Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہد ، فِیہِ شِفآ ئٌ لِّلنَّاس

جن دنوں عیسائی دنیا تاریک دور سے گزر رہی تھی، اس وقت مسلمان طبیبوں نے طب میں حیرت انگیزکارنامے دکھائے
 
* * * مولاناعبد اللہ بن مسعود۔کراچی* * *
دینِ اسلام کا طرہ امتیازہے کہ یہ اپنے پیروکاروں کو افراط وتفریط سے بالاتر رکھ کر شاہراہِ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے۔کسی بھی شعبہ سے متعلق اس کے ارشادات وفرمودات کا جائزہ لیا جائے تو وصفِ اعتدال اس کے ہر ہرجزو میں واضح نظر آئے گا۔یہی وجہ ہے کہ جب انسان مصائب و تکالیف ،امراض واسقام کا شکار ہوتا ہے تو شریعت اس کو اپنے پرودگار کی طرف رجوع ،اور اس سے توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ جائز اسباب اختیار کرنے کی تعلیم بھی دیتی ہے بلکہ بہت سی بیماریوں کا علاج خود شریعتِ مطہرہ نے انسانیت کے فائدہ کی خاطر تجویز بھی فر مادیا ہے ،جس کا علم احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دنیائے حکمت میں طبِ نبوی کے عنوان سے موسوم کیا جاتا ہے۔
    اسلام سے قبل تاریخ کے جائزہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں طبی علم تقریباًبھلایا جاچکا تھا۔یہی نہیں بلکہ طبی علاج ومعالجہ کوغیر دینی عمل تصور کیا جاتاتھا ۔مشرکانہ جھاڑپھونک کا عروج تھا۔ نبی اکرمکی تعلیماتِ مبارکہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو ان فرسودہ خیالات واعتقادات سے نجات ملی اور علاج ومعالجہ کا صحیح اور دینی تصور قائم ہوا چنانچہ مشہور مورخ ڈگلس گتھری بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں میں طبی سائنس کی گہری دلچسپی اور فروغ کی اصل وجہ وہ ارشادات اور احکام تھے جو رسول اللہنے مسلمانوں کو دیئے تھے۔
    اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی جب یورپ اس حوالے سے انحطاط کا شکار تھا، دنیائے ا سلام کے زعمائے طب نے طبِ اسلامی کو خوب فروغ دیا جس کی گواہی دیتے ہوئے ڈونالڈکیمبل اپنی کتاب"Arabian Medical" میں اس طرح رقم طراز ہے:
    اسلامی سائنس (کے فروغ) کے دور میں یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا۔
     آگے لکھتا ہے :
    جن دنوں عیسائی دنیا تاریک دور سے گزر رہی تھی، اس وقت اسلام کے عالموں نے ’’علم الطب‘‘ میں حیرت انگیز سرگرمی کا مظاہرہ شروع کردیا ۔
    طبِ اسلامی کی اہمیت اور اہلِ اسلام کی اس میں ترقی اور برتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے بہترین ہسپتالوں کی بنیاد بغداد،دمشق،قاہرہ،غرناطہ ،قرطبہ اوراشبیلیہ وغیرہ میں پڑی اور مسلم اطباء کی ’’القانون‘‘ اور ’’الحاوی‘‘ جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں 600سال سے زیادہ عرصہ تک پڑھایا جاتا رہا ہے۔
    لیکن صد افسوس!کہ طبِ نبوی جو دنیائے اسلام کا ایک مقدس موضوعِ فکرومطالعہ تھا ،جس کی روشنی میں تجاویز کردہ امور دوا اور غذا کا بہترین مرکب اور قدرتی فوائدسے بھرپور ہوتے تھے، وہ اب محض کتابوں کی نذر ہو کر رہ گیا ہے اور بقول ِحکیم سعیدؒ رحمہ اللہ ،افسوس کہ تیرگیٔ خرد نے اور نیرنگیٔ  عصرِحاضر نے آج کی دنیائے اسلام کے زعمائے طب کو مرکز گریز بنا دیا اور وہ خود بھی آواز ِمغرب سے ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے ورثہ ہائے علمی کے ناقد بن گئے پھر یہ تنقید تنقیص میں بدل گئی۔
    لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طب سے متعلق ذخیرئہ احادیث کو امت کے سامنے پیش کیا جائے اور اس حوالے سے حکمائے اسلام کی تحقیقات اور تجاویز کو اہلِ اسلام کے سامنے اجاگر کیا جائے چنانچہ اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ذیل میں شہد سے متعلق فرمودات ِنبویہ اور اس کے چند فوائد کو ذکر کیا جاتا ہے۔
    لفظِ شہد اردو زبان کا لفظ ہے۔ فارسی اور ہندی میں بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور عربی میں اس کو عَسَل،انگریزی میں Honey ، فرانسیسی میں Miel، جرمن میںHonig، یونانی میںMeliاور بنگالی میں مودھو کہا جاتا ہے۔
    رب ِ ذوالجلال نے شہد کو باعثِ شفاء قرار دیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
    ’’ اس(شہد)میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں)کے لیے شفاء ہے۔‘‘(النحل69)۔
     اسی آیت کے تحت مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:
    ’’اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کی قاطع دلیل موجود ہے، کہ ایک چھوٹے سے جانور کے پیٹ سے کیسا منفعت بخش اور لذیذمشروب نکلتا ہے حالانکہ وہ جانور خود زہریلاہے ،زہر میں سے یہ تریاق واقعی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی عجیب مثال ہے ،پھر قدرت کی یہ بھی عجیب صنعت گری ہے کہ دودھ دینے والے حیوانات کا دودھ موسم اور غذا کے اختلاف سے سرخ و زرد نہیں ہوتا اور مکھی کا شہد مختلف رنگوںکا ہوجاتا ہے،اسی وجہ سے سورہ النحل ،آیت69 میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    ’’اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد)جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں۔‘‘
    محسنِ انسانیت جنابِ نبی کریم کے فرمودات سے بھی شہد کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے ،جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے :
    ٭ حضرتِ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
    ’’جو شخص ہر مہینے 3 دن تک صبح میں شہد چاٹے ،تو اس کو کوئی بڑی مصیبت نہیں پہنچے گی۔‘‘(سنن ابن ماجہ)۔
    ٭ حضرت عبد اللہؓ  نبی کریم کا فرمان نقل فر ماتے ہیں :
    ’’2 باعثِ شفاء چیزوں کو لازم پکڑ لو:
1: شہداور2:قرآن(سنن ابن ماجہ)۔
    رسولِ اکرم کی یہ حدیث ِمبارک بڑی جامعیت کی حامل ہے ۔اس میں طبِ الٰہی وبشری ،دواء ارضی و سماوی اورطبِ جسدی و نفسی کو جمع فرماکر دونوں کو اختیارکرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا جسمانی امراض کے لاحق ہونے کی صورت میں جس طرح اطباء وحکماء کی طرف رجوع کرکے علاج کرانا سنت ہے ،بالکل اسی طرح روحانی امراض (تکبر،عجب، حسد،ریاء وغیرہ)سے اپنے قلب کو پاک رکھنے کے لئے قرآن کریم کی تلاوت ،علماء کی رہنمائی میں احادیث کا مطالعہ اور اہل اللہ کی صحبت اختیار کرکے اپنی اصلاح کروانا بھی لازم او ر راحت ِدنیا وی واخروی کے حصول کی شاہِ کلید ہے۔
    ٭ ام المؤمنین حضرتِ عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھی چیز اور شہد مرغوب تھا(بخاری، باب: الدواء بالعسل)۔
    ٭ حضرت ابو سعیدؓ  فرماتے ہیں:ایک آدمی سرکارِ دو عالمکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہا :میرا بھائی پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے ،آپنے فرمایا :اس کو شہد پلاؤ،وہ دوسری بار آیا تو پھر آ پ نے اس کو شہد پلانے کی تاکید کی۔ اسی طرح تیسری مرتبہ بھی، جب چوتھی بار بھی آ کر اس نے شکایت کی تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :
    ’’تمہارے بھائی کا پیٹ تو جھوٹا ہوسکتا ہے لیکن اللہ کا کلام تو سچاہی ہے ،اس کو پھر شہد پلاؤ۔‘‘
     اس نے اس مرتبہ جا کر جب شہد پلایا تو اس کو شفا نصیب ہوگئی(بخاری، کتاب الطبّ، باب:الدواء)۔
    اس حدیث سے امراضِ بطن میں افادیتِ شہد کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ طبّ کے ایک بنیادی اور اہم ترین اصول کی طرف رہنمائی بھی ملتی ہے کہ کسی بھی مرض کے علاج کیلئے دوا کی مقدار ،اس کی کیفیت اور مریض کی قوت کی رعایت اور لحاظ رکھنا دوا کے مفید ہونے کے لئے انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں چوتھی بارشہد کے استعمال کرنے پر مرض سے افاقہ حاصل ہوا۔
    شہد کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود رسول اللہبھی اہتمام سے اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے ۔آپ کا معمول تھا کہ صبح کو شہد کے شربت کا پیالہ نوش فرماتے اور کبھی عصر کے بعد بھی پیتے تھے ۔ان اوقات میں جب پیٹ خالی ہو اور آنتوں کی قوتِ انجذاب دوسری چیزوں سے متاثر نہ ہو، شہد پینا جسم کے اکثر و بیشتر مسائل کا حل ہے۔
    حضرتِ عمرؓکے بارے میں آ تا ہے کہ اْن کے بدن پر اگر پھوڑا بھی نکل آتا تو اس پر شہد کا لیپ کرکے علاج کرتے تھے ۔بعض لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا : فِیہِ شِفآ ئٌ لِّلنَّاس ’’اس(شہد)میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں)کے لئے شفا ہے‘‘(معارف القرآن)۔
    اب سائنسی تحقیقات سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قدرت کی طرف سے جتنی اشیاء  غذا کے طور پر انسان کو مہیا کی گئی ہیں، ان میں شہد سب سے زیادہ مکمل اور جامع غذا ہی نہیں بلکہ اپنی طبّی خصوصیات کی بنا پر غذا اوردوا کے طور پر لا ثانی ہے چنانچہ یورپ اور دوسرے ممالک میں ایلو پیتھک کی متعدد دواؤں میں اس کا بے پناہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔اسی طرح یورپ کے ہسپتالوں میں چہرے کی حفاظت کیلئے جو Face Packبنائے جاتے ہیں ان میں شہد ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔
    شہد میں بہترین Preservative ہونے کی بناء پر اْسے پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگاہے کیونکہ یہ خود بھی خراب نہیں ہوتا اور دوسری اشیاء کی بھی طویل عرصہ تک حفاظت کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہزارہا سال سے اطباء اس کو الکحل کی جگہ استعمال کرتے آئے ہیں۔
    ماہرین ِ طب نے اپنی تحقیقات اور تجربات کی روشنی میں شہد کے کئی فوائد ذکر کیے ہیں جن میں سے چند فوائد ہدیۂ ناظرین کیے
 جاتے ہیں:
    ٭  شہد پیاس کو بجھاتا ہے۔
    ٭  حافظہ کو قوت بخشتا ہے چنانچہ امام ِزہری ؒ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے :
     ’’شہد کا اہتمام کروکیونکہ یہ حافظہ کے لئے بہترین ہے۔‘‘
    ٭  شہد ردی رطوبتیں نکالتا ہے۔
    ٭   اس کا کثرتِ استعمال استسقاء(ایک بیماری جس سے پیٹ بڑھ جاتا ہے اور پیاس بہت لگتی ہے)،یرقان ، عسرالبول ،ورمِ طحال،فالج ،لقوہ ،زہروں کے اثرات اور امراض سر وسینہ میں مفید ہے۔
    ٭   پتھری کو خارج کرتا ہے۔
    ٭  باہ ، بصارت ،اور جگر کو قوت ملتی ہے۔
    ٭   بو علی سینا اسے مقوی معدہ بھی قرار دیتے ہیں۔
    ٭   دانتوں کے لئے شہد ایک بہترین ٹانک ہے ۔اسے سرکہ میں حل کرکے دانتوں پر ملنا ان کو مضبوط کرتا ہے، اور مسوڑھوں کے ورم دور کرنے کے علاوہ دانتوں کو چمکدار بناتاہے،گرم پانی میں شہد اور سرکہ کے ساتھ نمک ملا کر غرارہ کرنے سے گلے اور مسوڑھوں کا ورم جاتا رہتا ہے۔
    ٭   نہار منہ شہد پینے سے پرانی قبض ٹھیک ہو جاتی ہے،کھٹے ڈکار آنے بند ہو جاتے ہیں اور اگر پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہو تو وہ نکل جاتی ہے۔
    ٭   اطبائے  قدیم نے افیون ،پوست اور بھنگ کے نشہ کو زائل کرنے کے لئے گرم پانی میں شہد مفید بتایا ہے۔
    ٭   انسان بڑھاپے میں عموماً3 مسائل کا شکار ہو تا ہے:۔1۔ جسمانی کمزوری۔2 ۔بلغم ۔3۔جوڑوں کا درد۔قدرت کا کرشمہ ہے کہ شہد کے استعمال سے یہ تینوں مسائل آسانی سے حل ہو جاتے ہیں۔
    ٭   شہد میں Antiseptic خصوصیات ہونے کی بنا پر زخموں پر لگانا یا جلی ہوئی جلد پر لگانا نہایت مفید پایا گیا ہے۔
    ٭   چہرے سے مہاسے اور پھنسیاں دور کرنے کے لئے بہت اچھا علاج سمجھا جا تا ہے۔
    ٭ طب ِنبوی کے مشہور مرتب علاء الدین کحال (وفات:720ھ،1320ء)نے شہد کو اسہال کے علاوہ غذائی سمیت یعنی Food Poisining میں مفید قرار دیا ہے۔
    ٭ طالبعلموں کے لئے انتہائی مفید بتایا جاتا ہے ،زیادہ دیر تک پڑھ سکنے کا باعث اور ان کی یادداشت کے بہتر رہنے کا ذریعہ ہے۔
    ٭  دل کے مریضوں کو اسے پینے کے دوران دورے نہیں پڑتے۔
    یہ شہد کی چند خصوصیات تھیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدرت کا یہ عظیم الشان تحفہ کتنی اہمیت و افادیت کا حامل ہے ،جوایک معمولی سی لطیف گشتی مشین جو ہر قسم کے پھل پھول سے مقو ّی عرق اور پاکیزہ جوہر کشید کرکے اپنے محفوظ گھروں میں ذخیرہ کرتی ہے، اس سے حاصل کیا جاتا ہے۔
    ربّ ذوالجلال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نعمتوں کی کما حقّہ قدردانی اور اپنے حبیب جناب ِنبی کریم کے قیمتی ارشادات کو اپنے سینوں سے لگانے کی توفیق عطاء فرمائے اور اپنے آبائواجداد کے حقیقی وارث بن کران کے علمی سرمایہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر لانے کیلئے قبول فرمائیں۔ آمین!
 

شیئر: