Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معصوم عوام، ”بُدھوگر “ کو ووٹ دے دیتے ہیں

عنبرین فیض احمد۔ کراچی
پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک ملک کوبے شمار مسائل کا سامنا رہا ۔ اسے ہم اپنی نااہلی کہہ سکتے ہیں یا کم عقلی کہ قائداعظم اور نواب لیاقت علی خان کے بعد ہمارے وطن عزیز کو ایسی کوئی قیادت نصیب نہیں ہوئی جس کی سربراہیمیں ہمارا ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ہمیںآزادی نصیب ہوئی تو اس کے فوراً بعد اثاثہ جات کی تقسیم اور پھر مہاجرین کے مسائل درپیش ہوئے ۔پھر سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا رہا جو آج تک حل نہ ہو سکا۔ پاکستان میں اکثر صاحبان کی نامناسب پالیسیوں کی وجہ سے نقصان ہوا وہیں ہمارے بعض ذمہ داران نے وطن عزیز کا وہ حشر کیا کہ 1971ءکی جنگ کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا یعنی سیاستدانوں کی ذاتی انا اور اقتدار کی طلب نے ملک کو ابتری کی نذر کر دیا۔ اسکا انجام یہ ہوا کہ مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کے فقدان نے اس ملک کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا گیا ۔ 
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج سائنسی ترقی کے اس دور میں بھی ہم لسانیت ، قومیت اور فرقہ واریت کی لعنتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہی عیبوں نے ہمیں تقسیم در تقسیم کر دیا۔ پھر وطن میں مختلف عنوانوں سے دھماکے ، قتل و غارت اور لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آج ان سانحات و واقعات میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ ید تو یہ ہے کہ عبادت گاہیں اور اسکول و کالجز وغیرہ بھی دہشت گردی سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ یہ تمام امور ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتے رہے ۔ اس کے باعث جہاں ہماری معیشت کا پہیہ روز بروز کمزور ہوتا چلا گیا وہیں تباہی ، عدم تحفظ اور لاقانونیت ہمارا مقدر بنتی گئی اور ملک میں امن و امان کی صورت حال تشویشناک ہوتی چلی گئی۔ ا س کے علاوہ وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب ہماری نوجوان نسل کے بعض افراد مختلف قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے لگے۔
عوامی سطح پر حالت یہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ، لاکھوں عوام بھوک و افلاس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ملک کا ہر شعبہ ابتری کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ رشوت ، سفارش او راقرباءپروری جیسے عفریت نے ہماری ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیاہے لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارا قصور سیاستدانوں کا ہے؟ بلا شبہ ہم سارا قصور حکمرانوں کے کاندھے پر نہیں ڈال سکتے کیونکہ عوام بھی یہاں پر برابر کے شریک دکھائی دیتے ہیں۔ہمارے کتنے ہی سیاستدان ایسے ہیں کہ جب انہیں ووٹ لینا ہوتا ہے تو وہ خصوصی اجتماعات منعقد کرواتے ہیں جن میں وہ عوام میں ”گھل مل“ جانے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو بدھو بناتے ہیں اور وہ انتہائی آسانی سے بدھوبن جاتے ہیں۔عوام اتنے معصوم ہیں کہ انتخابات میں اسی ” بُدھو گر“ کو ووٹ دے بیٹھتے ہیں۔ 
جہاں ملک میں رشوت کا بازار گرم ہے وہیں عوام اپناکام نکلوانے کے لئے رشوت دینے میں جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک ملک میں رشوت دینے والے موجود رہیں گے ، اس وقت تک رشوت کا کاروبار چلتا رہے گا۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو وطن عزیز کے ہر شعبے میں تنزلی میں عوام تو اپنا حصہ ڈال ہی رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بڑا افسر لاکھوں میں رشوت لیتا ہے تو اسی دفتر کاچپڑاسی چند سوروپے رشوت لے کر ملکی جڑو ںکو دیمک کی طرح چا ٹ رہا ہے۔ 
ملک میں کوئی بھی ترقیاتی منصوبہشروع کیا جاتا ہے تو ان میں ایسی کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں جو ترقیاتی ٹھیکوں سے اربوں کھربوں کا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ہمارے بعض ٹھیکے دار صاحبان اپنی ”استطاعت“ کے مطابق لاکھوں کا گھپلا کرتے ہیں اور تو اور اس منصوبے کو وہیں ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ایمانداری سے اگر ہم اس بات پر غور کریں تو نچلی سطح سے لے پر اوپرکی سطح تک کرپشن ہی کرپشن ہے۔ صرف ہم حکمرانوں کو الزام نہیں دے سکتے۔ہماری حالت یہ ہے کہ ایک سبزی فروش اپنی سبزیاں تولتے ہوئے مہنگائی کا رونا روتے اور ذمہ داران کو برا بھلاکہتے ہوئے گاہکوں کو باتوں میں الجھا کر باسی اورگلی سڑی سبزیاں ڈال دیتا ہے اور ساتھ ہی بے ایمانی کا شور مچاتا ہے۔یوں جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہاں اپنا کام دکھا جاتا ہے۔ 
ہم دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی تو کرتے ہیں مگر ہمیں اپنی خامیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ الغرض جہاں ملک کی ابتری کے ذمہ دار ہمارے بعض صاحبان اختیار ہیں، وہیں عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ہم ملک میں خوشحالی اور تبدیلی چاہتے ضرورہیں مگر خود کو بدلنا نہیں چاہتے۔ اگر ہم انفرادی طور پر خود کو تبدیل کرلیں تو شاید ملک کی حالت کچھ اور ہوجائے ۔اجتماعی طور پر ملک میں تبدیلی لانے کی ضرورت پیش نہیںآئے گی۔ اگر ہر فرد خود کو درست کرلے تو ملک میں خود بخود تبدیلی آجائے گی۔
ہمیں ایسے کاموں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے جو ملکی مفاد میں نہ ہوںہمیں اپنے ہر کام کو ذمہ داری اور خلوص کے ساتھ انجام دینا چاہئے تا کہ ہمارے ملک میں مسائل کا خاتمہ ہو اور اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن فرمائے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے(آمین) 
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ لاہور کی قدیم درسگاہ ایم اے او کالج سے ملحق علاقہ ہے جہاں حکومت نے پیدل چلنے والوں کو لئے فٹ پاتھ تعمیر کروایا ہے جو محفوظ ڈگر کے نام سے مشہور ہے مگر افسوس کہ اس فٹ پاتھ پر گڑھے پڑ چکے ہیں جس کے باعث راہگیروں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اورنجانے کتنے ہی راہگیروں کی قیمتی جانیں خطرات سے دوچار ہو جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود ہمارے صاحبان اختیار اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ کیا ہم واقعی ایسے ہی ہو چکے ہیں کہ ہمیں احساس تک نہیںہوتا کہ لوگوں کے چلنے کے لئے بنائے گئے فٹ پاتھ پر بھی ایک گڑھا کھودا گیا ہے جس کوفوری بند کر دیاجانا چاہئے مبادا کے کوئی بھی راہ چلتے اس کے اندر گرجائے ۔ ممکن ہے اس طرح کسی کی قیمتی جان ضائع ہونے سے بچ جائے۔
دیکھا جائے تو ملک کے اندر انگنتمین ہولز کے ڈھکن غائب ہو جاتے ہیں۔ لا تعداد سڑکوں پر بے شمارگڑھے پڑے ہوئے ہیںمگر کسی کو پروا نہیں۔کسی کی جان جاتی ہے تو جائے۔ جب ہمارے ہاں یہ سوچ پائی جائے گی تو ملک کا کیا حال ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو ملک پاکستان کے بعد وجود میں آئے وہ پاکستان سے آگے نکل گئے لیکن افسوس کہ آج 70سال گزر جانے کے بعد بھی ہمارا وطن ترقی نہیں کر سکا۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ملک کے کتنے ہی سیاستدان ایسے ہیں جن کے اثاثے بیرون ملک موجود ہیں۔ یہاں پر بجلی، گیس ، ٹیکس کی چوری او رپھر ہر طرح کی کرپشن عام ہے۔ اب توبد عنوانی کو عادت، مجبوری، مشغلہ اور نجانے کیا کچھ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ہمارے ہاں خرد کا نام جنوں اور جنوں کا نام خرد رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہیں۔ اب تو ہمیں یہ دن بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ پولیس والے جنہیں ہم قانون کا رکھوالا اور محافظ سمجھتے چلے آئے ہیں، ان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قانون کی دھجیاں اڑانے میں ملوث ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔اس حوالے سے سندھ پولیس کی مثال سامنے ہے جہاں ہزاروں پولیس اہلکاروں اور افسران کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
ہمار ی تنزلی کا سب سے بڑا سبب تعلیم کی کمی ہے۔ پاکستان کو اگر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا ہے تو سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دینی چاہئے ۔ تعلیم ہی لوگوں میں شعور پیدا کرتی ہے۔آج چین کا شمار دنیا کے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے ۔چینی دانشور اپنی کہاوتوں اور مہاوروں کے لئے مشہور ہیں۔ ان کی کہاوت ہے کہ اگرایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو مکئی لگاﺅ۔ اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو درخت لگاﺅ اور اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو اپنے عوام کی بہترین تربیت کرو اورانہیں تعلیم سے آراستہ کرو۔
شاید یہ چینی کہاوت کبھی ہمارے صاحبان کیسمجھ میں بھی آجائے اور ہمارے ملک میں بھی تعلیم عام ہو جائے تویقینا ہماری آئندہ نسلیں اس قسم کے مسائل سے دوچار نہیں ہوں گی جس قسم کے مسائل سے ہم گزر رہے ہیں ۔ ہمارایہ قومی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم سب مل کر اس قسم کے سیاسی نظام کی درستگی میں اپنا کردار ادا کریں تا کہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے اور کوئی روزگار کی خاطرجرم کی راہ اختیار نے کرے اور کوئی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوجائے۔
 

شیئر: