Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ہم جنت کے راہی ہیں؟

جب مسلمان جنت اور اس کی نعمتوں کو دیکھتا ہے تو پکارتاہے کہ اے  اللہ! جلدقیامت  برپا کر دے تاکہ میں جنت کی نعمتیں حاصل کر سکوں
* * * عبد المالک مجاہد۔ریاض* * *
    گزشتہ ہفتے  میرے جاننے والے احباب کے ہاں تھوڑے تھوڑے وقفے سے2 اموات ہوگئیں۔ایک تو ہمارے رشتہ داروں میں محترم مولانا منظور احمد صاحب تھے جو قصیم بریدہ میں اپنے بیٹوں ضیاء الرحمن اور عزیر احمد کے پاس وزٹ ویزا پر پاکستان سے آئے ہوئے تھے۔ اجل انہیں یہاں لے کر آ گئی۔ دل کی بیماری میں مبتلا ہوئے۔ ہسپتال میں کم و بیش ایک ماہ گزارا اور گزشتہ ہفتے اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم بھلے آدمی تھے‘ نہ کبھی کسی سے لڑائی نہ جھگڑا‘ نہ عناد نہ دشمنی‘ خاموشی اور سادگی سے ساری زندگی گزار دی۔ عمر خاصی ہو چکی تھی،پہلے عمرہ کیا،  پھر مدینہ طیبہ کی زیارت نصیب ہوئی۔میں اپنے دیگر احباب کے ساتھ ان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے قصیم گیا۔ اپنے ہاتھوں سے اس نیک طینت مسافر کو سپرد خاک کیا اوران کے جسد خاکی پر مٹی ڈالنے والوں میں شریک ہوا۔     اللہ کے رسول نے فرمایا:
    ’’کثرت کے ساتھ لذتوں کو توڑنے والی موت کو یاد کیا کرو۔  ‘‘
    بلاشبہ موت ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ میت کو قبر میں اپنے ہاتھوں دفن کرنے سے انسان کا خود بخود تزکیہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ روز ہمارے بڑے ہی پیارے دوست محمد اشرف کی اہلیہ محترمہ بھی کینسر کے موذی مرض میں 3سال تک مبتلا رہنے کے بعد اپنے رب کے پاس چلی گئیں۔ یہ خاتون بلاشبہ بڑی ہی پارسا اور نیک طینت تھیں۔ کتاب و سنت کی پابند‘ مسلک اہلحدیث کی شیدائی‘ ام ثوبان نے اپنے بچوں کی پرورش بڑے عمدہ انداز میں کی۔ ثوبان کو حافظ قرآن بنایا۔ خود خواتین کے حلقے میں بڑا کام کیا۔ کتنے ہی گھرانوں کو شرک و بدعت کی آلودگیوں سے بچانے میں کامیاب رہیں‘ عورتوں کو خوب تبلیغ کی مگر مشیت  الٰہی کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔ قریبا ً3 سال پہلے موذی مرض کینسر میں مبتلا ہوئیں۔ انہوں نے ڈٹ کر بیماری کا مقابلہ کیا۔ بڑی صابرہ ‘ شاکرہ ‘مؤمنہ خاتون تھیں۔ نہ تقدیر کا گلہ نہ کسی انسان سے شکوہ‘ اور پھر 25اگست 2015ء کی صبح سویرے بہت خاموشی سے اپنے رب کے پاس چلی گئیں۔ جنازہ جامع مسجد خالد ام حمام میں ہوا۔ ہزاروں لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ ہم نے بھی جنازے کو کندھا دیا۔ ان کے خاوند‘ بیٹے اور داماد نے اس عظیم خاتون کو لحد میں اتارا۔ قبر پر احباب نے آگے بڑھ بڑھ کر مٹی ڈالی۔ قبر کو ہموار کیا گیا‘ اوپر چھوٹے چھوٹے کنکر ڈالے گئے۔ پانی کی2 بالٹیاں بہائی گئیں اور پھر آواز آئی: مرحومہ کی ثابت قدمی کیلئے دعا کریں۔
     اللہ کے رسول   نے فرمایا:
    ’’ جب میت کو قبر میں رکھا جائے تو بِسْمِ اللّٰہِ وَ عَلٰی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ پڑھ کر لحد میں اتاریں،میت کا منہ قبلہ کی طرف کر دیں،  جب قبر پر مٹی ڈال دیں تو پھر میت کی ثابت قدمی کیلئے دعا کریں، اس  لئے کہ اب اس سے سوال وجواب  ہو رہا ہے۔ ‘‘
    ہم نے اپنے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھا دیے۔ اے  اللہ! یہ تیری بندی ہمارے علم کے مطابق بڑی نیک اور پرہیزگار خاتون تھی۔ عقیدۂ توحید پر زندگی گزارنے والی تھی۔للہ اب منکر ونکیر اس سے سوال و جواب کر رہے ہیں۔ بڑا مشکل وقت اور بڑی مشکل گھڑی ہے۔ یا اللہ! تو نے ہی اسے ثابت قدم رکھنا ہے اور اسے صحیح جواب دینے کی توفیق بھی تیری ہی طرف سے ملے گی۔یا اللہ! اپنی اس بندی کی قبر کو وسعت عطا فرما۔
    جنازہ پڑھ کر ہم لوگ واپس ہوئے تو قبرستان کے بڑے دروازے کے قریب بہت بڑا بورڈ نظر آیا جس پر موٹے حروف میں اللہ کے رسول کی بڑی پیاری حدیث لکھی ہوئی تھی۔ یہ حدیث ہم نے بے شمارمرتبہ پہلے بھی پڑھی اور لکھی۔بارہا اس کے معانی اور مطالب سمجھنے کی کوشش بھی کی۔ ساتھیو! قبرستان‘ شہر خموشاں میں بڑے بڑے موٹے الفاظ میں اس حدیث کو لکھنے والے کو میں نے بہت دعائیں دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس مقام پر یہ حدیث پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اس نے میرے ذہن‘ میری سوچ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔
    معزز قارئین کرام! آئیے اس حدیث کو پڑھتے اور اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔ آپنے ارشاد فرمایا:
    ’’جب ابن آدم وفات پا جاتا ہے تو ا س کے نیک اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔‘‘
     میں نے مڑ کر قبرستان کی طرف دیکھا، چند ماہ پہلے بھی اس شہر خموشاں میں اپنے ایک عزیز کو دفن کرنے کیلئے آیا تھا۔ اس کے بعد اب تک سیکڑوں قبروں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ میں نے سوچا یہ لوگ بھی میری طرح جیتے جاگتے تھے‘ چلتے پھرتے تھے۔ ان میں بعض بڑے با اثر لوگ بھی تھے۔ بڑے پڑھے لکھے ‘ تاجر ‘ بزنس مین‘ حکومتی عہدوں پر براجمان ‘ بڑے بڑے عالم فاضل‘ مالدار لوگ تھے۔ بلاشبہ ان میں اَن پڑھ اور فقیر لوگ بھی تھے مگر قبریں تو سب کیلئے ایک جیسی ہیں۔ سعودی حکومت کو اللہ  تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ سعودی عرب میں میت کے لواحقین کا کفن دفن پرکچھ خرچہ نہیں ہوتا۔تمام اخراجات حکومت ادا کرتی ہے‘ یا یہاں کے اصحاب خیر خرچ کرتے ہیں۔ قبریں پہلے سے تیار کھدی ہوتی ہیں۔ جنازے آتے ہیں تو قطار میں کھدی ہوئی قبروں میں باری کے مطابق کسی بھی قبر میں میت کو دفنا دیا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ساتھ والی قبر ایک فلسطینی کی تھی۔ وہ لوگ قبر کو درست کر رہے تھے۔
    موت کے ساتھ ہی انسان کا تعلق دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔ وہ تار وہ رسی جو اسے دنیا کے ساتھ جوڑتی تھی‘ اب کٹ چکی ہے۔ میں کتنا مصروف رہتا ہوں‘ میں نے سوچا۔ ہر وقت ملنے والے ‘ چاہنے والے‘ دفتر ‘گھر‘ بیوی‘ بچے ‘ بازار ‘ کاروبار‘ دوست احباب‘ میٹنگیں‘ پروگرام…  اُف! اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کتنی چاشنی رکھی ہے اور پھر سب کو چھوڑ کر قبر میں دفن ہونا‘کتنا مشکل کام ہے!! کسی کا بھی مرنے کو جی نہیں چاہتامگر کوئی چاہے نہ چاہے موت تو ہر جاندار کے مقدر میں ہے۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ  ’’ہرذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہی چکھناہے۔‘‘(آل عمران185) ۔
    اسے بہر حال وبہر قیمت وفات پانی ہے۔ یہ قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا پھر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔شہر خموشاں ‘ جس میں ہُوکا عالم طاری رہتا ہے۔ رات کے وقت وہاں جانے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک انجانا سا خوف ہوتا ہے۔ حدیث کے مطابق جب میت قبرستان میں لائی جاتی ہے تو اس کے ساتھ3 چیزیں آتی ہیں۔ ان میں سے2 قبرستان سے واپس چلی جاتی ہیں اور میت کے ساتھ محض ایک چیز باقی رہ جاتی ہے۔ جنازے کے ساتھ اس کے اہل و عیال ‘ اولاد‘ رشتہ دار‘ دوست احباب، بہی خواہ‘ جاننے والے سبھی آتے ہیں۔ اس کا مال بھی ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے ادارے کے ملازمین ‘ اس کی گاڑیاں ‘ اس کے مال کا کچھ نہ کچھ حصہ قبرستان میں بھی آتا ہے۔
    عربوں کی عادت تھی کہ فوت شدہ کے گھوڑے اور جانور بھی قبرستان تک ساتھ لائے جاتے تھے۔ آپ نے دیکھا ہو گاکہ اب بھی بڑے لوگوں کے جنازے رتھ پر رکھ کر لائے جاتے ہیں۔ فوجی دستے انہیں سلامی پیش کرتے ہیں۔ بڑے شان و شوکت اور فوجی بینڈ وغیرہ کے ساتھ انہیں قبرستان لایا جاتا ہے۔ مال و دولت اور رشتہ دار واپس آ جاتے ہیں۔ تیسری چیز جو میت کے ساتھ رہتی ہے‘ وہ اس کے اعمال ہیں۔ فوت ہونے والے نے جو اچھے یا برے اعمال کیے ہوتے ہیں‘ وہ قبر میں میت کے ساتھ ہی جاتے ہیں۔
     حدیث پاک میں آتا ہے: قبر میں میت کے پاس ایک بڑی خوبصورت شخصیت، روشن چہرے اور قیمتی لباس والی ‘ جس سے بڑی عمدہ خوشبو آ رہی ہوتی ہے‘ آتی ہے۔ وہ کہتی ہے:خوش ہو جاؤ! تمہارے لئے خوش خبری ہے۔ مرنے ولا پوچھتا ہے: تم کو ن ہو؟ وہ کہتا ہے: میں تمہارا نیک عمل ہوں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں :تیرا رب کون ہے ؟،مسلمان مومن اس کے جواب میں کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ دوسرا سوال ہوتا ہے:تمہارا دین کونسا ہے؟، وہ جواب میں کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔  اب منکر ونکیر کی جانب سے تیسرا سوال ہوتا ہے:تمہارا نبی کون ہے؟ تو وہ اس کے جواب میں کہتا ہے: میرے نبی محمدہیں۔ فرشتہ یہ جواب سننے کے بعد کہتا ہے: تم نے سچ کہا۔ پھر فرشتہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت اور مہمان نوازی کی خوشخبری سناتا ہے۔ اس کیلئے جنت اور جہنم دونوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اسے جہنم کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے: یہ تمہارا ٹھکانہ ہونا تھا اگر تم نے اللہ کی نا فرمانی کی ہوتی۔ جب مسلمان جنت اور اس کی نعمتوں کو دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے: اللہ! جلد از جلد قیامت کو برپا کر دے تاکہ میں جنت کی نعمتیں جلد از جلد حاصل کر سکوں۔
    مؤمن کیلئے اس کی قبر کو تا حد نگاہ وسیع کر دی جاتی ہے اور قیامت تک کیلئے اسے میٹھی اور پیاری نیند سلا دیا جاتا ہے۔
    حدیث کے اگلے الفاظ یہ ہیں:صدقہ جاریہ‘ نفع بخش علم اور نیک اولاد  فوت شدہ والدین کیلئے دعا کرتے ہیں۔
    انسان کا فوت ہونے کے بعد دنیا سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے مگر اس کاجاری رہنے والا عمل اس کا پیچھا کرتا ہے۔ چاہے وہ نیک عمل ہوں یا برا عمل ۔ آدمی نے مسجد بنوائی ہے، خواہ چھوٹی سی مسجد ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے وسائل اور حالات کے مطابق  ہی آدمی مسجد بنواتا ہے۔ حدیث شریف کے مطابق چاہے اس نے گھونسلے کے برابر ہی مسجد بنوائی ہو‘ بس اس کی نیت خالصتاً اللہ کی رضا ہو۔ مسجد صرف اور صرف اللہ کیلئے بنائی ہو۔ اس کا اجر و ثواب بہت بڑا ہے۔  اللہ رب العزت اس کیلئے جنت میں گھر بنادیتا ہے۔ ایک شخص ہے۔ وہ تنہا تو مسجد بنانے کی طاقت نہیں رکھتالیکن مسجد بن رہی ہے‘ اس نے اپنی توفیق اور وسعت کے مطابق اپنا حصہ ڈال دیا۔ وہ ہزار روپیہ دے سکتا ہے۔ اس سے بھی کم دے‘ کوئی حرج نہیں مگر وہ دے ضرور۔ مسجد میں روشنی نہیں‘ بلب فیوز ہو گئے ہیں۔ بڑی معمولی سی بات ہے۔آپ نے مسجد کے ناکارہ بلب تبدیل کر کے نئے لگوا دیے ہیں۔ اس میں ٹیوبیں لگوا دی ہیں۔ مسجد کو روشن کر دیا۔ مسجد میں پانی کا بندوبست نہیں۔ نمازیوں کو وضو کا مسئلہ بنا رہتا ہے۔ آپ نے پہل کر کے مسجد میں موٹر لگوا دی۔ دیکھا جائے تو یہ بڑا معمولی کام نظر آتا ہے مگر ساتھیو! کسی نیکی کو حقیر مت جانئے۔ مسجد کی دیکھ بھال کرنا، اس کی صفائی ستھرائی میں حصہ لینا بہت زیادہ نیکی کا کام ہے۔ آپ اپنی اولاد کو بھی ایسے کام کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ مسجد بن گئی ہے۔ آپ نے بھی اپنی توفیق کے مطابق اس میں حصہ ڈال دیا ہے۔ اب یہ مسجد آپ کیلئے بھی صدقہ جاریہ ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ کی وفات ہوچکی ہے۔ آپ کی وفات کے بعد بھی یہ مسجد آباد ہے،لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ یقین جانئے کہ جب تک لوگ نمازیں پڑھتے رہیںگے آپ کو ا جر و ثواب ملتا رہے گا۔
    دنیا کے مختلف ممالک اور بطور خاص بر صغیر میں شہروں اور دیہاتوں میں احباب نے چھوٹے چھوٹے کلینک یا ہسپتال بنوا رکھے ہیں۔ آپ بھی اس کی تأسیس میں شامل ہوگئے۔ ایک شخص تنہا تو اس نوعیت کے بڑے کاموں کو نہیں چلا سکتا۔ یہ امت مسلمہ کے مشترکہ مسائل ہیں۔ آپ نے بھی سوچا اس ہسپتال کو بعض دواؤں کی ضرورت ہے۔ اس کو مشینری کی ضرورت ہے۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی تنخواہ ادا کرنا ہے۔ لوگ اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ ڈال دیا‘ یا دوائیں خرید کر دیدیں ۔ یاد رکھیے! یہ بھی آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔
    میں صاحب حیثیت لوگوں کوترغیب دینے کیلئے‘ انہیں نیکی کے کاموں پر آمادہ کرنے کیلئے اور انہیںایسے کاموں میں شریک کرنے کیلئے ایک مثال دوں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے ریا کاری سے بچائے مگر ہوسکتا ہے اس کالم کو پڑھ کر کسی کے دل میں بھلائی کا جذبہ پیدا ہوجائے اور وہ بھی ایک ہسپتال بنوادے۔
    راقم آج سے کوئی60 سال پہلے گوجرانوالہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کیلیانوالہ میں پیدا ہوا۔ میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب حافظ آباد شفٹ ہوگئے۔ گویا مجھے اپنا آبائی گاؤں چھوڑے ہوئے 51 سال ہوچکے ہیں مگر سچ پوچھئے تو مجھے آج بھی اپنی جنم بھومی سے محبت ہے۔ میں آج بھی اس کی گلیوں کو پہچانتا ہوں۔ لوگوں کے گھروں تک کو جانتا ہوں۔ کوئی10،11 سال پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے چھوٹے بھائی محمد طارق شاہدکے ساتھ بیٹھا ہواتھا۔ گاؤں کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی کہ (میری برادری کے بہت سارے لوگ اب بھی وہاں رہتے ہیں)میں نے کہا: طارق! ہم نے اپنے گاؤں کو کیا دیا ہے؟ اللہ نے ہمیں وسائل دیے ہیں لیکن سوچئے کہ ہم نے اپنے گاؤں کیلئے اور اس کے رہنے والوں کیلئے کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ ہم دونوں بھائی سوچنے لگے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ گاؤں میں متعدد مساجد موجود ہیں ، مدرسہ اور اسکول بھی ہے ۔ سرکاری ڈسپنسری بھی ہے مگر اس کا انتظام اچھا نہیں۔ چلئے کیوں نہ ہم اپنے گاؤں کو ایک ڈسپنسری گفٹ کریں۔
     قارئین کرام! یاد رکھیے، اگر آپ نیکی کا کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے بارے میں بہت زیادہ چھان بین نہ کریں۔ زیادہ قیل وقال سے شیطان داخل ہوجاتا ہے اور پروجیکٹ ختم ہوجاتا ہے۔ نیت کریں، مشورہ کریں، استخارہ کریں اور اگلے چند دنوں میں اس خیر کے کام کو شروع کردیں۔ کون جانتا ہے کہ آپ کب تک زندہ ہیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ پروگرام بناتے بناتے زندگی ہی گزر جائے۔
    ہم نے ایک بیٹھک کرایے پر لی اور اپنے ایک عزیز کو جس نے ڈسپنسری کے کورسز کر رکھے تھے‘ انچارج بنایا‘ لوجی! کام شروع ہوگیا۔ہم نے مریضوں کو دوائیاں مفت دینا شروع کردیں۔ کسی کو سردرد، بخار، نزلہ، کھانسی ہو یا چوٹ لگ جائے‘ ایسی معمولی معمولی بیماریوں کا علاج ڈاکٹر محمد عثمان سپرا پہلے بھی کرتا تھا۔ اب ذرا اچھے انداز میں کام شروع ہوگیا۔
    کچھ عرصہ گزرا، ہم نے گاؤں کے شروع میں برلب سڑک ڈھائی کنال جگہ خرید لی۔ اللہ نے توفیق دی تواس پر4،5 کمروں پر مشتمل چھوٹی سی ڈسپنسری بنادی گئی۔پیچھے جو جگہ خالی تھی وہاں سبزیاں اور پھول اُگا دیے گئے۔ مریض آنے شروع ہوگئے۔ کئی سال گزر چکے ہیں۔ہم صرف 10یا15 روپے پرچی کے لیتے ہیں۔ اس کا عملہ 8 ،10افراد پر مشتمل ہے۔
    اوسطاً 3ہزار سے زائد مریض ہر ماہ آتے ہیں۔ کبھی زیادہ بھی ہوجاتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک چچا زاد بھائی کو اس کا انچارج بنادیا۔ بندہ ثقہ اور ایماندار ہے ۔ اس کے ساتھ مجھے اس سے پہلے بھی محبت تھی مگر اب اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کم وبیش20 دیہاتوں سے مریض آتے ہیں۔ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر صاحب کی بھی پارٹ ٹائم خدمات حاصل کرلی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ غریبوں کی بطور خاص مدد فرماتا ہے۔ انہیں عام دوائیوں سے بھی صحت عطا کر دیتا ہے۔ مریض آتے ہیں تو ان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ میں نے وہاں لائبریری بنوادی۔
    میری چھوٹی بیٹی عفراء نے ایک خواب دیکھا۔ کہنے لگی: ابو! میں نے خواب دیکھا کہ میں مسجد بنوارہی ہوں۔ اب مجھے مسجد بنوانی ہے اور وہاں بنوانی ہے جہاں ابو پیدا ہوئے۔ جو مبلغ میرے پاس ہے وہ میں دوں گی‘ باقی ابو دیں گے اس لئے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ پہلی اینٹ میں نے رکھی ہے اور دوسری اینٹ ابو نے رکھی ہے۔ لوجی! اس ہسپتال میں نہایت خوبصورت چھوٹی سی مسجد بھی بنوا دی گئی۔ مریض اور ہسپتال کا عملہ اس میں نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ پھیلتا چلا گیا،ہم نے 3 مزید ہسپتال بھی بنوائے یا ان میں حصہ لیا۔ جو کام بھی لوگوں کی بھلائی کیلئے کیا جاتا ہے‘ اس میں حصہ لینا بہت خوشگوار تجربہ ہے۔ لوگوں کو خوشی فراہم کرنے کی لذت بڑی عجیب ہے۔ یقین جانئے! یہ عبادت بھی ہے اور صدقہ جاریہ بھی  ۔

شیئر: