) تھا۔ پیڑ بھی ہلتا تو زور و شور سے ایک دوسرے کو بتایا جاتااور اگر کبھی قسمت یاوری کرتی اور کوئی اینٹ، پتھر لڑھکتا اور پھر جو کہانیاںبنائی جاتیں وہ وقت اب بھی یاد آتا ہے تو لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔
میں پھر سے کالج کی زندگی کی طرف آتی ہوں۔ تینوں بڑے بھائیوں نے گھر سنبھال لیا ۔ پڑھا بھی اور ملازمت بھی کی ۔ خصوساً بابر بھائی نے ابا کی کمی پوری کر دی۔ وہ مکمل طور پر اباً کی تصویر تھے ہر لحاظ سے مکمل ۔ ایسے لوگ صرف مختصر وقت کے لئے دُنیا میں آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا شاہکار بنا کر بھیجتا ہے اور بہت جلد اُ ٹھا لیتا ہے وہ اسقدر محنت کر رہے تھے کہ رُکنے کو تیار نہ تھے۔ انہیں صرف موت ہی روک سکتی تھی اور ایسا ہی ہوا ۔صبح وہ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرتے تھے دوپہر کو کھانا کھانے گھر آتے اور پھر بغیر آرام کئے سہ پہر کو اسٹیٹ ایجنسی میں بیٹھ جاتے ، پانچوںبہن بھائیوں کو ایم اے لیول تک انہوں نے پڑھایا، ساری ضروریات باپ کی طرح پوری کیں۔ اماں کا دایاں بازو بن کر ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ۔ میں نے ماسٹر کی تعلیم کے دوران ملازمت کی خواہش ظاہر کی تو پریشان ہوگئے کہ کیاضرورت ہے؟ کچھ چاہیے تو بتاﺅ؟؟ میں نے انہیں بتایا کہ صرف اپنی اہلیت جانچنا چاہتی ہوں تو انہوں نے اماں کے کہنے پر اجازت دے دی۔
میں نے پہلی ملازمت ایم اے پریویس ایئر (سال اول) میں پڑھتے ہوئے گورنمنٹ کالج میں کو آپریٹو ٹیچر کے طور پر کی اور ماسٹرز مکمل ہونے کے بعد اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے ائیر فورس کالج میں اپلائی کیا ۔ مجھے شروع سے ہی فورسز کے اداروں میں پڑھانے کا شوق تھا۔ جب پی اے ایف سے انٹرویو کال آئی تو میرا شوق دیدنی تھا ۔ٹیسٹ اور ڈیمو کے بعد انٹرویو ہوا ۔میں نے ٹیسٹ اور ڈیمو میں سب سے زیادہ نمبر لئے تھے۔ انٹرویو کے دن مسرور بیس ماری پور بابر بھائی اور اماں لے کر گئے تھے بلکہ ٹیسٹ اور ڈیمو بھی ان کے ساتھ جا کر دیا تھا۔
بہت سی امیدوار بیٹھی تھیں۔ آخر میری باری آئی۔ اندر گئی تو دل دھک سے رہ گیا۔ بڑی سی میز کے دو اطراف ائیر فورس کی وردی پہنے افسر بیٹھے تھے۔ صرف اسکول کے پرنسپل سویلین ڈریس میں تھے ۔سامنے بیس کمانڈر ( ائیر وائس مارشل عبدالرزاق) صاحب تھے اور ان کے بالکل سامنے خالی نشست میرے لئے تھی۔ گھبرائی ہوئی تھی مگر وہ اتنے مہربان ، شفیق اور تعاون کرنے والی شحصیات تھیں کہ تھوڑی دیر میں میرا اعتماد بحال ہو گیا۔ بے حد ذہین زیرک اور عزت دینے والے لوگ تھے۔ اللہ رب العزت پاک فوج کے تینوں اداروں کو عزت اور سر بلندی سے ہمکنار کرے ۔ میںپوری سچائی اوردل کی گہرائیوں سے یہ تحریر لکھ رہی ہوں ۔ میںہمیشہ اس بات پر فخر کرونگی کہ میں نے P-A-F(پاکستان ائیر فورس) اور بحریہ کے کالجز میں پڑھایا۔ ایک بہترین ٹیم نے میرا انتخاب کیا اور رب العزت نے ہر جگہ مجھے امتیازی حیثیت دی ۔میں ہمیشہ سب سے زیادہ نمبر لے کر کامیاب ہوئی۔ ائیر فورس میں ایک سال تک پڑھانے اور اسکول سے سینئر درجے تک پہنچانے والے لوگ سب کے سب اعلیٰ درجے کے پیشہ ور انہ صلاحیت رکھنے والے لوگ تھے۔ اسکول کی ہیڈمسٹریس نزہت حبیب سینئر سیکشن کی وائس پرنسپل مسز کرسٹی اور پرنسپل محترم عبدالرحمان شیخ صاحب جو کہ ریٹائر ڈمیجر تھے۔ ان سب نے مجھے بہت عزت دی اور میری صلاحیتوں کو آگے بڑھانے اور اعتراف کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا ۔ایک سال بعد میں نے بحریہ میں اپلائی کیا اور وہاں بھی اول پوزیشن میں کامیاب ہوئی۔ وہاں کے پرنسپل نیوی کے کیپٹن محمد کاظم صاحب تھے جن کی صورت شکل ہی نہیں بلکہ اصول اور عادات و اطوار تک قائد اعظم سے مشابہ تھیں ۔علامہ اقبال کے عاشقوں میں سے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرکے دل بے حد فخر اور ناقابل ِبیان خوشی محسوس کرتا ۔میں نے بوائز سیکشن میں10 سال پڑھایا اور تقریباًاتنے ہی برس یا پھر اس سے ایک برس کم یعنی 9 سال تک فرسٹ فلور کی انچارج رہی۔ یہ دراصل میری صلاحیت نہیں تھی بلکہ ان اعلیٰ ظرف لوگوں کی عزت افزائی تھی جو انہوں نے مجھے دی۔ ایک عام سی لڑکی کو اتنی عزت وہی دے سکتے تھے جو خود بہت محترم اور عزت دار ہوں۔
********

شیئر: