Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا کے سعودی مشاہیر

 مشاری الزایدی ۔ الشرق الاوسط
آج کل ٹویٹر پر سوشل میڈیا کی مشہور شخصیتوں کی پل پل خبر رکھنے پر پابندی کیلئے ہیش ٹیگ پذیرائی کے نقطہ عروج کو چھو رہا ہے۔
پابندی کی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ مشہور شخصیات لوگوں کے اخلاق اور ذہنوں کا مذاق بنا رہے ہیں۔ انہیں بے وقعت کررہے ہیں اور خود پسندی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں۔
یہ مشاہیر کے حوالے سے بڑی حجت ہے۔ یہ سوشل میڈیا کی مشہور شخصیات کے چکر میں نہ پڑنے کی تحریک کا بڑا عنوان ہے۔ اسکی اپنی جزئیات اور تفصیلات بھی ہیں۔ ہر ایک کے ذہن میں اسکی اپنی ضرورتیں بھی چھپی ہوئی ہیں۔ ذہنوں کے امراض کے ماہر ”متنبی“ کے بقول ہمیں اپنے دماغ سے کام لیکر اپنی گتھی سلجھانی چاہئے۔
جی ہاں انسانی بلبلے اور مسخ شدہ طور طریقے تباہ کن ناگہانی وبا کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ وبا زدہ گرم جھیل سے اڑنے والے پانی کے قطروں کی طرح پھیلتے چلے جارہے ہیں۔
جب سے سوشل میڈیا کا رواج آیا ہے تب سے یہ ہمارے اوقات اور اعصاب پر چھا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کو اس کی لت لگ گئی ہے۔ فقہائے اسلام کی زبان میں بلا عام ہوچکی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایسے لوگ جن کا دنیا کی صحافت سے دور پرے کا کوئی رشتہ ناتہ نہ تھا ،جنہیں حصص اور اقتصادی علوم کی الف ، ب تک معلوم نہیں وہ فکر و نظر اور تبصرے و تجزیے کے شہسوار بنے ہوئے ہیں بلکہ ڈھول کی طرح اندر سے خالی اِن لوگوں کا غرور اور انکی خود فریبی اس درجے کو پہنچ گئی ہے کہ یہ لوگ اب تو یہ دعوے بھی کرنے لگے ہیں کہ اگر ٹویٹر پر انہوں نے چشم کشا خیالات پیش نہ کئے ہوتے تو لوگوں کی زندگی میں سدھار نہ آیا ہوتا۔
یہ حضرات مکمل طمطراق کے ساتھ دعوے کررہے ہیں۔ ”ہمارے نزدیک یہ جائز نہیں“ ۔ سوال یہ ہے کہ آپ کو یہ رتبہ¿ بلند کہاں سے مل گیا کہ آپ یہ فرمانے لگیں کہ ”ہمارے نزدیک “ یہ جائز نہیں؟
سچائی یہ ہے کہ ایک حد تک اس صورتحال کے ذمہ دار وہ سرکاری ادارے اور بڑی کمپنیاں ہیں جنہوں نے گنے چنے ”ٹویٹ“ اور چند ”اسنیپ چیٹ “ پر لاکھوں ریال انکے کھاتوں میں جمع کرادیئے ہیں۔ اس سرپرستی نے ہی ہاتھ کی صفائی، لاپروائی، نمود و نمائش اور لچھے دار باتوں کے رواج کی جڑیں استوار کی ہیں۔
کیا موجودہ بیداری محض خلق خدا کو بے وقوف بنانے والی حرکت کے سوا کچھ نہیں؟ ممکن ہے سوشل میڈیا کی مشہور شخصیات سے لوگ حسد کے باعث اس قسم کی باتیں کررہے ہوں۔ میں ایک حد تک اس بات سے اتفاق بھی کرتا ہوں تاہم مشاہیر کے بعض ناقدین بھی سوشل میڈیا کی مشہور شخصیتوں کی طرح مشہور و معرو ف ہیں اور انکے فرمودات بھی سوشل میڈیا کے مشاہیر سے کسی درجہ کم وزن اور کم رتبے کے نہیں۔
یہ بات بالکل سچ ہے مگر ایک حق اور سچ یہ بھی ہے کہ کہانی اس سے زیادہ خطرناک اور بڑی ہے۔ اسکا تعلق ان اقدار کے مستقبل سے ہے جو علم و منطق کی علمبردار ہیںجو خاندان، اسکول اور معاشرے کے تقدس کی پاسبان ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ہم نے سوشل میڈیا سے امن و امان کو تہہ و بالا کرنے والا پہلو تو اب تک اٹھایا ہی نہیں۔ نقصان کا دائرہ ٹویٹر پر تخریبی تربیت ، تیشہ زنی، رابطہ لائن اور قدیم و جدید دہشتگردوں کے درمیان صوتی ترسیل کے محاذ تک ہی محدود نہیں بلکہ کافی دورتک چلا گیا ہے۔ یہ عوامی آگہی مہم کے عنوان سے تحفظ یافتہ فضولیات کے پنجوں کے نوچنے سے ہونے والے ذہنی خسارے تک چلا گیا ہے۔ یہ کام تاریک دور سے لیکر سوشل میڈیا کے ببولوں تک جاری و ساری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: