Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بدعنوانی کا حل محض قانون کی عملداری نہیں

 ماجد الحمدان ۔ الوطن
چوری، غبن اور نجی مفاد پر مبنی ٹھیکے رشتہ داری اور یاری دوستی کی بنیاد پر کئے جانے والے فیصلے میںمضمر بدعنوانی ایسا مسئلہ ہے جسے صرف قانون کے بل پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ بدعنوانی ایسی آفت ہے جس کی بیخ کنی پے درپے سزاﺅں کے ذریعے نہیں کی جاسکتی۔ سزاﺅں سے زیادہ بڑے مسائل جنم لیں گے۔
اگر ہم تمام شعبوں میں جملہ قوانین و ضوابط نافذ کردیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم خودکشی والا کوئی آپریشن انجام دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی شہروں میں ٹریفک کے معاملات کو ہی لے لیں۔ انتہائی بھیانک ہیں۔ اگر اس مسئلے کو تمام ٹریفک قوانین و ضوابط یکبارگی نافذ کرکے حل کرنا چاہےں،خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرلیا جائے،خلاف ورزیوں پر جرمانے عائد کردیئے جائیں، گاڑیو ںکو عارضی یا مستقل بنیادوں پر ضبط کرلئے جائیں۔ ایسی صورت میں ہم ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے متعدد اقتصادی اور سماجی مسائل تخلیق کر بیٹھیں گے۔
بعض مسائل کا تعلق ثقافت سے ہوتا ہے۔ قوانین کے نفاذ سے قبل ثقافتی آگہی ضروری ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری منصوبوں کو لے لیجئے۔ انکی تکمیل میں تاخیر یا انہیں بہت ساری خامیوں کیساتھ قبل از وقت سرکار کے حوالے کرنے کے بہت سارے اسباب ہیں۔ وہ سب بدعنوانی کے مسئلے سے بڑھ کر ہیں۔
نوکر شاہی، ایسی اہم مصیبت ہے جس نے سعودی وژن 2030 کی کرتا دھرتا شخصیات کو وژن کے بعض اہداف ملتوی کرنے پر مجبور کردیا۔ نوکر شاہی ناقابل تغیر ایسے قوانین کے سہارے قائم رہتی ہے جو منجمد ہوتے ہیں اور کسلمندی کو جنم دیتے ہیں۔ یہ قوانین ادارے کے ملازمین اور مدیران کے نجی مفادات سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ دیکھتے ہونگے کہ نوکر شاہی میں یقین رکھنے والا کارندہ ایسی کسی بھی مثبت تبدیلی کی راہ میں دیوار چین بن کر کھڑا ہوجاتا ہے جس سے کام رواں دواں شکل میں انجام دیا جاسکتا ہو۔
  یہ اور ان جیسے دیگر پیچیدہ مسائل دنیا بھر کے ممالک اور کمپنیوں میں کسی نہ کسی شکل میں پائے جاتے ہیں۔ کامیاب کمپنیاں اور ادارے اس سے مستثنیٰ مانے جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ بدعنوانی سے نمٹنے کا نہیں بلکہ اُس دفتری نظام کو درپیش کمزوریوں اور خامیوں کا ہے جو بدعنوانی کا باعث بن رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: